سرخیاں ‘ متن اور ’’تسطیر‘‘ سے مزید انتخاب….ظفر اقبال
تاریخ اور عوام کے فیصلے کبھی غلط نہیں ہوتے:آصف علی زرداری
سابق صدر اور پا کستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ”تاریخ اور عوام کے فیصلے کبھی غلط نہیں ہوتے‘ لیکن شاید اس بار غلط ہوں‘‘ کیونکہ کوئی معقول امیدوار ہی کسی حلقے کے لیے نہیں مل رہا‘ جن لوگوں کے ذمے یہ کام لگایا گیا تھا ‘ان کا کہنا ہے کہ ابھی تو ہم گمشدہ کارکنوں کو تلاش کر رہے ہیں‘ اس کے بعد معقول امیدواروں کا سراغ لگائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ”عوامی طاقت سے الیکشن لڑیں گے؛ چنانچہ ساتھ عوامی طاقت کی بھی تلاش جاری ہے اور جوئندہ پائندہ کے اصول کے مطابق ‘وہ بھی مل ہی جائے گی‘ جبکہ گیلانی‘ منظور وٹو اور رحمن ملک کا کہنا ہے کہ ہم سے زیادہ عوامی طاقت اور کیا ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”عوام سے کیا ہر وعدہ پیدا کر کے دکھائیں گے‘‘ اگرچہ یہ صرف سیاسی وعدے ہی ہوتے ہیں۔ آپ اگلے روز بلاول ہائوس لاہور میں مختلف لوگوں سے ملاقات کر رہے تھے۔
کشکول تب ٹوٹتا ہے‘ جب قوم مشکل فیصلے کرے: شہباز شریف
ن لیگ کے صدر اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ”کشکول تب ٹوٹتا ہے‘ جب قوم مشکل فیصلے کرے‘‘ جبکہ قوم کے سامنے آج مشکل ترین فیصلہ ہمیں ایک بار پھر اقتدار میں لانا ہے‘ کیونکہ عوامی مسائل حل کرنے کی بجائے ہم کچھ اور کاموں میں پڑے رہے اور جس کے نتائج اب ایک ایک کر کے بھگت رہے ہیں‘ لیکن قوم کو چاہئے کہ دل پر پتھر رکھ کر یہ مشکل فیصلہ کر ہی ڈالے‘ کیونکہ ہم خود بھی کافی مشکل میں پڑیے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ”کامیاب ہو کر کراچی کو پیرس بنائیں گے‘‘ اگرچہ وعدے اور امکان کے برعکس لاہور کو تو پیرس نہیں بنا سکے‘ کیونکہ ہمیں اس کا وقت ہی نہیں ملا اور اسے پیرس بنانے کی بجائے پیرس جیسے مقامات پر جائیدادیں بناتے رہے؛ اگرچہ صوبے کے دوسرے حصوں کا پیسہ بھی لاہور ہی پر لگاتے رہے اور اگر کامیاب ہو گئے‘ تو اسی طرح بقایا سندھ کا سارا پیسہ بھی کراچی پر لگا دیں گے۔ آپ اگلے روز کراچی میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
عمران خان کبھی وزیراعظم نہیں بن سکتے: حمزہ شہباز
نواز لیگ کے مرکزی رہنما حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ”عمران خان کبھی وزیراعظم نہیں بن سکتے‘‘ کیونکہ یہ ساری پیسے کی گیم ہے اور اقتدار باقاعدہ خریدنا پڑتا ہے‘ جس کے لیے ہم پیسہ پیسہ کر کے جوڑتے رہتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ قطرے دریا کی صورت اختیار کر لیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پولیس بھی جذبۂ حب الوطنی کے تحت ہمیں منتھلیاں دیتی ہے اور ہم شکریہ کے ساتھ قبول کر لیتے ہیں ‘کیونکہ حب الوطنی کے تحت‘ اگر کوئی چیز پیش کی جائے‘ تو کیسے انکار کیا جا سکتا ہے؛ چنانچہ ہر ڈی پی او کی پوسٹنگ میرے انٹرویو کے بعد ہوتی ہے اور جن امیدواروں میں یہ جذبہ نہ ہو یا کم ہو تو انہیں دُور دراز ضلعوں میں بھیج دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ انتخابات کی دیہاڑیاں بھی لگتی ہیں اور ایک ریل پیل کا سماں پیدا ہو جاتا ہے۔ اس لیے عمران خان جیسا فقرا صرف وزیراعظم بننے کے خواب ہی دیکھ سکتا ہے۔ آپ اگلے روز مختلف اضلاع کے قومی و صوبائی امیدواروں سے گفتگو کر رہے تھے۔
عمران خان نے صرف اے ٹی ایمز کو ٹکٹ دیئے: احسن اقبال
سابق وفاقی وزیر چوہدری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ”عمران خان نے صرف اے ٹی ایمز کو ٹکٹ دیئے‘‘ جبکہ ہمارے ہاں تو سارے کے سارے امیدوار ہی اللہ کے فضل سے اے ٹی ایمز ہی تھے‘ اس لیے ہمیں یہ امتیاز روا نہیں رکھنا پڑا‘ کیونکہ یہ لوگ گزشتہ 35 سال سے ہمارے ساتھ شامل اقتدار تھے اور خود بھری بھرائی اے ٹی ایمز بن گئے تھے‘ لیکن ہماری قیادت نے روپے پیسے کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا ‘کیونکہ سارا کچھ اپنے آپ ہی بیرون ملکی اکائونٹس میں چلا جاتا تھا‘ تاہم اب اے ٹی ایمز میں بھی چوریاں اور ڈکیتیاں ہونے لگی ہیں‘ اس لیے انہیں احتیاط کی ضرورت ہے۔ آپ اگلے روز نارووال میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کر رہے تھے۔
اور اب آخر میں ”تسطیر‘‘ میں سے بقایا منتخب اشعار:
شبِ سیاہ سے باہر پکارتا ہے مجھے
کوئی چراغ برابر پکارتا ہے مجھے (سید کامی شاہ)
میں نے دیوار پہ یادوں کے دِیے رکھے ہیں
اس سے کہہ دو کہ ہوائوں کی زبانی آئے (مبشر سعید)
تم سے ناراض تو میں اور کسی بات پہ ہوں
تم مگر اور کسی وجہ سے شرمندہ ہو
کیا ہے جو ہو گیا ہوں میں تھوڑا بہت خراب
تھوڑا بہت خراب تو ہونا بھی چاہئے
بات ہم نے سنی ہوئی سنی تھی
کام اس نے کیے ہوئے کیے تھے (جواد شیخ)
رنج کی بپھری ہوئی لہروں سے لڑتا رہا میں
دل کے ساحل پہ کہیں بنتا بگڑتا رہا میں
مجھ کو اندر سے جکڑتا رہا اک دروازہ
اور دروازے کو باہر سے جکڑتا رہا میں
جانے کس ہاتھ لگا کون سا دھاگا شارقؔ
اک سرا کھنچتا رہا اور ادھڑتا رہا میں (سعید شارقؔ)
بہہ رہا ہے زمیں کے دھارے پر
ایک دریا کہ ہے کنارے پر
جانے کس رخ سے آنچ آئے گی
آگ سیدھی ہے اور دھواں الٹا
اس نے خوشبو بنا کے چھوڑ دیا
اب اڑاتی پھرے ہوا مجھ کو (نصیر ؔ احمد ناصر)
آج کا مقطع
ہے ہاتھ بھی پھیلائے ہوئے صاف‘ ظفرؔ اور
سمجھے ہوئے ہے اس کا سوالی بھی نہیں ہے