سرخیاں ، متن ، ڈاکٹر کبیر اطہر اور فیاض بوستان….ظفر اقبال
بزدل چوہے الیکشن میں دم دبا کر بھاگیں گے : زرداری
سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ” بزدل چوہے الیکشن میں دُم دبا کر بھاگیں گے ‘‘ حالانکہ اگر بھاگنا ہی ہے ‘تو دم دبانے کی کیا ضرورت ہے۔ ویسے بھی بھاگ سکتے ہیں۔ جیسا کہ پی ٹی آئی میں ہمارے چوہے بھاگے ہیں‘ جن میں سے کئی ایک تو دم کھڑی کرکے بھی بھاگتے دیکھے گئے ہیں۔ نیز دم دبانے کیلئے نہیں ‘بلکہ اس پر کھڑے ہونے کے لئے بنائی گئی ہے جیسا کہ ایک چوہا شراب کے کنستر میں جاگرا اور جب نکلا تو دم کے بلے کھڑا ہو کر للکارا : بلی کہاں ہے؟ اسی طرح ہمارے چوہے بھی بہت بہادر ہیں اور بلیوں کو للکار سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ” جعلی شیر اور بزرگ کھلاڑی تیروں کی بارش کا مقابلہ نہیں کرسکتے ‘‘ بس ذرا تیر چلانے والوں کی دستیابی کا انتظار ہے‘ جو پتا نہیں کہاں غائب ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں لوگوں سے گفتگو کررہے تھے ۔
پنجاب بجلی پیدا کرتا ہے اور پورا ملک استعمال کررہا ہے : شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ” پنجاب بجلی پیدا کرتا ہے اور پورا ملک استعمال کررہا ہے ‘‘ کیونکہ اگر پورے ملک میں لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے‘ تو اس کا مطلب یہی ہے کہ بجلی اگر ہے‘ تو لوڈشیڈنگ ہے اور اگر بجلی نہ ہوتی ‘تو لوڈشیڈنگ کیسے ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ ”ہم عوامی خدمت کرتے ہیں ‘‘ اور پندرہ پندرہ لاکھ تنخواہ پر افسر رکھنے سے بڑی عوامی خدمت اور کیا ہوسکتی ہے‘ جس کا اعتراف اور تعریف عدلیہ نے بھی کی ہے ‘ خاص طور پر اس وقت جب خزانہ اس کا متحمل ہی نہ ہوسکتا تھا اور اسی طرح اصولی اصول پر اپنے عزیزوں اور دوستوں کو بھی حد سے بڑھ کر نوازا۔ انہوں نے کہا کہ ” محرومیوں کا مداوا کرنے کے لئے سر توڑ محنت کی ‘‘ اور اپنی محرومیوں کودور کرنے کے بعد جب عوام کی باری آئی‘ تو ہماری معیاد ہی ختم کر دی گئی۔ پانچ سال میعاد بڑھا دیں‘ پھر دیکھیں کہ ہم عوام کو کیسے خوش حال بناتے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں سابق وزراء اور ارکان اسمبلی سے گفتگو کررہے تھے ۔
پاکستان میں ووٹ مل جاتا ہے ‘ اختیار نہیں ملتا : سعد رفیق
سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ” پاکستان میں ووٹ مل جاتا ہے‘ اختیار نہیں ملتا ‘‘اور مجبوراً سارا کچھ اختیار کے بغیر ہی کرنا پڑتا ہے ؛حالانکہ اس سے بڑی قربانی اور کیا ہوسکتی ہے کہ اختیار کے بغیر ہی آپ کو کروڑوں اربوں خرچ کرنے پڑ جائیں اور یہی وہ مجبوری ہے‘ جس کا سامنا آج میاں شہباز شریف بیچارے عدالتوں میں کررہے ہیں کیونکہ خزانہ تو ہمیشہ بھرا رہتا ہے۔ کبھی خزانہ بھی خالی ہوا ہے ؟ اور جہاں تک ووٹ کا تعلق ہے‘ تو وہ بھی کون سا اپنے آپ مل جاتا ہے کہ اس کا سہرا بھی ان مہربانوں ہی کے سر جاتا ہے ‘جو آج آنکھیں ماتھے پر دھرے بیٹھے ہیں۔ آدمی کو کم از کم مستقل مزاج تو ہونا ہی چاہئے ۔ اس طرح تو بندہ ہر جائی مشہور ہو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ” سب چاہتے ہیں کہ ووٹ کے ذریعے تبدیلی آئے ‘‘ تاہم جو بہت بڑی تبدیلی ووٹ سے بھی پہلے آرہی ہے ‘ پریشانی کا اصل سبب تو وہ ہے کہ کوئی کہیں ہوگا اور کوئی کہیں ؛ حالانکہ سب کو ایک ہی جگہ رکھا جاسکتا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک افطار پارٹی سے خطاب کررہے تھے۔
من گھڑت مقدمے کا سامنا کروں گا : حمزہ شہباز
ن لیگ کے مرکزی رکن حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ” من گھڑت مقدمے کا سامنا کروں گا‘‘ اور یہ بات میں نے تایا جان سے سیکھی ہے کہ مقدمے کو من گھڑت کہو اور کہتے چلے جائو ‘تو وہ من گھڑت ہی ہو جاتا ہے اور یہ آپ کی ہمت پر منحصر ہے کہ آپ اسے کب تک من گھڑت کہنے کی گردان کر سکتے ہیں‘ جبکہ ان کے اپنے خلاف بھی سارے مقدمات من گھڑت ہی نکلے ہیں‘ کیونکہ انہوں نے کئی ہزار مرتبہ انہیں من گھڑت کہا تھا جبکہ مجھے کیوں نکالا کا بھی اب تک کوئی جواب نہیں دے سکا اور بہت جلد ہی وہ یہ کہہ کہہ کر سب کے ناک میںدم کرنے والے ہیں کہ مجھے جیل میں کیوں ڈالا ؟ بشرطیکہ وہ لندن یا دبئی نہ چلے گئے۔ انہوں نے کہا کہ ” ثابت کروں گا کہ تمام معاملات سے میرا کوئی تعلق نہیں ‘ لیکن اگر من گھڑت گواہوں نے کچھ اور کہہ دیا تو الگ بات ہے ، تاہم نتیجہ کچھ بھی نکلے ، من گھڑت مقدمہ من گھڑت ہی رہتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ مقدمہ درج ہونے کے باوجود پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی کیونکہ وہ خود ہی تو من گھڑت مقدمے بناتی ہے ۔ آپ اگلے روز آج وطن واپسی کا اعلان کررہے تھے ۔
اور ، اب کچھ شعروں شاعری ہو جائے !
عشق زندہ ہے اگر تجھ میں‘ دوبارہ کر تُو
ورنہ مرحوم کی یادوں پہ گزارہ کر تُو
ہار اور جیت بھلے کھیل کا حصہ ہیں‘ میاں
سامنے کون ہے یہ دیکھ کے ہارا کر تُو
تیری آواز مری نیند سے گھبراتی ہے
مجھ کو سانسوں کی صدائوں سے پکارا کر تُو
کتنا کر لیں گے سخن ہم تری خاموشی پر
بول اور ختم یہ سب کام ہمارا کر تُو
یہ مرا دکھ ہے میاں اور یہ خوشی ہے میری
کسی کو قربان کروں تجھ پہ ، اشارہ کر تو ( کبیر اطہر )
ہمارے گھر تیرا آنا جانا لگا رہے گا
اور ایسی باتوں پہ یہ زمانہ لگا رہے گا
ترے نہ ملنے تلک یہ دنیا یونہی رہے گی
مرے موبائل پہ ایک گانا لگا رہے گا
تری سمندر لُبھاتی آنکھوں میں بس رہے ہیں
ہمارا ساحل پہ جانا آتا لگا رہے گا
میں تین صدیاں تیرے نہ ملنے کے سوگ میں ہوں
ہمارے آنگن میں شامیانہ لگا رہے گا
تو چھت پہ آتی رہے گی ہر روز پیاری لڑکی
تو ان پرندوں کا آب و دانہ لگا رہے گا
میں جانتا ہوں یہ رستہ منزل سے ماورا ہے
تو فکر مت کر ، تجھے بھلانا لگا رہے گا(فیاض بوستان)
آج کا مطلع
ہوں اگر خاک نشیں‘ میں بھی ہوں
اس کی دنیا میں کہیں میں بھی ہوں