سرخیاں‘ متن اور شعر و شاعری…ظفر اقبال
گورنر ہائوس کھولنے اور گاڑیاں بیچنے سے ملک نہیں چلتے: احسن اقبال
سابق وفاقی وزیر چوہدری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ”گورنر ہائوس کھولنے اور گاڑیاں بیچنے سے ملک نہیں چلتے‘‘ کیونکہ گورنر ہائوسز عوام پر کھولنے سے ان کا دماغ خراب ہو جائے گا‘ جبکہ عوام کو اُن کی اپنی ہی سطح پر رکھنا چاہئے ‘جیسا کہ ہم نے رکھا تھا‘ کیونکہ ہماری قیادت خدمت اکٹھی کرتی رہی ‘ اور عوام کا خانہ خراب ہوتا رہا‘ جو کہ قسمت میں لکھا تھا‘ نیز انہیں حالیہ عام انتخابات میں ن لیگ کو ہرانے کی سزا بھی ملنی چاہئے اور گاڑیاں اسی سازش کے تحت بیچی جا رہی ہیں‘ تا کہ ساری آئندہ قیادت ان سے محروم رہے‘ حالانکہ وہ پہلی فرصت میں ہی جتنی چاہیں گاڑیاں خرید سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ”حکومت چلانا اناڑیوں کا کام نہیں‘‘ جسے ہمارے جیسے ہر فن مولا ہی چلا سکتے ہیں‘ جنہوں نے اپنے فن اور مہارت کا خوب مظاہرہ کیا اور اب عدالتیں محض انتقامی کارروائی کے تحت اس کا حساب لے رہی ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
گیس کی قیمتوں میں اضافہ ظلم ہے‘ واپس لیا جائے: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا کہ ”گیس کی قیمتوں میں اضافہ ظلم ہے‘ اسے واپس لیا جائے‘‘ کیونکہ ابھی تک وہ ہمارے مظالم کی بھی تاب نہیں لا سکے کہ ان پر مزید ظلم ڈھا دیا گیا ہے؛ اگرچہ ہمارے ڈھائے ہوئے مظالم کی تو تلافی نہیں ہو سکتی‘ کم از کم گیس کی قیمتوں میں اضافہ تو واپس ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”ریلیف کے نام پر ووٹ لینے والوں نے ریلیف چھین لیا‘‘ جبکہ وہ ہمارے دیئے ہوئے ریلیفوں کو یاد کر کے کانوں کو ہاتھ لگا رہے ہیں ‘جبکہ ہاتھ لگا لگا کر ان کے کان سُنّ ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ”غریبوں کے چولہے بجھ جائیں گے‘‘ حالانکہ ہم سے تنگ آ کر انہوں نے اپنے چولہے تک فروخت کر دیئے تھے ‘اس لیے سمجھ نہیں آتی کہ وہ کیا ٹھنڈا کرنے جا رہے ہیں اور عوام ہمارے پکی پکائی روٹی کے پلانٹ کو یاد کر رہے ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
حکمرانوں کی غیر ضروری سرگرمیاں بڑھتی جا رہی ہیں: ملک اسد علی
مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما ملک اسد علی اشرف نے کہا ہے کہ ”حکمرانوں کی غیر ضروری سرگرمیاں بڑھتی جا رہی ہیں‘‘ کیونکہ حکومت کا مطالبہ اور مقصد صرف خدمت ہے‘ جس کی یاد ‘ اُس میں ہمارے عمائدین مقدمے بھگت رہے ہیں ‘جبکہ موجودہ حکمرانوں کو خدمت کرنی ہی نہیں آتی۔ اس لیے ان کی دیگر ساری سرگرمیاں غیر ضروری ہیں اور سیاست کے مقصد ہی کے خلاف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ”نواز شریف کے دور میں ملک میں ریکارڈ ترقیاتی کام ہوئے‘‘ جن کے ذریعے انہوںنے بھی ریکارڈ ترقی کی‘ لیکن اس کا حساب کتاب نہیں رکھ سکے‘ کیونکہ ترقی ہی اتنی بے حساب تھی کہ اس کا منی ٹریل رکھنا بھی بیحد مشکل تھا۔ انہوں نے کہا کہ ”خزانہ اچانک خالی ہو گیا‘‘ کیونکہ حکومت جاتے ہوئے احتیاطاً خزانہ خود ہی خالی کر گئی تھی‘ تا کہ دھاندلی سے کامیاب ہونے والی حکومت کے لیے حکومت چلانا ہی مشکل ہو جائے اور وہ دھاندلی کا مزہ چکھ سکے۔ انہوں نے کہا کہ ”عمران خان کو وزیراعظم بننے کی اتنی جلدی تھی کہ دھاندلی تک کر ڈالی‘‘ حالانکہ انہیں پانچ سال تک مزید انتظار اور ہمیں خدمت کرنے کا مزید موقع فراہم کرنا چاہئے تھا ۔ آپ شیخوپورہ سے بیان جاری کر رہے تھے۔
بلدیاتی نظام کو آزادانہ طور پر چلنے دیا جائے: احمد اقبال
چیئر مین نارووال ضلع کونسل احمد اقبال نے کہا ہے کہ ”بلدیاتی نظام کو آزادانہ طور پر چلنے دیا جائے‘‘ جبکہ ہمیں اختیارات دے کر محض زیر باد کرنے کی سازش کی جا رہی ہے‘ جبکہ نالیاں صاف کرنے کا جتنا تجربہ ہمیں حاصل ہو چکا ہے‘ اس سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”بلدیاتی نظام جمہوریت کی پہلی سیڑھی ہے‘‘ جسے دیوار سے ہٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے‘ تا کہ لوگ دیوار پھاند کر گھروں میں داخل ہوں اور جو لوگ فلیٹوں میں رہتے ہیں‘ وہ پائپ کے ذریعے اُوپر جایا کریں۔ انہوں نے کہا کہ ”اگر بلدیاتی نظام کو یکطرفہ کرنے کی کوشش کی گئی ‘تو بھرپور احتجاج کیا جائے گا‘‘ اور معلوم ہوتا ہے کہ حکومت نے اس مقصد کے لیے کافی بُل ڈوزر خرید لیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ”اس نظام کو اس کی مدت ختم ہونے تک ختم نہیں کیا جا سکتا‘‘کیونکہ اگر دوبارہ الیکشن کروائے گئے‘ تو ہم نے کہاں کامیاب ہونا ہے کہ پہلے تو حکومت ہی ہماری تھی۔ آپ اگلے روز ضلع کونسل میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
اور‘ اب کچھ شعر و شاعری ہو جائے:
موجود کچھ نہیں یہاں معدوم کچھ نہیں
یہ زیست ہے تو زیست کا مفہوم کچھ نہیں
جس کے بغیر جی نہیں سکتے تھے‘ جیتے ہیں
بس طے ہوا کہ لازم و ملزوم کچھ نہیں (ضیاء الحسن)
درد کا کوہسار کھینچتا ہوں
سانس کیا ہے‘ غُبار کھینچتا ہوں (آزاد حسین آزاد)
یقیں کچھ اس لیے اُس کی کہانی پر نہیں آیا
ضرورت سے زیادہ اُس کی باتوں میں وضاحت تھی
میں چیختی رہی جب تک تو شور سمجھا گیا
میں چُپ ہوئی تو مری دُور تک دُہائی گئی (یاسمین سحر)
اب مُجھ سے اُن آنکھوں کی حفاظت نہیں ہوتی
اب مجھ سے ترے خواب سنبھالے نہیں جاتے (شہزاد نیّر)
سچ پُوچھو تو منہ مٹی سے بھر جاتا ہے
گری ہوئی جب بات اُٹھانی پڑ جاتی ہے (کبیر اطہر)
عمر گزری ہے مری دشت میں گریہ کرتے
آ کبھی دیکھ مجھے آنکھ کو دریا کرتے (ث سے ثبین)
وہ ترا عشق تھا کہ دریا تھا
دونوں جانب ترے کنارے تھے (رفیق ارم)
آج کا مقطع
بساطِ شوق ہی اُس نے لپیٹ دی ہے‘ ظفرؔ
اُداس ہو جسے لپٹا کے پیار کرنے کو