سرخیاں‘ متن اور ضمیر ؔطالب….ظفر اقباال
عوام 25 جولائی کو تاریخی فیصلہ سنائیں گے: نواز شریف
مستقل نا اہل اور سزا یاب سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ”عوام 25 جولائی کو تاریخی فیصلہ سنائیں گے‘ تحریک کامیاب ہو گی‘‘ اور اگر یہ فیصلہ تاریخی نہ ہوا‘ تو جغرافیائی ہو جائے گا‘ کیونکہ بہت سی چیزیں اپنی جگہ تبدیل کر لیں گی اور عمر عزیز کا باقی حصہ جیل میں ہی گزرے گا‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ”مریم اور میں ‘ ووٹ کی عزت کے لیے ہی قید ہیں‘‘ اور جس جرم کی سزا میں قید ہیں‘ وہ بھی ووٹ کی عزت ہی کے لیے کیا گیا تھا کہ وزیراعظم جتنا امیر ہو گا ‘ ووٹ اسی قدر با عزت ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ”الیکشن کے بعد ملک اور قوم کی تقدیر بدل جائے گی‘‘ کیونکہ جو نئے لوگ آئیں گے‘ وہ یقیناملک و قوم کی تقدیر بدل ڈالیں گے‘ جبکہ ہم تو اپنی ہی تقدیر بدلنے میں لگے رہے۔ آپ اگلے روز اڈیالہ جیل سے ایک آڈیو پیغام ارسال کر رہے تھے۔
ہمارا راستہ روکنے کیلئے جعلی سیاستدانوں نے اتحاد بنا لیا : بلاول بھٹو
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ”ہمارا راستہ روکنے کے لیے جعلی سیاستدانوں نے اتحاد بنا لیا ‘‘ جبکہ اصلی سیاستدانوں نے ہمارے خلاف کوئی اتحاد اس لیے نہیں بنایا‘ کیونکہ وہ ہمیں کوئی اہمیت ہی نہیں دے رہے۔ انہوں نے کہا کہ ”سب کو شکست دیں گے‘‘ جیسا کہ پچھلی بار دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ”پیپلز پارٹی کا مقابلہ کسی جماعت یا سیاستدان سے نہیں‘ غربت اور بیروزگاری سے ہے ‘‘اور یہی کوشش ہم نے اپنے سابقہ دور میں بھی کی تھی ‘لیکن غربت اور بیروزگاری میں اضافہ ہی ہوا تھا‘ تاہم جملہ معززین نے اپنے روزگار کا مستقل انتظام کر لیا تھا کہ وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا‘ کیونکہ ہم دور اندیش لوگ واقع ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ”غیر جمہوری ہتھکنڈوں سے ڈرنے والا نہیں ہوں‘‘ البتہ جمہوری ہتھکنڈوں کے سامنے میری ایک نہیں چلتی‘ اس کی وجہ والد صاحب سے پوچھ کر بتائوں گا۔ آپ اگلے روز لاڑکانہ میں انتخابی ریلی سے خطاب کر رہے تھے۔
معاشی میدان میں بھارت کو بھی پیچھے چھوڑ دیں گے: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ”معاشی میدان میں بھارت کو بھی پیچھے چھوڑ دیں گے‘‘ اگرچہ یہ اس دفعہ تو ممکن نہیں ہے ؛البتہ اگلی بار اس کی پوری پوری کوشش کریں گے؛ بشرطیکہ نیب اور ایف آئی اے کے انتقامی ہتھکنڈوں سے بچے رہے۔ انہوں نے کہا کہ ”نواز شریف ووٹوں کی طاقت سے ہی جیل سے باہر آئیں گے‘‘ کیونکہ جیل میں نواز شریف کی صحت تسلی بخش ہے اور وہ دوڑ لگا کر جیل سے باہر آ جائیں گے‘اور جو ڈاکٹری معائنے کے بعد فوراً ہی صحت یاب ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ”عمران خان‘ دھوکے باز ہے‘ ہر وقت یوٹرن لیتا ہے‘‘ اور ایسا لگتا ہے کہ ایسی ہی چالاکیوں کی وجہ سے وہ کامیاب بھی ہو جائے گا اور ہم سیدھے سادھے لوگوں کو حیران کر کے رکھ دے گا۔ انہوں نے کہا کہ ”25 جولائی کو شیر دھاڑے گا‘‘ اور کون کہتا ہے کہ کاغذی شیر دھاڑ نہیں سکتا۔ آپ اگلے روز ڈیرہ غازی خان میں انتخابی جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
جذبہ بتا رہا ہے ‘الیکشن میں شیر ہی دھاڑے گا: حمزہ شہباز
نواز لیگ کے مرکزی رہنما حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ”جذبہ بتا رہا ہے‘ الیکشن میں شیر ہی دھاڑے گا‘‘ اور اس کو دھاڑنے کی تربیت بھی دے رہے ہیں ‘لیکن یہ کم بخت آگے سے ممیانے لگتا ہے‘ جبکہ اسے کہتے ہیں کہ کم بخت تو شیر ہے‘ بکری نہیں ہے‘ کیونکہ وہ گوشت کی بجائے چارہ ہی شوق سے کھاتا ہے اور اگر دھاڑ نہیں سکتا‘ تو کم از کم چپ ہی رہے‘ مَیں مَیں ہی نہ کرے۔ انہوں نے کہا کہ ”ووٹ کے ذریعے نواز شریف کے ساتھ کی جانے والی زیادتی کا حساب لیں گے‘‘ اگرچہ ووٹر ذرا سست واقع ہوا ہے کہ استقبال والے دن بھی مال روڈ سے آگے نہیں بڑھ سکا تھا۔ شرپسند جس کے بارے میںکہتے ہیں کہ شہباز شریف نے جان بوجھ کر ایسا کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ”تم نواز شریف کو وزارت ِعظمیٰ سے ہٹا سکتے ہو‘ لیکن عوام کے دلوں سے نہیں نکال سکتے‘‘ حتیٰ کہ ان کے دل کی دھڑکن بھی ناہموار ہو گئی ہے۔ آپ اگلے روز مختلف جگہوں پر انتخابی جلسوں سے خطاب کر رہے تھے۔
اور اب آخر میں کچھ ضمیرؔ طالب:
پہلے میں چھوڑنے جاتا ہوں اسے گھر تک‘ اور
واپسی پر وہ مرے ساتھ چلا آتا ہے
رائیگاں کرنے کی خاطر ہی ضمیرؔ
بڑی محنت سے بچاتا ہوں وقت
دوستو کیا پوچھتے ہو کاروبارِ زیست مجھ سے
مہنگے داموں لے کے خود کو سستے داموں بیچتا ہوں
اک شجر نے مجھے جادو یہ سکھایا ہے ضمیرؔ
میں جہاں چاہتا ہوں سایہ بنا لیتا ہوں
جسے غرض نہیں تعبیر سے ہوا کرتی
ہر ایک آنکھ میں ایسا بھی خواب ہوتا ہے
ترے بغیر کسی کام کا نہیں ہوں میں
کوئی گناہ نہ مجھ سے ثواب ہوتا ہے
زباں دراز ہے اور شکل بھی ہے واجبی سی
نجانے دل کو نظر آ گیا ہے کیا اُس میں
کچھ کہیں ہوتا ہوں میں اور کچھ کہیں
پورے کا پورا کہیں ہوتا نہیں
لوگ آتے ہیں تو آ جاتی ہے تنہائی میسر
میں اپنی ہی کثرت میں گھرا رہتا ہوں ورنہ
رخ بظاہر ہے کہیں اور ضمیرؔ
میں مگر اور کہیں جا رہا ہوں
آج کا دن ترے لیے ہے فقط
آج میں خود سے بھی نہیں ملوں گا
آج کا مقطع
اور کیا چاہیے کہ اب بھی‘ ظفرؔ
بھوک لگتی ہے‘ نیند آتی ہے