سرخیاں ‘متن اور تازہ غزل…ظفر اقبال
عدالتی فیصلے انتقامی کارروائیاں‘ کارکن کال کا انتظار کریں : نواز شریف
تاحیات نااہل سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ”عدالتی فیصلے انتقامی کارروائیاں ہیں‘ کارکن کال کا انتظار کریں‘‘ جبکہ انتقامی کارروائی کا جواب بھی انتقامی کارروائی ہی ہوتی ہے‘ اس لیے جو کال میں دینے والا ہوں‘ اس کا مطلب آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے جبکہ باقی کالیں میں ان شاء اللہ جیل سے ہی دوں گا اور اگر اس پر کسی نے عمل نہ کیا تو وہاں قیدیوں پر مشتمل ایک جماعت بنا لوں گا جسے نواز لیگ پرزنرز ونگ کا نام دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ”عدالتوں سے اسی قسم کے فیصلے کی توقع تھی‘‘ اور میرے بیانات بھی عدالتوں کو ان کی توقع کے مطابق ہی موصول ہوتے رہتے ہیں کیونکہ ہم دونوں نے پہلے سے ہی فیصلہ کر رکھا ہے کہ انہوں نے کیا کرنا ہے اور بعد میں ہم نے کیا کرنا ہے‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ”کارکن صبر کریں‘ اچھا برا وقت آتا رہتا ہے‘‘ جو کہ فی الحال تو مجھ پر ہی ہے‘ کارکنوں پر میری کال پر عمل کرنے کے بعد آئے گا۔ آپ اگلے روز پارٹی رہنمائوں سے ٹیلی فونک رابطے اور کارکنوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
منتخب وزیراعظم کی عزت نہ ہو تو ملک
ترقی نہیں کر سکتا: شاہد خاقان عباسی
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ”منتخب وزیراعظم کی عزت نہ ہو تو ملک ترقی نہیں کر سکتا کیونکہ جب ترقی کے طریقوں اور لوازمات پر ہی قدغن لگا دی جائے تو ملک نے خاک ترقی کرنی ہے‘ ویسے بھی یہ بیان تو خاکسار ہی کے حوالے سے ہے کیونکہ میرے خلاف بھی کارروائی ہونے کے خدشات ہیں۔ روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اس لیے کم از کم میری ہی عزت کی جائے تاکہ ملک ترقی کر سکے؛ تاہم سابق وزریراعظم اگر اب بھی اپنے آپ کو معزز سمجھ رہے ہوں تو یہ ان کی مرضی ہے۔ انہوں نے کہا ”یہ ہماری بڑی بدقسمتی ہے کہ کام کرنے والے رہنمائوں کو سیاست سے باہر کر دیا گیا‘‘ کیونکہ کام تو کام ہی ہوتا ہے وہ اچھا ہو یا برا۔ انہوں نے کہا کہ ”نواز لیگی قیادت نے صرف باتیں نہیں کیں کام بھی کیا ہے‘‘ اگرچہ باتیں تو فوج اور عدلیہ کے بارے میں ہیں اور باتوں کا سلسلہ روز بروز ظاہر ہو رہا ہے وہ ملک کے اندر ہوں یا ملک سے باہر۔ آپ اگلے روز مظفر گڑھ میں یوم صحت کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
سیاستدان کو قتل بھی کر دیں تو وہ زندہ رہتا ہے: مخدوم جاوید ہاشمی
