سرخیاں ، متن اور شعر و شاعری…ظفر اقبال
کبھی کبھی انسان پر ایک ساتھ مشکلیں آتی ہیں: نواز شریف
مستقل نا اہل سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ”کبھی کبھی انسان پر ایک ساتھ مشکلیں آتی ہیں‘‘ جیسا کہ ایک ساتھ ہی اتنے مقدمات بن گئے ہیں‘ جبکہ پہلے تو ہر کارروائی اور ہر تحقیقات قومی مفاد میں ختم کر دی جاتی تھیں‘ لیکن ایسا لگتا ہے کہ اب نیب اور عدالتوں کو قومی مفاد کا ذرّہ بھر بھی خیال نہیں رہا ہے اور قوم کا جو حشر ہو چکا ہے‘ اس کے پیش نظر تو اس کے مفاد کا زیادہ سے زیادہ خیال رکھنا چاہئے تھا، ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ”میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہے‘‘ اور جب سے میں یہاں پہنچا ہوں ‘میری اہلیہ بے ہوش ہیں ‘جو شاید میری آمد کا سن کر خوشی میں ایسا ہو گیا ہے‘ ورنہ معلوم ہوا ہے کہ میرے آنے سے پہلے وہ ماشاء اللہ بالکل ٹھیک ٹھاک تھیں ‘لیکن اب تو نہ وہ بات سنتی ہیں اور نہ ہی کسی بات کا جواب دیتی ہیں۔ آپ اگلے روز لندن میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
پیپلز پارٹی خواتین کے حقوق کیلئے جدوجہد کرتی رہے گی: زرداری
پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین آصف علی زرداری نے کہا ہے ”پیپلز پارٹی خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد کرتی رہے گی‘‘ اور اس کا آغاز ہم نے ایان علی کے حقوق کے تحفظ کی جدوجہد سے شروع کر رکھا ہے‘ جس کے کافی مثبت نتائج برآمد ہو رہے ہیں اور اسی طرح ڈاکٹر عاصم کے سلسلے میں بھی جدوجہد کی جا رہی ہے‘ کیونکہ ان کی اہلیہ کا تقاضا ہے کہ ان کے شوہر کی جان چھڑوا کر ان کے ازدواجی حقوق کا تحفظ کیا جائے؛ چنانچہ اسی طرح یہ سلسلہ جاری رہے گا‘ جبکہ چند دیگر خواتین نے بھی اسی سلسلے میں ہمارے ساتھ رابطہ قائم کیا ہے‘ جس کی ہم نے فہرست بنانا شروع کر دی ہے‘ تا کہ اقتدار میں آتے ہی ان کے حقوق کے لیے جدوجہد شروع کر دی جائے۔انہوں نے کہا کہ ”مذہب کے نام پر حقوق غصب نہیں ہونے چاہئیں‘‘ کیونکہ اس نیک کام کے لیے ‘اگر اور کافی طریقے موجود ہیں ‘تو مذہب کا نام استعمال کرنے کو کی کیا ضرورت ہے۔ آپ اگلے روز بینظیر بھٹو کی سالگرہ پر پیغام دے رہے تھے۔
لوہے کے چنے خود چبانے پڑ گئے ہیں: سعد رفیق
سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ”لوہے کے چنے خود چبانے پڑ گئے ہیں‘‘ جیسے زرداری صاحب فوج کی اینٹ سے اینٹ بجانا چاہتے تھے ‘لیکن اپنی اینٹ سے اینٹ بجوا بیٹھے‘ جبکہ لوہے کے چنے تو واقعی بہت سخت ہوتے ہیں ‘جو میاں صاحب کی سٹیل مل میں تھوک کے حساب سے تیار ہوتے ہیں‘ جو شاید بھنے ہوئے نہیں تھے‘ لیکن بھنووانے کے بعد بھی ویسے کے ویسے ہی سخت ہیں اور اگر کچھ دیر مزید