سرخیاں‘ متن اور شعر و شاعری…ظفر اقبال
جو چاہیں فیصلہ کر یں‘ جیل میں یا پھانسی پر لٹکا دیں: نواز شریف
مستقل نا اہل اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ”جو چاہیں فیصلہ کر لیں‘ پھانسی پر لٹکا دیں یا جیل میں ڈال دیں‘‘ کیونکہ خاکسار نے ملک کے ساتھ جو کچھ کیا ہے ‘دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں‘ لیکن غالباً مجھے جیل ہی بھیجا جائے گا‘ جہاں جاتے ہی اے کلاس مل جائے گی اور یہ جو عدلیہ کی خدمت کرتے کرتے تھک گیا ہوں‘ جی بھر کے آرام کروں گا اور جس کالم نویس نے یہ دھمکی دی تھی کہ اگر مجھے جیل میں اے یا بی کلاس دی گئی‘ تو وہ خود سوزی کر لیں گے اور اس طرح انہیں خود سوزی کرنے کے منظر کا بھی بغور مشاہدہ کرنے کو ملے گا‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ”پیشیوں سے جھکانے کی سوچ غلط فہمی ہے‘‘ کیونکہ پیشی کے بعد ہی تو مجھے دل کی بھڑاس نکالنے کا موقع ملتا ہے؛ اگرچہ میں خود بھی حیران ہوں کہ میرے اندر اتنی بھڑاس کہاں سے آ گئی ہے؛ حالانکہ کھانے کے بعد پھکی بھی میں باقاعدگی سے استعمال کرتا ہوں‘ لیکن اتفاق سے کھانا ہی اتنا زیادہ کھانا پڑتا ہے کہ پھکی بھی بے اثر ہو کر رہ گئی ہے۔ آپ اگلے روز حسب ِمعمول احتساب عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
انتخابی میدان میں تیاری سے اتریں گے: آصف علی زرداری
پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ”انتخابی میدان میں تیاری سے اتریں گے فتح ہماری ہو گی‘‘ اگرچہ پارٹی میں تیاری سے خاصی گھبرائی ہوئی ہے‘ لیکن مجھ سے گلا خلاصی کروانا بھی تو کوئی آسان کام نہیں ہے‘ کیونکہ گنجائش بھی میں ہی نکالا کرتا ہوں ‘جیسے پچھلی بار نکالی تھی‘ کیونکہ وصیت تیار کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا؛ اگرچہ اس بار کسی وصیت کی ضرورت تو نہیں پڑے گی ‘ تاہم پارٹی کے سر پر میرا سایہ ہی کافی ہے‘ جسے بعض لوگ آسیب کا نام بھی دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ”ہر حلقے میں مضبوط امیدوار دیں گے‘ کیونکہ امیدواروں کی ذرہ کمی ہے‘ تاہم جو کچھ دستیاب ہو گا ‘اسے ہم خود بتا دیں گے کہ وہ کافی مضبوط ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں پارٹی قیادت سے ملاقات کر رہے تھے۔
نثار نے ن لیگ کی اینٹیں لگائیں‘ نہ چوری کر سکتے ہیں: پرویز رشید
مسلم لیگ نواز کے رہنما پرویز رشید نے کہا ہے کہ ”چوہدری نثار نے ن لیگ کی اینٹیں لگائیں‘ نہ چوری کر سکتے ہیں‘‘ البتہ وہ اس کی اینٹ سے اینٹ ضرور بجا سکتے ہیں ‘کیونکہ وہ گھر کے بھیدی ہیں اور لنکا کو ڈھانا ان کے لیے کوئی مشکل بات نہ ہو گی‘ اس لیے انہیں یہ اینٹیں چوری کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے ‘جو ہر طرف عمارت سے باہر نکلی پڑی ہیں‘ جو پہلے ہی کہیں کی اینٹ‘ کہیں کے روڑے ہیں‘ یعنی اِدھر اُدھر سے ہی آئے ہوئے ہیں اور اڈاریاں مار کر واپس بھی جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ”مریم نواز نے مسلم لیگ کو سہارا دیا‘‘ اور ان کے میڈیا سیل اور خود انہی کے طفیل مسلم لیگ کی یہ حالت ہو چکی ہے کہ تقریباً ہر کسی کو جیل صاف نظر آ رہی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
آئین پر عمل نہیں ہو رہا‘ پس پردہ قوتیں ملک چلا رہی ہیں: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ”ادارے آئین پر عمل نہیں کر رہے‘ پس پردہ قوتیں ملک چلا رہی ہیں‘‘ کیونکہ اگر ملک چلانے کے لیے کوئی اور دستیاب نہ تھا‘ تو کم از کم ہماری ہی خدمات حاصل کر لی جائیں ‘جو شروع سے ہی بے لوث ہو کر کام کر رہے ہیں‘ لیکن کرپٹ حکومتیں ہمیں بھی کب بے لوث رہنے دیتی ہیں‘ بلکہ اپنے ہی رنگ میں رنگ لیتی ہیں اور ہمیں پتہ تک نہیں چلتا‘ اس لیے جہاں نادیدہ قوتیں سارا ملک چلا رہی ہیں‘ ساتھ ساتھ ہمارا بھی خیال رکھ سکتی ہیں ‘جبکہ ان کے پاس تو فنڈز بھی بے انداز ہوتے ہیں اور انہیں پوچھنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا‘ آخر حقوق العباد اسی کو تو کہتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ اب انہیں دینی شعار بھی سکھانا پڑیں گے‘ جس کے لیے ہمارے لوگ مناسب داموں پر ٹیوشن پڑھانے کے لیے دستیاب ہیں۔ اس لیے امید ہے کہ اس ضمن میں کوتاہی سے کام نہیں لیا جائے گا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک سیمینار سے خطاب کر رہے تھے۔
اور اب کچھ شعر و شاعری ہو جائے:
راستے بھی نہیں بنے تھے ابھی
قافلے پھر بھی آتے جاتے رہے
بجھ گیا شہر اور شہر کے لوگ
کاغذوں پر دیئے بناتے رہے (مقصود وفاؔـ)
آنکھ کو چھو کے گزرتی ہوئی یہ شام نویدؔ
اپنے دامن میں ہمارے لیے کیا رکھتی ہے (افضال نویدؔ)
ٹھیک ہیں دشمنوں کے ہاں صاحب
اپنے سب یار لوگ خیر سے ہیں
وہ جو مصروف ہیں وہ اچھے ہیں
باقی بیکار لوگ خیر سے ہیں
کوئی ہر ایک شخص سے خوش باش
پسِ دیوار لوگ خیر سے ہیں (اعجاز بوستان)
وہی مخصوص خوشبو تھی ہوا میں
کوئی موجود تھا لیکن نہیں تھا
بہت آسان تھا یوں چھوڑ جانا
میں رستا تھا‘ کوئی اڑچن نہیں تھا
پسِ دیوار ایسی بے دری تھی
کوئی کھڑکی‘ کوئی روزن نہیں تھا (آزاد حسین آزادؔ)
لوٹ آنے میں وہ آسانی میسر ہی نہیں
کتنی آسانی سے جاتا ہوں میں مشکل کی طرف (زبیر قیصر)
کسی نے پائوں کیا مجھ میں بھگوئے
خوشی سے پُل کے اوپر بہہ رہا ہوں (احمد جہانگیر داجلی)
آج کا مطلع
فرضی بھی نہیں تھی‘ جو خیالی بھی نہیں تھی
وہ شکل کوئی بھولنے والی بھی نہیں تھی