بزرگ اور آج کل فارغ لیڈر مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا ہے کہ ”سیاستدان کو قتل بھی کر دیا جائے تو وہ زندہ رہتا ہے‘‘ جبکہ خاکسار واحد لیڈر ہے جو مسلسل زندہ چلا آ رہا ہے۔ اگرچہ اس گمنامی کی زندگی سے تو بہتر تھا کہ کچھ اور ہی ہو جاتا۔ اگر میاں نواز شریف بھی واقعی زندہ رہنا چاہتے تو ان کے پاس بھی اب ایک ہی آپشن موجود ہے کیونکہ سالہا سال تک جیل میں رہنے سے تو زیادہ سے زیادہ آدمی ایک آدھ کتاب ہی لکھ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”الگ صوبے کے لیے تحریک چلائوں گا اور سڑکوں پر ہوں گا‘‘ کیونکہ اگر اسمبلی کا دروازہ بند رہتا ہے تو سڑکیں تو موجود ہیں ہی جبکہ بہتر تھا کہ نواز لیگ اپنے دور بلکہ ادوار میں صوبہ بنا دیتی اور یہ سارا بوجھ مجھے برداشت نہ کرنا پڑتا جبکہ یہ بوجھ اٹھانے کی کوئی عمر بھی نہیں ہے اور اپنے بوجھ بھی بہت زور لگا کر ہی اٹھا رہا ہوں۔ آپ اگلے روز اپنی رہائش گاہ پر پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
پی ٹی آئی نے پختونوں کا کلچر تباہ کر دیا: فضل الرحمن
جمعیت العلمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ”پی ٹی آئی نے پختون کا کلچر تباہ کر دیا‘‘ بلکہ میرے کلچر پر بھی ہاتھ صاف کرنا چاہتی ہے اور اس طرح مجھے بھوکا مارنا چاہتی ہے کیونکہ اقتدار میں آ کر وہ میرے ہی کڑاکے نکالے گی جو کہ بے رحمی اور حیوانات سے بھی بڑا جرم ہے۔ انہوں نے کہا کہ آزادی کے نام پر خواتین کی بے حرمتی کی گئی اور انہیں ناچ گانے پر لگا دیا گیا جبکہ ناچ گانا مغربی روایت ہے اور انہی کو زیب بھی دیتا ہے بلکہ وہاں تو اسے جنتِ نگاہ اور فردوسِ گوش کی حیثیت دی گئی ہے جبکہ اپنے غیر ملکی دوروں کے دوران میں نے انتہائی افسوس کے ساتھ بار بار ان کا مشاہدہ بھی کیا کیونکہ دوچار دفعہ دیکھنے سے تو ان کا صحیح اندازہ ہی ہیں لگایا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ”حق گوئی کے خلاف صف آرا لوگوں کی صفیں توڑنی ہیں‘‘ جو کہ ڈانگ سوٹے کے بغیر ہرگز نہیں توڑی جا سکتیں۔ آپ اگلے روز شانگلہ میں ایک استقبالیہ تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
اور‘ آپ کی نذر یہ تازہ غزل :
کوئی امید نہیں‘ کوئی انتظار نہیں
مگر یہ صورتِ احوال ناگوار نہیں
ابھی نہ بیٹھے گی‘ اڑتی پھرے گی شہر بہ شہر
ہماری خاکِ پریشاں ہے یہ‘ غبار نہیں
ابھی یہ لہروں کے اندر گھلا ملا ہوا ہے
کہ خواب ہے‘ ابھی دریا کے آر پار نہیں
ہم اپنی اپنی حدوں سے نکلتے رہتے ہیں
کوئی قطار نہیں ہے کوئی حصار نہیں
ہم اُس کے گھر سے ہی اس کو کہیں اٹھا لاتے
ہمارے پاس تو اتنا بھی اختیار نہیں
اسے قریب سے دیکھا تھا‘ پھر نہیں دیکھا
کہ ایک بار ہی کافی تھا‘ بار بار نہیں
ہماری آخری خواہش بھی دل کو چھوڑ گئی
ہمارے گھر کی فضا یونہی سوگوار نہیں
ہماری موت نے کرنا ہیں فیصلے سارے
زیادہ زندگی پر اپنا انحصار نہیں
جو اندھا دھند خسارے نہ ہوں ظفرؔ اس میں
تو کوئی عشق سے بڑھ کر بھی کاروبار نہیں
آج کا مطلع
پہریدار ہے‘ سو سکتا ہے
یعنی کچھ بھی ہو سکتا ہے