سرخیاں‘ متن اور شعر و شاعری….ظفر اقبال
ملک 30 سال پیچھے چلا گیا: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ”ملک 30 سال پیچھے چلا گیا‘‘ حالانکہ یہ کام ہم پہلے ہی کر چکے تھے اور ابھی مزید پیچھے کرنے میں لگے ہوئے تھے کہ ہماری میعاد ہی ختم ہو گئی۔ اس لیے یہ کام اگلی بار مکمل کرنے کا ارادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”عوامی مینڈیٹ کی توہین کی گئی‘‘ اور ہمارے نعرے ”ووٹ کو عزت دو‘‘ کے مطابق واقعی ووٹ عزت سے ہمکنار ہوا ہے‘ اور اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ ووٹ کو واقعی عزت مل جانی ہے تو ہم یہ نعرہ ہرگز نہ اپناتے‘ لیکن یہ بھائی صاحب کی اختراع تھی‘ جس سے انہیں منع بھی کیا گیا تھا کہ ووٹ اپنی عزت کروانا جانتا ہے ‘اسی لیے یہ کام وہ خود ہی کر لے گا‘ ہمیں دوسرے معاملات پر توجہ دینی چاہئے‘ لیکن انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ یہ میری طویل سوچ بچار کا نتیجہ ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
الیکشن نتائج ہمارے شکوک بڑھ گئے: خورشید شاہ
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سید خورشید علی شاہ نے کہا ہے کہ ”الیکشن نتائج ہمارے شکوک بڑھ گئے‘ مشاورت کر کے لائحہ عمل دونگا‘‘ کیونکہ ہمارے اندازے کے مطابق عمران خان قومی اسمبلی کی صرف 50 نشستیں جیت سکتے تھے‘ لیکن اب وہ حکومت بھی بنانے چل پڑے ہیں؛ چنانچہ اس سے زیادہ مشکوک نتیجہ اور کیا ہو سکتا ہے‘ جبکہ ہم بلاول وزیراعظم کے نعرے لگا لگا کر پھاوے ہو گئے ہیں اور ہمیں نارمل ہونے کے لیے ایک عرصہ درکار ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ”رزلٹ کی تیاری کے وقت ہمارے پولنگ ایجنٹوں کو باہر نکال دیا گیا‘‘ جبکہ رزلٹ کے آثار دیکھ کر وہ خود بھی باہر جانے کے لیے پر تول رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ”رزلٹ کے وقت رینجرز پولنگ سٹیشن میں داخل ہو گئے‘‘ اور ان کے چہروں سے ہی صاف پتہ چل رہا تھا کہ ان کی نیت ٹھیک نہیں ہے اور وہ ضرور کوئی گڑ بڑ کریں گے۔ آپ اگلے روز سکھر میں میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔
نواز‘ مریم نے واپس جانا تھا تو وطن نہ آتے: ایاز صادق
نواز لیگ کے مرکزی رہنما سردار ایاز صادق نے کہا ہے کہ ”نواز‘ مریم نے واپس جانا تھا تو وطن نہ آتے‘‘ البتہ اگر انہیں یہ معلوم ہوتا کہ یہاں ان کی پارٹی کا کیا حشر ہونے والا ہے ‘تو شاید وہ ہرگز واپس نہ آتے‘ جبکہ نواز شریف اور مریم کے جیل جانے سے امید تھی کہ ہمدردی کے ووٹ تو ضرور مل جائیں گے‘ لیکن یہ خواب بھی شرمندئہ تعبیر نہ ہو سکا‘ اس لیے آئندہ سے ہم نے خواب دیکھنا ہی ترک کر دیا ہے‘ جبکہ پہلے ہم دن میں بھی جی بھر کے خواب دیکھا کرتے تھے‘ لیکن ووٹ کو وہ عزت دی گئی کہ جو ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ تھی‘ بلکہ مجھے تو اپنی سیٹ کے بھی لالے پڑے ہوئے تھے‘ لیکن شاید اس وقت ووٹ کو اپنی عزت کا خیال نہ رہا تھا ‘ورنہ میرے ساتھ بھی وہی کچھ ہونا تھا‘ جو دیگر قائدین کے ساتھ ہو رہا تھا‘ اس لیے جان بچی اور لاکھوں پائے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل پر شامل ِگفتگو تھے۔
لاکھوں لوگ ووٹ کاسٹ کرنے سے رہ گئے: سعد رفیق
سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ”لاکھوں لوگ ووٹ کاسٹ کرنے سے رہ گئے‘‘ اور یہ بھی اچھا ہی ہوا‘ کیونکہ وہ بھی ہمارے خلاف ہی کاسٹ ہونے تھے‘ کیونکہ ووٹروں نے واقعی اپنی عزت کا خیال رکھنا شروع کر دیا تھا‘ جو کہ ہمارے وہم و گمان میں ہی نہ تھا اور نواز شریف بار بار پوچھ رہے تھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ”ہر پولنگ سٹیشن کے باہر عوام کی کثیر تعداد موجود تھی‘‘ اور ہم ڈر رہے تھے کہ کہیں انہیں اندر جانے کی اجازت نہ مل جائے‘ ورنہ ستیاناس ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ”ہمارے ووٹرز کا حوصلہ بلند تھا‘‘ لیکن جوں جوں نتائج آ رہے تھے‘ ہمارے اوسان خطا ہو رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ”پولنگ سٹاف بھی کم تھا‘‘ ویسے اگر زیادہ یا پورا بھی ہوتا تو کوئی فرق نہ پڑنا تھا‘ کیونکہ ہمارے خلاف ہواہر طرف ہی زور و شور سے چل رہی تھی۔ آپ اگلے روز صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور ‘ اب کچھ شعر و شاعری:
جیب میں صرف زرِ خوف ہے‘ کیا خرچ کریں
قرض میں کٹتے ہوئے‘ رنج کماتے ہوئے لوگ (حمیدہ شاہین)
زندگی سانس لینے لگی ہے
وہ ہوا کے مثال آیا ہے (سعد اللہ شاہ)
کہاں کی شاعری‘ لفظوں سے ہاتھا پائی کرتے ہیں
یہ صبح و شام ہم جو قافیہ پیمائی کرتے ہیں
وقت کٹتا نہیں بیٹھے بیٹھے
بیٹھے بیٹھے ہوئے تھک جاتا ہوں (رستم نامی)
نکلتے جائیں بدن سے‘ اسے جگہ دیئے جائیں
وہ چاہتا ہے کہ بس وہ ہو‘ ہم ہٹا دیئے جائیں
کسی کی نیند ہمیں دستیاب ہو اک شب
ہمارے خواب کسی اور کو دکھا دیئے جائیں (عمیر نجمی)
جیسے ہر ایک ٹوٹتی شے سے ہے مرا وجود
جیسے یہ کائنات مرے گھر کی چیز ہے(دلاور علی آذر)
گائوں میں لڑکیاں ہوتی ہیں بہت جینے کو
اور مرنے کے لیے ایک کنواں ہوتا ہے
ہم جلے ہیں کہ کوئی اور‘ خبر ہوتی نہیں
اتنی مقدار میں ہر بار دھواں ہوتا ہے (مژدم خاں)
بس ایک آپ سے بہتر کوئی نہیں دیکھا
کوئی کسی سے تو کوئی کسی سے بہتر ہے (جواد شیخ)
آج کا مطلع
بس ایک بار کسی نے گلے لگایا تھا
پھر اس کے بعد نہ میں تھا‘ نہ میرا سایہ تھا