سرخیاں ، متن اور رفیع رضا کی شاعری…ظفر اقبال
معیشت چندے‘ سیاست گالی اور ملک جادو سے نہیں چل سکتے: بلاول
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ”معیشت چندے‘ سیاست گالی اور ملک جادو سے نہیں چل سکتے‘‘ اور نہ ہی ہم اسے اب چلنے دیں گے‘ کیونکہ پہلے تو خیال تھا کہ حکومت کچھ رعایت وغیرہ کرے گی‘ لیکن اب وہ والد صاحب کے حوالے سے سیریس ہی ہو گئی ہے‘ نیز میثاق جمہوریت کو زیادہ دیر تک نظر انداز نہیں کیا جا سکتا‘ اس لیے ہم نے نواز لیگ کے ساتھ مل کر ضمنی الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے‘ اگرچہ پنجاب میں ہم نواز لیگ کی اخلاقی مدد ہی کر سکتے ہیں‘ جبکہ اخلاق ہمارے اس وافر مقدار میں موجود رہے‘ اور جہاں تک جادو کا تعلق ہے‘ تو جادو سے حکومت صرف حاصل کی جا سکتی ہے ‘چلائی نہیں جا سکتی‘ جبکہ ہمارے نئے حلیف نواز لیگ نے بہت اچھا کیا‘ جو جاتے ہوئے سارا خزانہ خالی کر گئے‘ جس سے نئی حکومت کو چھٹّی کا دودھ یاد آ گیا ہے؛ اگرچہ مجھے معلوم نہیں کہ چھٹّی کا دودھ کیا ہوتا ہے‘ جس کے بارے میں والد صاحب اور انکل گیلانی سے پوچھوں گا‘ جو عوام کو یہ دودھ پلاتے رہے ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
طاہر القادری کا ہر الزام بے بنیاد ہے: مریم اورنگزیب
نواز لیگ کی ترجمان اور سابق وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ”طاہر القادری کا ہر الزام بے بنیاد ہے‘‘ کیونکہ اس واقعے میں بیشک چودہ پندرہ افراد جان کی بازی ہار گئے تھے اور انہیں اگر جان اتنی عزیز ہوتی ‘تو اس کی بازی ہی نہ لگاتے ‘ ورنہ کھیل میں تو ہار جیت ہوتی ہی رہتی ہے‘ نیز مرنے والوں کی زندگی ہی اتنی تھی اور انسان واقعی پانی کا بلبلہ ہوتا ہے‘ جو کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے‘ نیز ان کی موت وہیں پر واقعہ ہونی لکھی ہوئی تھی اور جس کی موت جہاں لکھی ہوئی ہو‘ وہاں سے ایک انچ اِدھر اُدھر نہیں ہو سکتی‘ جبکہ ہم اللہ میاں اور اس کے احکامات کے ماننے والے ہیں۔ اس لیے معصوم لوگوں پر اس طرح کے الزامات لگانا خدا تعالیٰ کی نافرمانی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ”طاہر القادری نے ہمارے قائد میاں نواز شریف کی نیوزی لینڈ میں سرکاری مل میں حصہ دار ہونے کا بیان بھی غلط ہے ‘‘ کیونکہ ہمارے قائد جب ہر جگہ سالم مل کے بروقت مالک ہو سکتے ہیں ‘تو انہیں حصہ دار بننے کی کیا ضرورت ہے‘ جو ان کے لیے ویسے بھی توہین آمیز ہے۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کر رہی تھیں۔
رانا مشہود نے جان بوجھ کر بات نہیں کی‘ منہ سے نکل گئی :مصدق ملک
