سرخیاں ان کی، متن ہمارے…ظفر اقبال
بلدیاتی نظام کو کسی صورت تبدیل نہیں ہونے دیں گے: حمزہ شہباز
نواز لیگ کے مرکزی رہنما اور رکن قومی اسمبلی حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ”بلدیاتی نظام کو کسی صورت تبدیل نہیں ہونے دیں گے‘‘ کیونکہ پہلے تو ہماری حکومت ہاتھ سے نکل گئی اور اب بلدیات کو اختیارات اور فنڈز دے کر ہمیں بالکل ہی کنگال کرنے کی سازش کی جا رہی ہے کہ یہ فنڈز جو ہم ارکان اسمبلی کے کام آتے تھے‘ ہمیں ان سے بھی محروم کر دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ”پنجاب بھر میں مسلم لیگ ن کے 56 ہزار نمائندہ ہیں‘‘ جو نالیوں اور گلیوں کی دیکھ بھال نہایت مہارت سے کر سکتے ہیں‘ اس لیے بڑے منصوبے ان کے سپرد کرنے سے ان کی صحت پر بہت بُرا اثر پڑے گا اور اُن کا ہاضمہ بھی خراب ہو جائے گا‘ کیونکہ ہم تو تایا جان کی طرح پھکّی اور چورن وغیرہ استعمال کر لیتے ہیں‘ یہ بیچارے تو اس کے بھی متحمل نہیں ہو سکتے۔ اس لیے بہتر ہے کہ انہیں اس کڑی آزمائش میں نہ ڈالا جائے۔ آپ اگلے روز بلدیاتی نمائندوں کے اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
لوڈ شیڈنگ نہ رکی تو حکمرانوں کا گھیرا تنگ کر دینگے: مرزا جاوید
مسلم لیگ ن کے ایم پی اے محمد مرزا جاوید نے کہا ہے کہ ”لوڈ شیڈنگ اور مہنگائی سے نجات نہ ملی تو حکمرانوں کا گھیرا تنگ کر دیں گے‘‘ اگرچہ یہ دونوں تمغے ہماری ہی سابق حکومت کے عطا کردہ ہیں ‘لیکن اس سے پہلے کہ ہم ان کا گھیرا تنگ کرتے ان کا گھیرا کرپشن مقدمات مقدمات نے پہلے ہی تنگ کر دیا اور ہم دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے؛ حتیٰ کہ اب رفتہ رفتہ باقی ماندہ حضرات کا گھیرا بھی تنگ کرنے کے انتظامات کیے جا رہے ہیں‘ جبکہ گھیرا اگر اپنی حد سے بڑھ جائے‘ تو ہم اسے خود ہی تنگ کر دیتے ہیں اور یہ گھیرا انہیں خود ہی بری طرح سے گھیر لیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”اس صورت میں لوگ خود ہی حکمرانی کا حق چھین لیں گے‘‘ اگرچہ لوگ خاصے کمزور ہو چکے ہیں ۔ انہوں نے جیل کی سلاخیں توڑ کر نواز شریف کو باہر نکالنا تھا‘ لیکن وہ درمیان میں ہی ٹھس ہو کر رہ گئے اور میاں صاحب اندر ان کی جان کو رو رہے ہیں اور مستقبل قریب ‘بلکہ بعید میں بھی ان کے باہر آنے کا کوئی امکان نہیں ‘ آپ اگلے روز حمزہ شہباز سے ملاقات کر رہے تھے۔
نواز شریف کو انصاف نہ ملنا‘ عدالتی عمل
میں تاخیر قابل تشویش ہے: افضل کھوکھر
مسلم لیگ ن کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی ملک محمد افضل کھوکھر نے کہا ہے کہ ”نواز شریف کو انصاف نہ ملنا‘ عدالتی عمل میں تاخیر قابل تشویش ہے‘‘ کیونکہ ہمارے نزدیک انصاف کے فیصلے کا مطلب وہ فیصلہ ہے‘ جو نواز شریف کے حق میں ہو‘ جبکہ آج تک ویسے بھی کوئی فیصلہ ان کے خلاف نہیں آیا ہے ‘جبکہ تاخیر کا مطلب یہ ہے کہ جو کٹی کٹا نکلنا ہے‘ جلد ہی نکل آئے‘ تا کہ جیل میں نواز شریف اور باہر ان کے متوالے سکھ کی نیند سو سکیں ۔ انہوں نے کہا کہ ”نواز شریف پر کرپشن کا ایک بھی کیس ثابت نہیں ہوا‘‘ کیونکہ ہنر مند لوگ یہ کام کرتے ہی اس نفاست سے ہیں کہ کوئی ثبوت باقی ہی نہیں رہتا ؛البتہ منی ٹریل کا معاملہ ذرا مختلف ہے ؛حالانکہ منی بنانا اور منی ٹریل یاد رکھنا دو مختلف کام ہیں اور ایک وقت میں ایک ہی کام ہو سکتا ہے‘ جبکہ کام بھی خاص طور پر اتنا نازک ہو‘ اور ایک نازک مزاج آدمی بیک وقت دونوں کام کر بھی کیسے سکتا ہے۔ آپ اگلے روز رائیونڈ میں حمزہ شہباز سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
پیپلز پارٹی نے حکومتی امیدوار کی
فتح یقینی بنانے میں کردار ادا کیا: اسد علی
مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما ملک اسد علی اشرف نے کہا ہے کہ ”پیپلز پارٹی نے حکومتی امیدوار کی فتح یقینی بنانے میں کردار ادا کیا‘‘ اور یہ بھی اس نے تکلف میں کیا ‘ورنہ حکومتی امیدوار کے ووٹ دوسرے اور امیدواروں کے ملا کر بھی زیادہ تھے۔ انہوں نے کہا کہ ”مولانا فضل الرحمن بہترین امیدوار تھے‘‘ البتہ شہرت کی بات اور ہے ‘کیونکہ شہرت تو ہر سیاستدان کی ایسی ویسی ہی ہوتی ہے‘ کیونکہ میدان سیاست میں تو ‘جیہڑا بھنو لال اے‘ کی کیفیت ہی پائی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”پیپلز پارٹی کے سوال تمام اپوزیشن جماعتوں نے انہیں ووٹ دیا‘‘ ماسوائے ہماری چند کالی بھیڑوں کے جو بھیڑ چال چلتے ہوئے پیپلز پارٹی اور حکومتی امیدوار کو ووٹ دے‘ بھینسیں اور بھیڑ ہونے کی بجائے‘ انہوں نے بھیڑیا ہونے کا ثبوت دیا۔ انہوں نے کہا کہ ”اپوزیشن کی تقسیم سے آئندہ بھی نقصان ہونے کا خدشہ ہے‘‘ حالانکہ جو کچھ ہونا تھا ‘وہ تو سارے کا سارا ہو چکا تھا اور اب باقی صرف باتیں ہی باتیں رہ گئی ہیں۔ آپ اگلے روز شیخوپورہ میں میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔
صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی سے
غیر جانبداری کی امید نہیں کر سکتے: رانا جمیل منج
نواز لیگ کے سینئر رہنما رانا جمیل احمد منج نے کہا ہے کہ ”صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی سے غیر جانبداری کی امید نہیں کر سکتے‘‘ کیونکہ وہ دانتوں کے ڈاکٹر ہیں‘ جبکہ ہمارے دانت تو ٹھیک ہیں‘ لیکن مسوڑھے تبدیل کروانے کی ضرورت ہے اور ان سے اس کی توقع نہیں کی جا سکتی‘ کیونکہ ان کے پاس مسوڑھوں کے حوالے سے کوئی ڈگری یا تجربہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”صدر وفاق کی علامت ہوتا ہے‘‘ اور اس کے فرائض بھی علامتی ہوتے ‘جبکہ ان کا کامیاب ہونا کوئی اچھی علامت نہیں ہے اور دو دانتوں کی کسی بیماری کی علامت کا صحیح اندازہ بھی نہیں لگا سکتے؛ اگرچہ ہم دانتوں سے کام لینے کے قابل رہے ہی نہیں؛ البتہ جس کام کے لیے ہم نے دانت تیز کیے تھے ‘ وہ چیر پھاڑ ہم نے پوری طرح سے کر لیتی‘ کیونکہ یہ ہاتھی کے دانت نہیں تھے‘ جو کھانے کے اور ‘ اور دکھانے کے اور ہوتے ہیں اور اس کی بجائے وہ شیر کے دانت تھے۔ اگرچہ شیر اب بوڑھا ہو چکا ہے اور شکار وغیرہ کے قابل ہی نہیں رہا۔ آپ اگلے روز رائیونڈ میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
آج کا مقطع
ظفرؔ‘ آنکھیں کھُلی رکھنا
تماشا ہو بھی سکتا ہے