سرخیاں ‘ متن اور تازہ غزل….ظفر اقبال
ملک کو میدان جنگ بنا دیا گیا‘ 70 سالہ
رسوائی سے نجات حاصل کریں گے: نواز شریف
مستقل نا اہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ”ملک کو میدان جنگ بنا دیا گیا‘ 70 سالہ رسوائی سے نجات حاصل کریں گے‘‘ جبکہ 35 سالہ رسوائی کے ذمہ دار تو ماشاء اللہ ہم خود ہیں‘ جو ہمارے دور میں حاصل ہوئی‘ اس لیے اگر اس سے نجات حاصل کر لیں ‘تو بڑی بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ ” کوئی بھی میرے عزم کو کمزور نہیں کر سکتا‘ ماسوائے میرے اپنوں کے‘‘ جیسا کہ شہبازشریف میرے لیے ریلی نکال کر مال روڈ پر ہی گھومتے رہے‘ جو ایئر پورٹ پر میرے استقبال کے لیے روانہ ہوئے تھے اور مجھے صرف ان کارکنوں کے نعروں پر گزارہ کرنا پڑا‘ جنہیں میں ساتھ لے کر آیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ”الیکشن نتائج کوئی بھی تسلیم نہیں کرے گا‘‘ کیونکہ یہ جو نتائج ہمارے خلاف آنے والے ہوں‘ انہیں کون تسلیم کر سکتا ہے‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ”پیچھے نہیں ہٹوں گا‘‘ ویسے جیل میں آگے پیچھے ہونے کی گنجائش ہی کہاں ہوتی ہے‘ ہیں جی؟ آپ اگلے روز لندن سے واپسی پر طیارے میں گفتگو کر رہے تھے۔
عوام کا سمندر سڑکوں پر آیا‘ اتنی بڑی
ریلی کبھی نہیں دیکھی: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے کہا ہے کہ ”عوام کا سمندر سڑکوں پر آیا ‘اتنی بڑی ریلی کبھی نہیں دیکھی‘‘ جبکہ عوام کا یہ سمندر جی پی او سے لے کر ریگل تک ٹھاٹھیں مارتا تھا اور میں گاڑی سے باہر اس لیے نہیں نکلا کہ کہیں یہ سمندر مجھے ڈبو ہی نہ دے۔ انہوں نے کہا کہ ”عوامی عدالت نے عدالت کا فیصلہ مسترد کر دیا‘‘ اور یہ بات مجھے رانا ثناء اللہ نے بتائی تھی‘ کیونکہ وہ شام کے وقت جھوٹ نہیں بولتے‘ بلکہ برخوردار حمزہ جو میرے ساتھ ہی بیٹھے رہے اور گاڑی سے باہر نہیں نکلے‘ ان کا بھی یہی خیال تھا اور اس کامیابی کے بعد ایئر پورٹ پر پہنچنے کی ضرورت ہی نہیں تھی‘ جبکہ اتنی بڑی ریلی کو دیکھ کر بھائی صاحب نے بھی گھبرا جانا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ”25 جولائی کا فیصلہ بھی ہو گیا‘‘ اس لیے اب ایکشن لڑنے کی ضرورت ہی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ”نواز شریف قوم کے مہمان ہیں‘‘ بلکہ اب تو وہ مستقل طور پر شاہی مہمان بھی ہیں۔ آپ اگلے روز کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
ن لیگ کے کارکنوں اور رہنمائوں کو کیوں گرفتار کیا گیا: بلاول
