کاش یومِ آزادی پر شفاف انتخابات کی خوشی منا سکتے: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ”کاش یومِ آزادی پر شفاف انتخابات کی خوشی بھی منا سکتے‘‘ بلکہ مجھے کہنا تو یہ بھی چاہئے تھا کہ کاش نواز شریف بھی ہمارے ساتھ جیل سے باہر ہوتے‘ لیکن خدا لگتی بات تو یہ ہے کہ وہ باقاعدہ ایک قصۂ پارینہ ہو چکے اور تاریخ کا حصہ ہیں‘ اس لیے ان کے حوالے سے یہ خواہش بھی وقت ضائع کرنے کے برابر ہے‘ کیونکہ ابھی کئی اور بیشمار مقدمات ہیں ‘جن میں بے شمار سزائیں ہونی ہیں اور اب ان کا ذکر تاریخ کی کتابوں میں ہی ملا کرے گا اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا‘ تو یہی مذاق میرے ساتھ بھی ہونے والا ہے اور یہ ایک ایسا مذاق ہو گا کہ اس پر ہنسی کی بجائے رونے پیٹنے کو جی چاہے گا۔ انہوں نے کہا کہ ”نواز شریف کے ساتھ مجرموں جیسا سلوک بند کیا جائے‘‘ اگرچہ وہ ایک سزا یافتہ اور پکے مجرم ہیں اور ابھی مزید پختہ ہونے والے ہیں۔ آپ اگلے روز یوم آزادی کے موقعہ پر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
ملک کو خوف کے حصار سے نکلنا ہوگا: آصف علی زرداری
سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ” ملک کو خوف کے حصار سے نکلنا ہوگا‘‘ جو اس خوف میں مبتلا ہے کہ ہم کہیں پھر اقتدار میں نہ جائیں‘ خاطر جمع رہے‘ اس کا دور دور تک کوئی امکان نہیں اور جو چار آنے پچھلی بار کمائے تھے‘ انہی پر گزارہ کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ”خوشحالی اور امن کا راستہ کافی طویل ہے‘‘ حتیٰ کہ اب تو ہماری اپنی خوشحالی کا راستہ بھی کافی طویل نظر آ رہا ہے اور حسب ِسابق اس خوشحالی کے لیے سندھ حکومت پر ہی اکتفا کرنا ہوگا‘ کیونکہ فرنٹ مین بھی وہیں ‘جوانیاں مان رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ”پاکستان کو ایک جمہوری‘ ترقی پسند‘ لبرل اور فلاحی مملکت بنائیں گے‘‘ بشرطیکہ ہمیں اپنی فلاح و بہبود سے فرصت مل گئی‘ تو کیونکہ محاورہ بھی یہی ہے کہ اوّل خویش‘ بعد درویش ‘اس لیے اپنے بعد درویش عوام کے لیے بھی کوشش کریں گے۔ آپ اگلے روز یوم آزادی پر ایک پیغام نشر کر رہے تھے۔
نواز شریف اگر مہم چلاتے‘ تو پی ٹی آئی
کی ضمانتیں ضبط ہو جاتیں: احسن اقبال
سابق وفاقی وزیر چوہدری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ”نواز شریف مہم چلاتے تو پی ٹی آئی کی ضمانتیں ضبط ہو جاتیں‘‘اگرچہ ان کا بیانیہ بری طرح پٹ چکا تھا اور ترقی کو بھی کرپشن کی پیداوار کہہ چکے تھے‘ لیکن خلائی مخلوق کو ضرور کشی نہ کسی طرح راضی کر لیتے‘ لیکن یہ تبھی ہو سکتا تھا ‘اگر وہ قید نہ ہو جاتے‘ اس لیے ہم نے اپنی ضمانتیں بھی بڑی مشکل سے بچائی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ”نواز شریف کو ان کے نعرے ‘ووٹ کو عزت دو‘ کی سزا دی جا رہی ہے‘ لیکن ووٹر اس دھوکے میں نہیں آئے اور عمران خان کو ووٹدے کر یہ ثابت کر دیا کہ ووٹ کو عزت کس طرح دی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”پاکستان کو بے شمار قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا‘‘ اور قربانیوں کا یہ سلسلہ نواز شریف کی قربانیوں تک جاری و ساری ہے اور انہیں لندن کے چند فلیٹ ہی بچے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ”آج ملک کو ایٹمی طاقت بنانے والے کو جیل بھیج دیا گیا‘‘ اگرچہ یہ کارنامہ بھی فوج ہی نے سر انجام دیا تھا‘ کیونکہ امریکی ٹیلیفون پر ان کی تو ٹانگیں کانپ رہی تھیں‘ تاہم اتنے میں بھی انہیں اپنی من مانیاں کرنے کا حق حاصل ہو گیا تھا۔ آپ جشن آزادی کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
قوم جانتی ہے پی ٹی آئی کس طرح اقتدار میں آئی: افضل کھوکھر
ن لیگ کے نو منتخب ایم این اے ملک محمد افضل کھوکھر نے کہا ہے کہ ”قوم جانتی ہے تحریک انصاف کس طرح اقتدار میں آئی‘‘ اور یہ بھی اچھی طرح سے جانتی ہے کہ ہم کس طرح اقتدار میں آیا کرتے تھے‘ اسی لیے اسے اس پر کوئی حیرت نہیں ہوئی ‘جو کہ محض ایک روٹین کا معاملہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”میاں نواز شریف نے اپنی بیٹی مریم کے ساتھ جیل میں جا کر جمہوریت بچانے کی ایک مثال قائم کی ہے‘‘ اور یہ مثال قائم کرنے کے لیے انہیں سر توڑ کوشش کرنا پڑی اور کرپشن‘ منی لانڈرنگ اور جعل سازی وغیرہ کے ذریعے اس عظیم مرتبے کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے‘ بلکہ ابھی یہ مثال حسین نواز اور حسن نواز کے پکڑے جانے کے بعد مزید روشن ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں جمہوریت کی سب سے بڑی حامی مسلم لیگ (ن) جو جنرل ضیاء الحق کے سنہری اصولوں پر عمل کرتے ہوئے جہاں تک پہنچتی ہے اور اسی لیے جرنیل مرحوم نے نواز شریف کو اپنی عمر لگنے کی بھی دعا دی تھی۔ آپ اگلے روز حلف اٹھانے کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
ملک کے مفاد کی جنگ آئندہ بھی لڑتے رہیں گے: تنویر حسین
سابق وفاقی وزیر رانا تنویر حسین نے کہا ہے کہ ”ملک کے مفاد کی جنگ آئندہ بھی لڑتے رہیں گے‘‘ کیونکہ ملک کے مفاد کی جنگ لڑتے لڑتے ہی ہمارے قائد آج کل ایک قیدی کی زندگی گزار رہے ہیں ‘جو کہ ملکی سرمایہ ‘ یہاں پر محفوظ نہ ہونے کے باعث امانت کے طور پر لندن وغیرہ منتقل کرتے رہے اور جسے مزید محفوظ بنانے کے لیے وہ اپنی جائیدادوں کو ٹھکانے بھی لگا چکے ہیں اور ان کے صاحبزادوں نے وہ فلیٹ خالی بھی کر دیئے ہیں تا کہ حکومت اس امانت میں خیانت نہ کر سکے۔ انہوں نے کہا کہ ”آج ملک کو بے پناہ چیلنجز در پیش ہیں‘‘ جو ہماری ہی عاجزانہ کوششوں کا نتیجہ ہیں ‘تا کہ قوم مردانہ وار ان کا مقابلہ کر سکے‘ جبکہ ہمارے قائد جیل کے اندر سے ان کا مجاہدانہ مقابلہ کر رہے ہیں اور جس کی دھاک پوری دنیا میں بیٹھ چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”ہمیں تمام اختلافات بھلا کر خدمت کرنی چاہئے‘‘ تا کہ اپنے قائد کی روایت پر عمل کرتے ہوئے ‘انہی کی طرح سرخرو ہوں۔ آپ اگلے روز پرچم کشائی کے بعد خطاب کر رہے تھے۔
آج کا مطلع
میں چلتے چلتے اپنے گھر کا رستا بھول جاتا ہوں
جب اس کو یاد کرتا ہوں تو کتنا بھول جاتا ہوں