مسلم لیگ ن کے رہنما مصدق ملک نے کہا ہے کہ ”رانا مشہود نے جان بوجھ کر بات نہیں کی‘ منہ سے نکل گئی ہو گی‘‘ اور‘ اتفاقاً منہ سے نکلی ہوئی باتیں‘ بعض اوقات کافی مفید بھی ثابت ہوتی ہیں‘ جیسا کہ اس سے لوگوں کو یہ بات معلوم ہو گئی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے ہماری واقعی صلح ہو گئی ہے‘ اگرچہ شریف برادران کی خواہش بھی یہی تھی کہ لوگوں اور خاص طور پر جعلی مینڈیٹ والی حکومت کو یہ معلوم ہو سکے کہ اس کے دن اب گنے جا چکے ہیں‘ اگرچہ بظاہر رانا صاحب کی رکنیت معطل کر دی گئی ہے اور انہیں شوکاز نوٹس بھی دے دیا گیا ہے‘ جس کے جواب میں ان کا یہ کہہ دینا ہی کافی ہوگا کہ یہ ان کا سیاسی بیان تھا‘ جس سے بات آئی گئی ہو جائے گی۔آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں شریک تھے۔
نئے پا کستان نے مہینے میں غریبوں کی چیخیں نکلوا دیں: سعد رفیق
سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ”نئے پاکستان نے مہینے میں غریبوں کی چیخیں نکلوا دیں‘‘ جن میں ہماری اپنی چیخیں سب سے بلند آواز میں سنائی دے رہی ہیں‘ کیونکہ ہم بھی اب غریبوں کی صف اوّل میں شمار ہوتے ہیں اور زیر تفتیش مقدمات کا منطقی نتیجہ نکلتا ہے ‘تو ہم بالکل ہی فُقرے ہو جائیں گے۔ اوپر سے ایک اور الیکشن بھی ہارنا پڑ رہا ہے اور اس کے بعد تو ہم پر زکوٰۃ بھی واجب ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ”عمران کے ساتھی بھگوڑے ہیں‘‘ جبکہ حسین نواز ‘ حسن نواز اور اسحق ڈار وہاں صرف تبدیلیٔ آب و ہوا کے لیے گئے ہوئے ہیں ‘کیونکہ ملکی فضا آج کل صحت کے لیے کچھ زیادہ مفید نہیں۔ آپ اگلے روز حلقے میں ایک کارنر میٹنگ سے خطاب کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں رفیع رضا کی شاعری:
یہ وقت ہے‘ یہاں رستے تمام ہوتے ہیں
یہاں سے آگے کوئی راستہ نکالنا ہے
ایک مجذوب اُداسی مرے اندر گُم ہے
اس سمندر میں کوئی اور سمندر گُم ہے
ہو سکتا ہے ملنے سے وہ انکار ہی کر دے
کافر وہ ذرا کم ہے‘ مسلمان زیادہ
کبھی جو خاک کی تقریبِ رونمائی ہوئی
بہت اُڑے گی وہاں بھی مری اُڑائی ہوئی
خود سے ملنے کا بھی اب وقت نہیں
ایسا ملنے کوئی آیا ہوا ہے
ایسے لگتا ہے کہ ناراضگی باقی ہے ابھی
ہاتھ تھاما ہے مگر تُم نے دبایا کم ہے
کیا نمودار ہو‘ نہیں معلوم
کب سے محوِ غبار ہیں آنکھیں
میں گرا سکتا ہوں دیوارِ بدن کو لیکن
میں اکیلا اسے تعمیر نہیں کر سکتا
ہماری لاشوں سے گزرو گے‘ کہہ دیا ہے تمہیں
نہیں ہٹیں گے وہاں سے جہاں کھڑے ہوئے ہیں
خود کار تو نہیں کہ دھڑکتا ہے دل یونہی
دل کو تمہاری یاد سے دھڑکا رہا ہوں میں
یہ کیا کِیا مجھے اُڑنا سکھا دیا تو نے
اب آسمان بھی مجھ کو پُرانا لگتا ہے
آج کا مطلع
اسی انواح میں اک راہ گزر ہوتا تھا
کہیں درپیش کبھی کوئی سفر ہوتا تھا