سرخیاں متن اور سلام شاعری…ظفر اقبال
منع کرنے کے باوجود مجھے پروٹوکول دیا گیا: صدر عارف علوی
صدر مملکت عارف علوی نے کہا ہے کہ ”منع کرنے کے باوجود مجھے پروٹوکول دیا گیا‘‘ جس سے ثابت ہوا کہ صدر عہدہ واقعی نمائشی ہوتا ہے اور اس کے پاس کوئی اختیارات نہیں ہوتے‘ مجھے اس کا علم ہوتا تو اپنا کلینک چھوڑ کر کبھی صدارتی امیدوار نہ بنتا کہ جتنی پھرتی سے میں دانت نکالتا ہوں‘ کوئی نہیں نکال سکتا اور اب اہل کراچی کو بوسیدہ اور ہلتے ہوئے دانتوں کے ساتھ ہی گزارہ کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے کہا تھا کہ ”سکیورٹی کی حد تک گاڑیاں دی جائیں‘‘ لیکن مجھے کہا گیا کہ آپ کو کچھ ایسے لوگوں سے بھی خطرہ ہوسکتا ہے ‘جن کے دانت غلط نکال دیئے گئے ہوں اور وہ اب تک دانت پیس رہے ہیں‘ جبکہ پتا چلا ہے کہ بعض لوگوں کی عقل داڑھ بھی نکال دی گئی اور اب وہ بے عقل ہو کر جگہ جگہ حماقتیں کرتے پھرتے ہیں ‘جن میں بعض افسر تو ایسے ہیں کہ پہلے جن کی داڑھ گرم ہوا کرتی تھی‘ اب انہیں کوئی پوچھتا ہی نہیں ہے‘ بلکہ ان کے مالی حالات بھی کافی حد تک خراب ہوگئے ہیں۔ آپ اگلے روز کراچی میں ایک ضروری بیان جاری کر رہے تھے۔
ریلوے کی اراضی بیچنا مرغی ذبح کرنے کے مترادف ہوگا: سعد رفیق
سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ”ریلوے کی اراضی بیچنا مرغی ذبح کرنے کے مترادف ہوگا‘‘ کیونکہ اراضی ہی تو وہ مرغی ہے‘ جو ہر روز سونے کا انڈہ دیا کرتی تھی‘ لیکن میں تو اس انڈے کا صرف آملیٹ بنا کر کھایا کرتا تھا کہ سونے کی چمک دمک بھی حاصل ہوتی رہے۔ انہوں نے کہا کہ ”ریلوے وزیر شیخ رشیداحمد مسلسل غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں‘‘ اگرچہ غلط بیانی بھی سیاست میں بہت ضروری چیز ہوتی ہے‘ لیکن یہ کام مسلسل کرتے رہنے کی بجائے اس میں تھوڑا بہت وقفہ دینا بھی ضروری ہوتا ہے‘ یعنی اگر سو جھوٹ کے درمیان اگر ایک آدھ سچ بھی بیان کر دیا جائے تو منہ کا ذائقہ بھی ٹھیک رہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”دونوں ٹرینیں منصوبہ بندی کے بغیر صرف کارروائی ڈالنے کے لئے چلائی گئیں‘‘ وی او تک ٹرینیں چلانے کے لئے کسی منصوبہ بندی کی ضرورت نہیں ہوتی‘ صرف ایک ایک انجن ڈرائیور ہر ٹرین کے لئے دستیاب ہونا ضروری ہوتا ہے‘ کیونکہ اتنے مہنگے انجنوں کو چلانے کے لئے ڈرائیور کی بھی ضرورت نہیں ہونی چاہئے جبکہ یہ کام وزیر ریلوے خود بھی کرسکتا ہے۔