چبانا پڑے تو دانت بھی نئے لگوانا پڑیں گے‘ جبکہ نقلی دانتوں سے انہیں چبانا تو اور بھی مشکل ہو جائے گا اور جہاں تک زرداری کے اینٹ سے اینٹ بجانے کا تعلق ہے ‘تو انہیں یہ سبق ہم سے سیکھنا چاہئے ‘جو خلائی مخلوق کا نام دے کر سارا کچھ کہہ جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ” چوہدری نثار کو پارٹی میں واپس لائیں گے‘‘ جس کے لیے پرویز رشید صاحب بھی سر توڑ کوشش کر رہے ہیں ‘جو ہر وقت چوہدری نثار کو مِس کرتے رہتے ہیں اور انہیں واپس لانے کے لیے بہت بیقرار ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک انٹرویو دے رہے تھے۔
لندن فلیٹس کبھی نواز شریف کی ملکیت نہیں رہے: خواجہ حارث
سینئر ایڈووکیٹ اور میاں نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا ہے کہ ”لندن فلیٹس کبھی نواز شریف کی ملکیت نہیں رہے‘‘ بلکہ ان کے بیٹوں کی ملکیت میں ہیں‘ جنہوں نے اپنی طالب علمی کے زمانے میں ہی انہیں خرید لیا تھا اور حسین نواز کے الحمد اللہ کہنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ یہ سب اللہ میاں کی مہربانی ہے کہ وہ اگر دیتا ہے ‘تو چھپڑ پھاڑ کر دیتا ہے اور یہ نہیں دیکھتا کہ لینے والا طالب علم ہے یا کوئی اور انہوں نے کہا کہ ”الزام ثابت کئے بغیر بارِ ثبوت ملزموں پر ڈال دیا گیا‘‘ جبکہ پارلیمنٹ میں دیا گیا نواز شریف کا بیان کہ فلیٹ ہمارے ہیں اور ان کا پورا ثبوت موجود ہے‘ تو وہ محض ایک سیاسی بیان تھا‘ جو ان کے گلے پڑ گیا اور اتنی لمبی منی ٹریل آخر کوئی سنبھال کر کب تک رکھ سکتا ہے اور اسی سیاسی بیان کی وجہ سے بارِ ثبوت خواہ مخواہ ملزموں پر ڈال دیا گیا کہ منی ٹریل پیش کرو ‘جبکہ نواز شریف کو تو پتا ہی نہیں کہ منی ٹریل کیا ہوتی ہے۔ آپ اگلے روز احتساب عدالت میں دلائل دے رہے تھے۔
اور اب کچھ شعر و شاعری ہو جائے۔
میں ہر طرح کے اندھیروں میں آزماتا ہوں
یہ روشنی جو میرے دل میں تیرے نام کی ہے
اسی لیے تو مجھے دیکھ کر گٹکتے ہیں
کبوتروں کو بھی عادت دعا سلام کی ہے
وہ جس کے پیڑ پرندے سفر میں رہتے ہیں
سخن کے باغ کی مٹی اسی مقام کی ہے
میں دوستوں میں رہوں‘ اس لیے میری خواہش
بہشت اور جہنم کے انضمام کی ہے
کبیرؔ دن میرے اندر غروب ہوتے ہیں
کہ مجھ میں صرف اداسی ہے اور شام کی ہے (کبیرؔ اطہر)
کر تو رہے ہیں آگ بجھانے کی کوششیں
جلتی پہ تیل ڈال کے پانی کے زور پر (مسعود احمد)
خود وہ بے روزگار ہے کب سے
جس کو دی ہم نے کام کی درخواست (رستم نامی)
جو میرے سچ پہ روٹھ جاتے ہیں
ان سے بولے ہی جھوٹ جاتے ہیں
اک بہانہ ہے پاس آنے کا
یا بٹن روز ٹوٹ جاتے ہیں
صرف حجت ہے آگہی ورنہ
لوگ ویسے بھی لوٹ جاتے ہیں (ایمان قیصرانی)
آج کا مطلع
یوں بھی کچھ کرتا کراتا نہیں وہ
روٹھ جائیں تو مناتا نہیں وہ