سرخیاں‘ متن اور شعر و شاعری….ظفر اقبال
پاکستان جانے نہ جانے کا فیصلہ وکلاء سے
مشاورت کے بعد کروں گا:نواز شریف
مستقل نا اہل سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ”پاکستان جانے نہ جانے کا فیصلہ وکلاء سے مشاورت کے بعد کروں گا‘‘ کیونکہ پہلے تو کلثوم نواز کی بیماری کا بہانہ تھا۔ اب وہ تازہ رپورٹس کے مطابق ‘کافی بہتر ہیں۔اس لیے وکلاء سے مشورہ کروں گا اور اگر انہوں نے اجازت دی ‘تو چلا جائوں گا‘ کیونکہ سزا سننے کے لیے پاکستان جانا تو کوئی عقلمندی نہیں ہو گی۔ وہ میں یہاں بیٹھ کر بھی سن سکتا ہوں اور اس کے بعد دیکھوں گا کہ انٹرپول والوں میں کتنا دم خم ہے‘ کیونکہ ایک سابق وزیراعظم کو آخر زبردستی پاکستان کیسے لایا جا سکتا ہے؟ ہیں جی! انہوں نے کہا کہ ”انتخابات میں دھاندلی کا آغاز کر دیا گیا‘‘ البتہ یہ پتا نہیں چل رہا کہ یہ دھاندلی کیسے ہو رہی ہے اور کروا کون رہے ہیں‘ کیونکہ پہلے تو الزام ہم پر لگایا جاتا تھا۔ آپ اگلے روز لندن میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
نواز شریف نے دشمنی کی‘ جواب ووٹرز دیں گے: چوہدری نثار
سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ ”نواز شریف نے دشمنی کی‘ جواب ووٹرز دیں گے‘‘ جبکہ میں جواب دینے سے قاصر اس لیے ہوں کہ نواز شریف اس دوران جو گڑ بڑیں کرتے رہے ‘وہ ان گنہگار آنکھوں کے سامنے ہوا اور میں وفاداری نبھاتا رہا‘ کیونکہ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ وزیراعظم کے جملہ اعمال وزیر داخلہ سے پوشیدہ رہیں اور اگر پوشیدہ رہ بھی گئے ہوں‘ تو وزیر داخلہ کی اس سے زیادہ نالائقی اور کیا ہو سکتی ہے اور میں ہرگز اتنا نالائق نہیں ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ”تقریر وہاں کی جاتی ہے‘ جہاں لوگوں کو قائل کرنا ہو‘‘ جبکہ لوگوں کو میرا کچا چٹھا تو پہلے ہی معلوم ہے کہ کس طرح میں نے میگا کرپشن سے چشم پوشی کی‘ جس کے جواب میں نواز شریف دشمنی کر رہے ہیں۔ آپ اگلے روز راولپنڈی میں ایک اجتماع سے خطاب کر رہے تھے۔
پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے لیے میرا نام بھی ہے: فواد چوہدری
پاکستان تحریک ِانصاف کے ترجمان فواد چوہدری نے کہا ہے کہ ”پنجاب کی وزارت ِاعلیٰ کے لیے میرا نام بھی ہے‘‘ اگرچہ یہ بات قیادت کی طرف سے آنی چاہئے تھی ‘لیکن میں چونکہ چیئر مین کا ترجمان بھی ہوں‘ اس لیے یہی سمجھا جائے کہ پنجاب کی وزارت ِاعلیٰ کے لیے میرا نام بھی زیر غور ہے اور اس غور کا نتیجہ کچھ بھی نکل سکتا ہے ‘ لیکن بہر حال کہنے میں کیا ہرج ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”چوہدری نثار پہلے قومی لیڈر تھے‘ لیکن انہوں نے چانس ضائع کر دیا‘‘ جبکہ میں چانس ضائع ہرگز نہیں کرنا چاہتا اور جہانگیر ترین کی نا اہلی کا پورا پورا فائدہ اٹھائوں گا۔ انہوں نے کہا کہ ”عمران خان وزیراعظم بنتے ہیں ‘ تو میں بھی ان کے ساتھ ہی ہوں‘‘ اور ان کے ساتھ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ میں اپنے آپ کو کچھ بھی سمجھ سکتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ”نواز لیگ سے عوام انتہائی مایوس ہو چکے ہیں‘‘ چنانچہ اب ہماری باری ہے اور عوام کو مایوس کرنے کا حق ہمارا ہے۔ آپ اگلے روز پریس کلب پنڈدادن خان میں پریس کانفرنس کر رہے تھے۔
انتخاب کی آمد آمد ہے‘ کارکن مورچے سنبھال لیں: حمزہ شہباز
نواز لیگ کے مرکزی رہنما حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ”انتخاب کی آمد آمد ہے‘ کارکن مورچے سنبھال لیں‘‘ کیونکہ میں نے تو باجی مریم نواز کا مورچہ سنبھالا ہوا ہے اور اسے کسی منطقی انجام تک پہنچا کر ہی دم لوں گا‘ کیونکہ انہوں نے کامیاب ہو کر میرے ہی مقابلے میں آ کھڑی ہونا ہے۔ اس لیے میری سر توڑ کوشش ہو گی کہ انہیں اس کا موقعہ ہی نہ ملے۔ اوّل تو جمعہ کے روز آنے والے فیصلے سے ہی سارا معاملہ طے ہو جائے گا‘ کیونکہ سزا یافتہ شخص تو الیکشن لڑ ہی نہیں سکتا؛چنانچہ اس سے فارغ ہوتے ہی میں کارکنوں کے ساتھ دوسرے مورچے سنبھالوں گا۔ انہوں نے کہا کہ ”پاکستان مسلم لیگ (ن)‘ جسے اب (ش) کہنا چاہیے‘ بھاری اکثریت سے کامیاب ہو کر حکومت بنائے گی‘‘ اگرچہ آثار تو کچھ اور ہی نظر آ رہے ہیں‘ کیونکہ نیب والے والد صاحب کے گرد بھی گھیرا تنگ کر رہے ہیں اور اس کے بعد میری طرف بھی توجہ مرکوز کرتے نظر آتے ہیں۔ آپ اگلے روز این اے 127 کی کمیٹی سے خطاب کر رہے تھے۔
اور اب آخر میں کچھ شعر و شاعری ہو جائے:
ہنسی پرانی ہو جاتی ہے‘ آنسو تازہ رہتا ہے
دکھ سہنے سے زندہ ہونے کا اندازہ رہتا ہے
ایک ہی مطلب ہو سکتا ہے ٹوٹے کانچ لگانے کا
ان دیواروں کے اندر بھی اک دروازہ رہتا ہے
تم پر جچتی ہے زیبائش‘ صاف گھروں میں رہتے ہو
ہم آئینہ ساز ہیں ہم پر دھول کا غازہ رہتا ہے (انجم سلیمی)
بعض اوقات خیالوں میں بھٹک جاتا ہوں
اتنا چلتا ہوں کہ بیٹھے ہوئے تھک جاتا ہوں
ایک چہرہ ہے جسے دیکھ کے لمحہ بھر کو
دل ٹھہر جاتا ہے‘ میں آپ دھڑک جاتا ہوں
گھر سے میں کھینچ کے لاتا ہوں سڑک تک خود کو
پھر جدھر لے کے چلی جائے سڑک‘ جاتا ہوں (عمیر نجمی)
جو کہیں سر جھکا نہیں سکتا
وہ کہیں سر اٹھا نہیں سکتا
میں زمانے سے تنگ ہوں لیکن
میں کہیں اور جا نہیں سکتا
میری دانشوری بھی اتنی ہے
جاگتا ہوں‘ جگا نہیں سکتا
کوئی صورت ہو پہلے ہنسنے کی
روتے روتے تو گا نہیں سکتا (خالد ندیم شانی)
پتھر ہوں پڑا ہوں میں کسی کوہ پہ قیصرؔ
یعنی میں بلندی سے لڑھکنے کے لیے ہوں (قیصر مسعود)
آج کا مقطع
ظفرؔ مرے خواب وقتِ آخر بھی تازہ دم تھے
یہ لگ رہا تھا کہ میں جوانی میں جا رہا تھا