سرخیاں ، متن اور شعر و شاعری…ظفر اقبال
الیکشن سے قبل عدالتوں میں طلبی دھاندلی کا آغاز ہے: نواز شریف
مستقل نا اہل سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ”الیکشن سے پہلے عدالتوں میں طلب کرنا دھاندلی کا آغاز ہے‘‘ کیونکہ جس لیڈر کو اربوں کی کرپشن کے الزام میں طلب کر لیا جائے ‘اس سے اس کے ووٹرز پر جو اثر پڑے گا‘ اس کا عدالتوں کو احساس نہیں ہے۔ اسی لیے ہم نے ہر ایسے امیدوار کے ساتھ کورنگ امیدوار بھی شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘ کیونکہ بصورت ِدیگر ‘ یعنی امیدوار کے سزا ہو جانے کی صورت میں بھی دوبارہ الیکشن لڑنا پڑے گا؛ اگرچہ وہ بھی ہار جائے گا‘ کیونکہ دھاندلی کا باقاعدہ آغاز کر دیا گیا ہے اور اس دھاندلی سے ہمیں ہروایا جائے گا‘ پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ”ہر بات پر از خود نوٹس لیا جاتا ہے‘ ہمارے لوگوں کو جب دوسری جماعتوں میں شامل کیا جاتا ہے‘ تو کوئی نوٹس نہیں لیتا‘‘ کیا اس کا نوٹس اس وقت لیا جائے گا‘ جب ہمارا پورا ڈبہ ہی خالی ہو جائے گا۔آپ اگلے روز احتساب عدالت سے باہر گفتگو کر رہے تھے۔
ایجنسیوں نے سیاستدانوں کو پیسے دیئے: مخدوم جاوید ہاشمی
مستقل بزرگ سیاستدان مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا ہے کہ ”ایجنسیوں نے سیاستدانوں کو پیسے دیئے‘‘اگرچہ جملہ سیاستدان کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں‘ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کمر توڑ مہنگائی کے اس زمانے میں گزر اوقات بھی مشکل ہو گئی ہے اور ادھر ادھر سے مدد حاصل کرنا بیحد ضروری ہو جاتا ہے‘ جبکہ سیاستدان جتنا امیر بھی کیوں نہ ہو‘ دل کا غریب ہی ہوتا ہے اور اس غریبی کو دور بھی کرناپڑتا ہے؛ اگرچہ میں ذاتی طور پر اس چیز کو پسند نہیں کرتا‘ لیکن سیاست میں بعض ناپسندیدہ باتیں بھی کرنا پڑتی ہیں۔ اس لیے ان شرفاء کی مجبوریوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”خفیہ ہاتھ ہمیشہ سیاستدانوں کو استعمال کر کے پھینک دیتے ہیں‘‘ جو استعمال کرنے کی حد تک تو ٹھیک ہے‘ لیکن استعمال کر کے پھینک دینا ہرگز مناسب نہیں ‘کیونکہ یہ ہاتھ ہوتا ہے ‘ٹشو پیپر نہیں۔ آپ سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
عمران کسی اور کے لکھے سکرپٹ پر اداکاری کر رہے ہیں: عابد شیر علی
