سرخیاں‘ متن اور شعر و شاعری…ظفر اقبال
حکومت دوبارہ ملی تو کمیشن بنائیں گے ‘جو
حساب کتاب کرے گا: نواز شریف
مستقل نا اہل ‘سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ”حکومت دوبارہ ملی تو کمیشن بنائیں گے‘ جو حساب کتاب کرے گا‘‘ اگرچہ عدلیہ بھی حساب کتاب کر رہی ہے ‘لیکن یہ حساب کتاب اللہ کے فضل سے اس قدر طویل و عریض اور پیچیدہ ہے کہ یہ اس کے بس کا روگ ہی نہیں ہے‘ تاہم ہمیں اگر موقع ملا‘ تو یہ دیکھنے کا پورا پورا موقع ملے گا کہ کتنا کمایا تھا‘اس میں سے کتنا خرچ یا ضائع ہو گیا اور کتنا چھپانے میں کامیاب ہو گئے اور یہ بھی کہ آئندہ اس نقصان کی تلافی کیونکر کی جا سکتی ہے۔ اول تو ایسا لگتا ہے کہ نہ ہمیں حکومت ملنی ہے اور نہ کمیشن بننا ہے۔ اس لیے یہ ساری سر دردی‘ ہمیں خود ہی مول لینی پڑے گی اور حساب کتاب ہمیں خود ہی کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہ ”سسٹم میں ہزار میگاواٹ کا اضافہ کر کے گئے‘ اب بجلی پوری کرنے کی ذمہ دار نگران حکومت ہے‘‘ اور اگر وہ ہزار میگاواٹ کہیں سے دستیاب نہیں ہو رہے ‘تو انہیں ڈھونڈنا بھی نگران حکومت ہی کا کام ہے‘ ورنہ ہمیں حکومت واپس کر دیں‘ ہم ڈھونڈ کر دکھا دیں گے کہ حکومت واپس کروانے کا جو کام رائے دہندگان کے ذمے لگایا ہے ‘ان کی تو اپنی روٹی پوری نہیں ہوتی‘ وہ حکومت کہاں واپس کرائیں گے؟ ہیں جی! انہوں نے کہا کہ ”ماضی کی غلطیوں سے سبق نہ سیکھے‘‘ البتہ مستقبل کی غلطیوں سے سبق ضرور سیکھیں گے‘ اگر انہیں کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ”اپنا گھر ٹھیک ہو تو سب ٹھیک ہوتا ہے‘‘ اور ہم نے اپنا گھر جس طرح ٹھیک کیا ہے اور اس کی خوش حالی کو جس طرح چار چاند لگائے ہیں ‘ان کی چاندنی ابھی تک حتیٰ کہ عدلیہ تک بھی پھیلی نظر آتی ہے‘ نیز اپنے گھر کے ساتھ ساتھ باقی بھی سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا ‘جو دشمن کی آنکھ کا روڑہ بنا ہوا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ”ماضی میں بار بار گرے ہیں‘ اب سنبھلنا چاہیے‘‘ تاہم اس دفعہ ذرا سر کے بل گرے ہیں‘ اس لیے اٹھنے میں خاصی دیر لگے گی۔ سنبھلنے کا تو سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے۔ آپ اگلے روز احتساب عدالت میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کر رہے تھے۔
رمضان کی عظمت کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ایک
ایک پائی کا درست استعمال کیا: شہباز شریف
خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا کہ ”رمضان کی عظمت کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ایک ایک پائی کا درست استعمال کیا‘‘ اور مجھے معلوم ہے کہ بعض شر پسند اس رمضان سے میری مراد رمضان ڈرائیور سے بھی لیں گے ‘کیونکہ میرے اکثر اصولوں اور طریقوں کو وہ جانتے بھی ہیں‘ تاہم اس قسم کو مزید تقدس دینے کی خاطر میں نے اس میں عید کا دن بھی شامل کر دیا ہے۔ علاوہ ازیں میری قسم کے سچا ہونے کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہو سکتا ہے کہ پائی تو سکۂ رائج الوقت ہی نہیں ہے۔ اس لیے اس کے غلط استعمال کا سوال کہاں پیدا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ”جس قوم کی دولت کٹ گئی ہو اور احتساب کا عمل شفاف نہ ہو تو وہ ترقی کیسے کر سکتی ہے‘‘ اور ہمارے دور میں اگر ترقی نہیں ہوئی ‘تو عمران خان کے علاوہ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے‘ جبکہ ہم نے لوٹ مار نہیں کی جو کہ ڈاکو کرتے ہیں ‘بلکہ ہمارا طریق کار خاصا شریفانہ تھا۔ آخر ہم نے اپنے نام کی لاج بھی تررکھنی تھی۔ اگرچہ کچھ وعدوں کے پورا نہ ہونے کی وجہ سے میرا نام کئی بار تبدیل بھی ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”نیب نے بھی زرداری سے نہیں پوچھا‘‘ اور سارے سوال ہمی سے پوچھے جا رہے ہیں‘ حالانکہ اسی قسم کے سوال زرداری سے بھی پوچھے جا سکتے ہیں‘ جن کا جواب زرداری کے پاس بھی نہیں ہے‘ جبکہ ہم کم از کم قسمیں تو اٹھا سکتے ہیںکہ یہ پنجابی مقولہ بھی ہے کہ ”چوراں‘ یاراں‘ عاشقاں قسماں نال وہار‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ”ریحام خان سے صرف ایک ملاقات ہوئی‘‘ اور جملہ معاملات طے کرنے کے لئے ایک ہی تفصیلی ملاقات کافی ہوتی ہے آپ لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
اور اب آخر میں کچھ شعر و شاعری:
ریت پر تھک کے گرا ہوں تو ہوا پوچھتی ہے
آپ اس دشت میں کیوں آئے تھے وحشت کرنے
عجب حریف تھا‘ میرے ہی ساتھ ڈوب گیا
میرے سفینے کو غرقاب دیکھنے کے لیے
توڑ دی اُس نے وہ زنجیر ہی دلداری کی
اور تشہیر کرو اپنی گرفتاری کی
اٹھو یہ منظرِ شب تاب دیکھنے کے لیے
کہ نیند شرط نہیں خواب دیکھنے کے لیے
ایک کوشش کہ تعلق کوئی باقی رہ جائے
سو‘ تری چارہ گری کیا‘ میری بیماری کیا
کہیں حرابۂ جاں کے مکیں نہیں جاتے
درخت چھوڑ کے اپنی زمین نہیں جاتے (عرفان صدیقی)
ضرر رساں ہوں بہت‘ آشنا ہوں میں خود سے
جبھی تو فاصلہ رکھ کر کھڑا ہوں میں خود سے
جھگڑتے وقت ذرا بھی لحاظ کرتا نہیں
اگرچہ عمر میں کافی بڑا ہوں میں خودسے
کہاں تلاش کروں‘ کیا کہوں کسی سے عمیرؔ
کہ آتے جاتے کہیں گر گیا ہوں میں خودسے(عمیر نجمی)
اسے تو صبح ِابد کی نوید ہونا تھی
وہ روشنی جو مرے ساتھ ساتھ ختم ہوئی (دلاور علی آزرؔ)
چپ چاپ چلا جائوں گا لیکن یہ سمجھ لو
ٹھکرائے ہوئے لوٹ کے آیا نہیں کرتے( قمرؔ زیدی)
آج کا مطلع
دل کوئی حشر بھی ڈھا سکتا ہے
اور مجھے صبر بھی آ سکتا ہے