انہوں نے کہاکہ ”شاباش لینے آتا ہوں‘ لیکن اس کی بجائے ڈانٹ پڑ جاتی ہے‘‘ اگرچہ میں آج تک شاباش لینے والا کوئی کام نہیں کرسکا ہوں کیونکہ ہائوسنگ سوسائٹی وغیرہ کی طرف سے فرصت ہی نہیں ملی تھی کہ کوئی شاباش لینے والا کام کر جائوں اور میرا نام روشن ہو جائے‘ جسے نیب اب اپنے طریقے سے روشن کرنا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”میں یہاں بے عزتی کرانے نہیں آیا‘‘ کیونکہ بے عزتی کرانے کے اور بہت سے کارنامے سرانجام دے چکا ہوں‘ جن پر سے پردہ آہستہ آہستہ اٹھنے والا ہے‘ اس لئے کچھ دیر انتظار کیا جائے اور جس کے لئے مہنگے انجن خریدنے والا معاملہ اکیلا ہی کافی ہے۔ آپ اگلے روز وزیر ریلوے کی پریس کانفرنس کا جواب دے رہے تھے۔
مستقبل میں سندھ پورے ملک کو بجلی فراہم کرے گا: بلاول بھٹو
پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ”مستقبل میں سندھ پورے ملک کو بجلی فراہم کرے گا‘‘کیونکہ یہ آسمان سے گرنے والی بجلی کو بھی محفوظ کر لیا کریں گے اور اگر والد صاحب اپنے فرنٹ مینوں کے ذریعے اتنا کچھ محفوظ کرسکتے ہیں‘ تو یہ کونسا مشکل کام ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”غربت کے خاتمے کے لئے مزید اقدامات کرنے پڑیں گے‘‘ کیونکہ جو اقدامات پہلے کئے تھے ان سے تو غربت میں اضافہ ہی ہوا ہے؛ حالانکہ ڈاکٹر عاصم حسین اور شرجیل میمن نے اس سلسلے میں بہت انتھک محنت کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ”سندھ میں عوام کی بھر پور خدمت کرنی ہے‘‘ جس کے لئے شاید ایک بار پھر انکل گیلانی کی خدمات حاصل کرنی پڑیں‘ کیونکہ انہیں اس کا کافی تجربہ ہے ‘جس سے ہم بھر پور فائدہ اٹھاسکتے ہیں اور وہ کمرکس کر اس کے لئے دل و جان سے تیار بھی ہیں۔ آپ اگلے روز کراچی میں پارٹی وزراء سے ملاقات کر رہے تھے۔
اور اب کچھ سلام اور نوحے کے اشعار پیش خدمت ہیں:
میں انگلیوں سے لکھوں خاک پر امام حسین
ہو کربلائی زمیں پر مرا سلام حسین
قدم کو خاکِ مدینہ بھی روک پائی نہیں
کیا تھا کیسا شہادت کا انتظام حسین
وہ اور لوگ ہیں منزل کا جن کو علم نہیں
مرے سفر کا ہے بس ایک اختتام حسین
کیا تھا آپ نے سجدہ جہاں شہید ہوئے
وہیں پہ ہو مرے سجدے کا اختتام حسین(فاطمہ حسن)
خون شبیر سے روشن ہیں زمانوں کے چراغ
شمر نسلوں کی ملامت کا دھواں لایا ہے(جلیل عالی)
کمال یہ ہے کہ پھر پھیلتا گیا کاغذ
کبھی جو پیاس کا قصہ رقم کیا میں نے(قمر رضا شہزاد)
ایک جیسا کہاں ہوتا ہے مقدر سب کا
سر کٹا کر بھی مرے شاہ نے سرداری کی(شہزاد رائو)
میں صبر و ہجر کو یکجا بھی گھول سکتا ہوں
میں داستان محرم کو کھول سکتا ہوں(سیف ریاض)
وہ جن کے واسطے تسنیم و سلسبیل نہیں
انہی کے واسطے پانی نہیں فرات کے پاس(اکرم ناصر)
اس سے آ آ کے پرندوں نے پڑھے تھے نوحے
وہ جو تالاب میں تھوڑا سا بچا تھا پانی
سجدۂ شکر بجا لائے جو ہر تیر کے بعد
کوئی شبیر سے پہلے تھا نہ شبیر کے بعد(شمشیر حیدر)
آج کا مطلع
مت سمجھو وہ چہرہ بھول گیا ہوں
آدھا یاد ہے‘ آدھا بھول گیا ہوں