سرخیاں ‘ متن اور غزل….ظفر اقبال
ہمارے ہاتھ پائوں باندھ کر انتخابات میں اتارا گیا: مشاہد اللہ خان
نواز لیگ کے رہنما مشاہد اللہ خان نے کہا ہے کہ ”ہمارے ہاتھ پائوں باندھ کر انتخابات میں اتارا گیا‘‘ ہم نے تو کہا تھا کہ ہمارے پائوں ہی باندھ لو‘ ہاتھ تو کھلے رہنے دو‘ لیکن کہا گیا کہ ساری گڑبڑ تو آپ ہاتھوں سے کرتے ہیں۔ اس لئے ہاتھ باندھنا بھی ضروری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ”ایک سال سے ہماری پارٹی کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے‘‘ کیونکہ ظاہر ہے کہ حکومت بھی ہماری ہی تھی اور ہم نے اس دوران جو جو کمالات دکھائے تھے ‘ان کی پاداش میں ٹارگٹ بھی ہم نے ہونا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ”عمران خان وزیراعظم کی بجائے سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن جائیں گے‘‘ بلکہ انہوں نے تو کہا کہ ”کسی بھی کرپٹ کو نہیں چھوڑیں گے‘‘ لیکن اگر ایک بھی کرپٹ نہ بچا‘ تو حکومت کون کرے گا ‘جو کرپشن کے بغیر چل ہی نہیں سکتی۔ انہوں نے کہا کہ ”ہم اس سسٹم کو تبدیل نہیں کرنا چاہتے‘‘ کیونکہ وارے نیارے اسی سسٹم میں تو ہوتے ہیں۔ آپ اگلے روز کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
اسمبلیوں میں جمہوری کردار ادا کریں گے: بلاول بھٹو زرداری
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ”اسمبلیوں میں جمہوری کردار ادا کریں گے‘‘ کیونکہ ہم صرف جمہوری کردار ادا کر سکتے ہیں‘ جس کی مثال والد محترم اور یوسف رضا گیلانی کی صورت میں رہتی دنیا تک موجود اور درفشاں رہے گی‘ جبکہ دیگر معززین بھی کسی سے کم نہیں تھے۔ انہوں نے کہا کہ ”ہم ڈٹ کر اپوزیشن کریں گے‘‘ کیونکہ ہم حکومت بھی ڈٹ کر ہی کرتے ہیں‘ جس میں ڈٹ کر خدمت کرنا سب سے اہم کام ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”چیف الیکشن کمشنر مستعفی ہوں‘‘ جو اگرچہ ہرگز ایسا نہیں کریں گے‘ تاہم کہنے میں کیا ہرج ہے۔انہوں نے کہا کہ ”سیاسی جماعتیں پارلیمنٹ کو نہ چھوڑیں‘‘ کیونکہ یہیں سے خدمت کرنے کے اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ”صاف اور شفاف الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری تھی‘‘ جو کہ لیاری میں ہرگز روا نہیں رکھی گئی۔ آپ اگلے روز کراچی میں ایک ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
پنجاب میں صورتحال کاریگروں کے مطابق نہیں رہی: رانا ثناء
سابق وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ ”پنجاب میں صورتحال کاریگروں کے مطابق نہیں رہی‘‘ جبکہ ہمیں پوری کاریگری دکھانے کا موقعہ بھی نہیں ملا؛اگرچہ پہلے تو کوئی کاریگری دکھائے بغیر بھی ہم جیت جایا کرتے تھے کہ خلائی مخلوق جی بھر کے ہماری مدد کیا کرتی تھی‘ لیکن اس دفعہ اس نے ساری روایات کو نظر انداز کر دیا اور قومی اسمبلی میں ہمارا کباڑا ہو گیا‘ وہ تو شکر ہے کہ آخر میں میرا بھی دائو لگ گیا ‘ورنہ میری شکست کا تو اعلان بھی ہو چکا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ”ن لیگ اکثریت کے قریب پہنچ گئی تھی‘‘ کیونکہ 64 اور 117 میں کوئی اتنا فرق تو نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ ”میرے کارکنوں کے چہرے پر کالا کپڑا ڈال کر لے جایا جاتا رہا‘‘ حالانکہ کسی اور رنگ کا کپڑا بھی ڈالا جا سکتا‘ تو کیونکہ کالا رنگ تو ویسے بھی منحوس ہوتا ہے۔ آپ اگلے روز ایک مقامی روزنامہ کو انٹرویو دے رہے تھے۔
سلیکشن ہو چکا‘ اب صرف تاج پہنایا جائے گا: ریحام خان
عمران خان کی سابق اہلیہ ریحام خان نے کہا ہے کہ ”سلیکشن ہو چکا‘ اب صرف تاج پہنایا جائے گا‘‘ اور کتاب لکھنے میں جو محنت کی تھی‘ ساری کی ساری اکارت گئی؛ حالانکہ یقین دلایا گیا تھا کہ کتاب چھپتے ہی عمران خان کا دھڑن تختہ ہو جائے گا‘ لیکن ان کا اپنا ہو گیا۔ انہوں نے کہا کہ ”جس کے سر پر تاج ہوتا ہے‘ نیند بھی اسی کی حرام ہوتی ہے‘‘ اور میرے اطمینان قلب کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ عمران خان بے خوابی کا شکار رہے‘ جبکہ طلاق سے پہلے میرے سر پر بھی تاج ہوا کرتا تھا‘ اور میری بھی نیندیں حرام ہوا کرتی تھیں ؛اگرچہ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ میں بھی خاتونِ اوّل بننے کے خواب دیکھا کرتی تھی‘ لیکن لگائی بجھائی کرنے والوں نے ہمارا کام ہی خراب کر دیا اور انہی خوابوں کی وجہ سے میری چھٹی بھی کرا دی گئی۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے بات چیت کر رہی تھیں۔
اور ‘ اب آخر میں اس ہفتے کی تازہ غزل:
بے منظری بھی ہے کوئی منظر کے آس پاس
آئینہ ہے پڑا ہوا پتھر کے آس پاس
یونہی نہیں گزرتے ادھر سے گھڑی گھڑی
رہتا ہے کوئی کام ترے گھر کے آس پاس
باقی ہے جو بھی اب وہ ترا کام ہے فقط
کنکر ہیں اور ہیں تری ٹھوکر کے آس پاس
اک سترہ برس کے صنم پرفدا تھے ہم
حالانکہ تھے ابھی کوئی ستر کے آس پاس
اک دوسرے سے دور نہیں ہیں کسی طرح
منڈلا رہی تھی شام بھی دن بھر کے آس پاس
دنیا و دیں سے خود کو بچایا ہے اس طرح
مومن کے ہیں قریب نہ کافر کے آس پاس
ہیں سخت نا پسند ہمیں‘ ہیں اگرچہ ہم
اکثر ہی پائے جائیں گے اکثر کے آس پاس
اس نے ہمارے پائوں ہی ٹکنے نہیں دیئے
اک سوچ جو کبھی نہیں تھی سر کے آس پاس
ہم خود ہی بازیاب نہ ہو پائے‘ اے ظفرؔ
دیوار بھی نہیں تھی کوئی در کے آس پاس
آج کا مطلع
شبہ سا رہتا ہے یہ زندگی ہے بھی کہ نہیں
کوئی تھا بھی کہ نہیں تھا‘ کوئی ہے بھی کہ نہیں