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ”ن لیگ کے کارکنوں اور رہنمائوں کو کیوں گرفتار کیا گیا‘‘ اور جب بھی ہم اور نواز شریف ایک دوسرے کے قریب آنے لگتے ہیں‘تو ہماری حوصلہ شکنی کی کوشش کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”عمران کو ایئر پورٹ جانے دیا‘ ہمیں روک لیا گیا ‘‘ مانا کہ وہ اگلے وزیراعظم ہوں گے‘ لیکن ہم بھی کوئی معمولی آدمی نہیں ہیں‘ کبھی ہماری باری بھی آ سکتی ہے؛ اگرچہ عمران خان نے باری سسٹم ہی ختم کر دیا ہے‘ جو کہ انتہائی غیر جمہوری حرکت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”ہمیں سڑک سے جانا پڑا‘‘ جبکہ سڑکوں پر طرح طرح کے آوازے بھی کسے جاتے ہیں اور وہ بھی سننا پڑتے ہیں‘جس سے سارا مزہ ہی کرکرا ہو جاتا ہے ؛حالانکہ اصل مزہ تو اقتدار میں ہے‘ جسے والد صاحب اکثر یاد کر کے اداس ہو جاتے ہیں ‘کیونکہ آئندہ بھی اندھیرا ہی اندھیرا نظر آتا ہے ‘جو لوڈ شیڈنگ سے بھی خوفناک ہوتا ہے۔ آپ اگلے روز گوجرانوالہ جاتے ہوئے میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
نواز شریف اور مریم کی گرفتاری پر افسوس ہے: چوہدری نثار
نواز لیگ کے ناراض رہنما اور سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ ”نواز شریف اور مریم کی گرفتاری پر افسوس ہے‘‘ بلکہ مریم کی گرفتاری پر زیادہ افسوس ہے‘ کیونکہ ان کی پالیسیاں مجھے ہمیشہ پسند رہی ہیں‘ جبکہ وہ نواز شریف کو ہمیشہ صحیح مشورہ دیتی تھیں اور میرے ساتھ بھی رابطہ رکھتی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ ”نواز شریف کو اڈیالہ جیل پہنچائے جانے کی خبر آئی ہے‘‘ جو کہ مریم نواز کی مسلسل کوششوں کا نتیجہ ہے ‘کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ باہر کی بک بک کی بجائے جیل ایک نہایت پر سکون جگہ ہے اور انہیں بہت پہلے یہاں آ جانا چاہئے تھا۔ انہوں نے کہا کہ ”اللہ تعالیٰ کسی دشمن کو بھی اڈیالہ جیل نہ دکھائے‘‘ جبکہ نواز شریف جیسے دوست کے لیے وہ نہایت مناسب جگہ ہے‘ کیونکہ وہ جفا کش آدمی ہیں ۔آپ اگلے روز اڈیالہ میں کارنر میٹنگ سے خطاب کر رہے تھے۔
اور اب آخر میں تازہ غزل:
ہمارا دل ابھی تک بے خبر ویسے کا ویسا ہے
بہت اُجڑا بھی ہے لیکن یہ گھر ویسے کا ویسا ہے
یہ خطہ وہ ہے جس میں کوئی تبدیلی نہیں آنی
کوئی حیران مت ہو یہ اگر ویسے کا ویسا ہے
پرندے اڑ کے جاتے ہیں مگر واپس نہیں آتے
ابھی ہے شام ویسی ہی‘ شجر ویسے کا ویسا ہے
یہ کاروبار ہم سے چھوٹ بھی سکتا نہیں‘ ورنہ
زیاں ویسے کا ویسا ہے‘ ضرر ویسے کا ویسا ہے
جو ملتا بھی ہے‘ پیش آتا بھی اچھی طرح سے ہے وہ
حقیقت میں مگر اس پر اثر ویسے کا ویسا ہے
وہاں بھی کوئی جائے اور جا کر اس کو سمجھائے
ہمارا تو ارادہ سر بسر ویسے کا ویسا ہے
بہت پرُپیچ بھی ہے اور کہیں جاتا نہیں ہے یہ
محبت کا پرانا رہگزر ویسے کا ویسا ہے
بھلے تعمیر کی نوبت کبھی آئی نہیں‘ ورنہ
ہمارا نقشۂ دیوار و در ویسے کا ویسا ہے
ظفرؔ کے باب میں جو خوش گماں رہتے ہیں سرتاسر
خود آ کر دیکھ لیں یہ بے ہنر ویسے کا ویسا ہے
آج کا مطلع
میرا اس کا حساب کوئی نہیں
اور سوال و جواب کوئی نہیں