سرخیاں، متن اور شعر و شاعری…ظفر اقبال
ضمنی الیکشن میں ووٹ کو عزت دو کا نعرہ جیتے گا: شاہد خاقان عباسی
سابق وزیراعظم اور حالیہ انتخابات میں شکست خوردہ امیدوار شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ”ضمنی الیکشن میں ووٹ کو عزت دو کا نعرہ جیتے گا‘‘ کیونکہ صرف نعرہ جیتے گا اور ہمارے امیدوار ہار جائیں گے‘ جبکہ میرے الیکشن میں بھی ووٹرز کو اچھی طرح سے یاد تھا کہ ہمارے دور میں جو عزت ووٹر کو دی جاتی تھی؛ چنانچہ انہوں نے خود ہی ووٹ کو عزت دی اور ہماری کٹیا ہی ڈبو کر رکھ دی۔ انہوں نے کہا کہ ”عوامی کام ہی بولتے ہیں‘‘ البتہ ہمارے کام ذرا زیادہ ہی اونچی آواز میں بولنے لگے تھے اور اس شور میں کسی کو کان پڑی آواز بھی سُنائی نہ دیتی ‘ حتیٰ کہ نیب کو یہ شور شرابا بند کرنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ ”اب مسلم لیگ ن پہلے سے بھاری مینڈیٹ سے کامیاب ہوگی‘‘ جبکہ پہلے بھی مینڈیٹ اتنا بھاری تھا کہ ہم اس کا بوجھ برداشت ہی نہ کر سکے اور چِت لیٹ گئے۔ انہوں نے کہا کہ ”این اے 124 بھی مسلم لیگ کا قلعہ ہے‘ بلکہ اسے شاہی قلعہ کہنا چاہئے ‘کیونکہ ہمارے قائدین نے یہاں بادشاہوں کے انداز میں حکومت کی ہے۔ آپ اگلے روز شمالی لاہور میں مختلف یونین کونسلوں کا دورہ کر رہے تھے۔
اب عوام عمران خان کا اصلی چہرہ دیکھیں گے: حمزہ شہباز
نواز لیگ کے مرکزی رہنما اور رکن قومی اسمبلی حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ”اب عوام عمران خان کا اصلی چہرہ دیکھیں گے‘‘ کیونکہ ہمارا تو کوئی اصلی چہرہ تھا ہی نہیں اور شرافت کا نقاب اوڑھا ہوا تھا‘ جس سے اصلی چہرہ نظر ہی نہ آتا تھا‘ لیکن جن عوام کو ہم ازلی بیوقوف سمجھتے تھے‘ وہ اب ہوشیار ہو گئے ہیں اور نقاب میں بھی ہمارا اصلی چہرہ دیکھ کر الیکشن میں ہمارا چھابھلا اُلٹا کر رکھ دیا اور سارا نقاب ہی چیر پھاڑ دیا۔ انہوں نے کہا کہ ”غریبوں کو سُہانے خواب دکھانے والے حکومت میں آ کر تبدیل ہو گئے ہیں‘‘ جبکہ ہم نے کبھی ایسے خواب نہیں دکھائے اور حسین خواب خود ہی دیکھے جن کی تعبیر ایسی نکلی کہ عدالتوں کو اُن کی تشریح کرنا پڑی۔ انہوں نے کہا کہ ”ن لیگ عوام کے حقوق کے لیے اسی طرح آواز بلند کرتی رہے گی‘‘ اور اتنا بلند کرے گی کہ سیڑھی لگا کر اسے سُننا پڑے گا۔ آپ اگلے روز ایک نجی وی پر بیان جاری کر رہے تھے۔
افغانیوں اور بنگالیوں کو حقوق دینے سے تعداد بڑھ سکتی ہے: کائرہ
پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ”بنگالیوں اور افغانیوں کو حقوق دینے سے اُن کی تعداد بڑھ سکتی ہے ‘‘ حالانکہ انہیں حقوق کے بغیر رہنے کی ‘نا صرف عادت پڑی ہوئی ہے‘ بلکہ حقوق کے بغیر انہیں مزہ بھی آ رہا ہے‘ کیونکہ وہ حقوق کو حُقّے کی جمع سمجھتے ہیں اور سگریٹ‘ نسوار وغیرہ پر بخوبی گزارہ کر رہے ہیں‘ جبکہ ایم کیو ایم نے آبادی میں اضافہ کر کے الگ ہماری مت مار رکھی ہے۔ اس لیے ہم ایک اور مصیبت کو اپنے سر پر سوار کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ”صوبوں اور قومیتوں کو اس پر اعتراض ہوگا‘‘ کیونکہ یہ لوگ ہماری زبان بھی خراب کر رہے ہیں جو پہلے ہی ایم کیو ایم والوں کے رحم و کرم پر ہے‘ بلکہ حقوق حاصل کر کے اور آبادی میں اضافے سے وہ بھی ایم کیو ایم کی طرح اپنے لیے الگ صوبہ کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ آپ اگلے روز کراچی میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
مہنگائی بم سے پی ٹی آئی نے اپنے ہی منشور کے منہ
پرزور دار طمانچہ لگایا ہے: چودھری صادق
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما چوہدری محمد صادق نے کہا ہے کہ ”مہنگائی بم گرا کر پی ٹی آئی حکومت نے اپنے منشور کے منہ پر زبردست طمانچہ رسید کیا ہے‘‘ اور صاف صاف ہماری نقل کرنے کی کوشش کی ہے ‘جبکہ ہم نے اپنے منشور کو سنبھال کر رکھ دیا تھا‘ جو صرف ہمارے نعروں میں باقی رہ گیا‘ اس لیے حکومت کو چاہئے کہ ہمارے اور اوصافِ حمیدہ کی نقل کرنے کی بجائے اپنی اپنی چیز پیش کرے۔ انہوں نے کہا کہ ”عمران خان بھی نواز شریف حکومت کا ایک تسلسل ہے‘‘ کیونکہ باری تو ہماری تھی جیسا کہ نواز شریف کے ساتھ ہم نے طے کر رکھا تھا ‘لیکن اس نے میثاقِ جمہوریت کے خلاف چلتے ہوئے اپنا بھی بیڑا غرق کیا اور ہماری امیدوں پر بھی پانی پھیر دیا۔ آپ اگلے روز ایک مقامی روزنامے کے سروے کے دوران گفتگو کر رہے تھے۔
اور ‘ اب آخر میں کچھ شعر و شاعری ہو جائے:
کچھ چلا جاتا ہے دریائوں کے ہمراہ یہ دل
کچھ رگِ جاں ہی میں بہتا ہوا رہ جاتا ہے (مقصود وفا)
چاہے جتنی دستکیں دیجے مگر کھلتے نہیں
بعض دروازے کسی پر عُمر بھر کھُلتے نہیں
ہے یہ کھُلنے اور نہ کھلنے کا معمّہ بھی عجیب
کھُل بھی جاتے ہیں وہ گاہے‘ بیشتر کھُلتے نہیں
ایک نادیدہ قفس ہے اور میں اس میں قید ہوں
کھولنا چاہوں تو ساحرؔ میرے پر کھُلتے نہیں (پرویز ساحرؔ)
تُجھے کہا تھا کہ سائے کا اعتبار نہیں
کہاں گیا جو ترے ساتھ آتا جاتا تھا
گڑا ہوا تھا کسی سنگِ میل کی صورت
ہر ایک شخص مجھے دیکھنے کو آتا تھا
وہ ایک زخم کی بھی تاب لا نہیں پایا
جو دوسروں کے لیے برچھیاں بناتا تھا
پھر ایک دن مجھے دریا نے آ لیا‘ عامیؔ
میں کاغذوں سے بہت کشتیاں بناتا تھا (عمران عامیؔ)
میں ڈولتی ہوئی کشتی میں پائوں رکھ بیٹھی
کسی کا ہاتھ وہاں تھامنا پڑا ہے مجھے
تمہاری یاد نے آواز دی ہے برسوں بعد
تمہارا نام تلک سوچنا پڑا ہے مجھے
کبھی کبھی تو یونہی رک گئیں میری سانسیں
درونِ دل بھی تُجھے ڈھونڈنا پڑا ہے مجھے (یاسمین سحرؔ)
آج کا مطلع
میں نے پوچھا تھا‘ ہے کوئی اسکوپ
مسکرا کر کہا گیا نو ہوپ