سابق وفاقی وزیر عابد شیر علی نے کہا ہے کہ ”عمران خان کسی اور کے لکھے سکرپٹ پر اداکاری کر رہے ہیں‘‘ لیکن ہمیں چونکہ اس وقت کسی نے سکرپٹ دیا ہی نہیں ‘اس لیے اپنے طور پر ہی آئیں بائیں شائیں کرنا پڑ رہی ہے‘ لیکن عمران خان یاد رکھیں یہ سکرپٹ صرف دو تین بار ہی ملا کرتا ہے‘ جس کے بعد آپ ویلے ہیں‘ اس لیے زیادہ بغلیں بجانے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”پی ٹی آئی کا انجام ق لیگ والا ہو گا‘‘ جو پی پی پی کے ارکان اسمبلی کے ساتھ حکومت بنا کر بیٹھ گئی تھی اور آج تک پچھتا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”عوام ووٹ شیر کو ہی دیں گے‘‘ اگرچہ زیادہ شیر اس وقت جیل میں ہوں گے اور باقی کرپشن کے تحت مقدمے بھگت رہے ہوں گے اور شیر دم دبا کر کہیں چھپ کے بیٹھا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ”پی ٹی آئی کا کوئی سیاسی مستقبل نہیں‘ کیونکہ اقتدار حاصل کر کے اس کا بھی وہی حشر ہو گا‘ جو ہمارا ہو رہا ہے۔ آپ اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
پنجاب میں بھی حکومت بنائیں گے: خورشید شاہ
قومی اسمبلی میں سابق قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا کہ ”سندھ پیپلز پارٹی کا قلعہ، پنجاب میں بھی حکومت بنائیں گے‘‘ البتہ جہاں تک سندھ قلعے کا تعلق ہے تو اس میں محصور اور محفوظ ہو کر بیٹھ جائیں گے اور بیرونی حملہ آوروں کا مقابلہ کریں گے اور جہاں تک پنجاب میں پچھلی بار حکومت نہ بنانے کا تعلق ہے ‘تو اس کی وجہ یہ ہے کہ جو کچھ پچھلے دور میں خدمت جمع کی تھی ‘اسے خرچ کرنے میں لگ گئے تھے ‘کیونکہ اللہ میاں کا حکم بھی ہے کہ میرے دیئے ہوئے پیسے کو خفیہ اور اعلانیہ خرچ کرو؛ اگرچہ اس خدمت کے حصول میں خفیہ طریقوں سے کام لیا گیا تھا ۔انہوں نے کہا کہ ”اصغر خان کیس میں نام غلطی سے آیا‘‘ اور وہ غلطی میری اپنی یہ تھی۔ آپ سکھر ایئر پورٹ پر استقبال کرنے والوں سے بات کر رہے تھے۔
اور اب آخر میں شعر و شاعری:
پلی بڑھی ہے یہ خلقت خراب خبروں میں
سو‘ کم بری ہو تو اچھی خبر سمجھتی ہے
گزر بھی سکتا ہے مہتاب میرے سینے سے
کہ روشنی مجھے راہ سفر سمجھتی ہے (کبیر اطہر)
میری نظر سے اگر دیکھ لو سمندر کو
تو اس کے دونوں کنارے ملا دیئے گئے ہیں
ہمارے دل میں ہی روشن تھا وہ گل ِ شعلہ
ہم اک چراغ کے اندر کھلا دیئے گئے ہیں (نوید فدا ستّی)
بس ایک بار جھلک اس کی دیکھنے کے لیے
میں تنگ پڑ گیا ہوں جلتے بجھتے خوابوں سے (زبیر قیصر)
تو بہت دور رہا میری خوشی کی خاطر
میں بہت دور رہا اپنی خوش امکانی میں (احسان اصغر)
تمہارے ملنے سے پہلے کی بات ہے شاید
یہ سارے لوگ‘ یہ چیزیں مخالفت میں نہ تھیں (مثردم خان)
ایک دوجے کو لے کے باہوں میں
سو گئے ہیں تمہاری شال اور میں (عبدالقیوم)
کیوں نہ ہر سمت نظر آئیں نظارے اپنے
آپ سے جوڑ کے تقسیم کیا ہے خود کو (رضا تونسوی)
خود بخود تو یہ تصور نہیں بن جاتے ہیں
خود کو مامور تیرے خواب میں لانے پر ہوں (ذی شان ساجد)
آج کا مطلع
مکیں سو گئے ہیں‘ مکاں چل رہا ہے
شجر کٹ گیا‘ آشیاں چل رہا ہے
آج کا مقطع
ظفرؔ پیر صاحب تو پکڑے گئے ہیں
اسی طرح سے آستاں چل رہا ہے