سرخیاں‘ متن اور نعیم ضرارؔ….ظفر اقبال
نوازشریف اور مریم اپنوں کے ساتھ عید منائیں گے: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ”نوازشریف اور مریم اپنوں کے ساتھ عید منائیں گے‘‘ کیونکہ ہم یعنی ان کے سارے اپنے اڈیالہ جیل جا کر ان کے ساتھ عید منائیں گے اور ٹھیک ٹھیک موج مستی کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ”میرا بیانیہ سب جانتے ہیں‘‘ جو نواز شریف کے بیانیہ سے سراسر مختلف‘ بلکہ برعکس ہے اور اسی وجہ سے پارٹی میں دو گروپ بنے ہوئے ہیں اور خوب رونق لگی رہتی ہے۔ انہوںنے کہا کہ ”دھاندلی زدہ الیکشن کو بے نقاب کریں گے‘‘ جبکہ وہ بے نقاب تو پہلے ہی ہے کہ عوام نے ہمیں ووٹ نہیں دیئے اور یہ سب بھائی صاحب کے بیانیہ کی نحوست کی وجہ سے ہے انہوں نے کہا کہ ”الیکشن کمیشن فرائض کی ادائیگی میں ناکام رہا ہے‘‘ حالانکہ اسے ہم نے بنایا تھا‘ لیکن خلائی مخلوق کی طرح اس نے بھی آنکھیں پھیر لیں اور دشمنوں سے مل گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”اسمبلی میں انتخابی دھاندلی کا جواب لے کر رہیں گے‘‘ اس کے علاوہ ہم نے کرنا بھی کیا ہے۔ آپ اگلے روز جیل میں نواز شریف سے ملاقات کے بعد بیان دے رہے تھے۔
نئے پاکستان کا نعرہ لگانے والوں نے آغاز خرید و فروخت سے کیا: حمزہ
نواز لیگ کے مرکزی رہنما اور رکن قومی اسمبلی حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ”نئے پاکستان کا نعرہ لگانے والوں نے آغاز خرید و فروخت سے کیا‘‘ اور اس کی ضرورت آغاز ہی میں پڑتی ہے ‘جیسا کہ ہم نے ہی چھانگا مانگا میں اس کی بنیاد رکھی تھی‘ جبکہ ہم تو دکاندار لوگ تھے‘ خرید و فروخت ہمارا کام بھی ہے اور حق بھی‘ لیکن عمران خان کہاں کے دکاندار ہیں‘ جو یہ خرید و فروخت کرتے پھرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ”صوبے میں کسی کے لیے میدان کھلا نہیں چھوڑیں گے‘‘ اگرچہ ہمیں اپوزیشن میں بیٹھنے کا تجربہ ہی نہیں ہے‘ بلکہ حکومت اور خدمت کا ہم سے زیادہ کسی کو دعویٰ بھی نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ”ہماری تیاری مکمل ہے‘‘ یعنی ہارنے کے لیے بالکل تیار ہیں۔ آپ اگلے روز پنجاب اسمبلی آمد پر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
ہارس ٹریڈنگ والے عمران کیا نیا پاکستان بنائیں گے: سعد رفیق
سابق وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ”جھوٹ ‘ ہارس ٹریڈنگ والے عمران کیا نیا پاکستان بنائیں گے‘‘ کیونکہ وہ تو جھوٹ بھی سلیقے سے نہیں بول سکتے‘ کم از کم اس کی تربیت ہم سے ہی حاصل کر لیتے‘ کیونکہ ہمارے پاس دینے کو اور تو کچھ رہ نہیں گیا اور جس سفاکی سے اس نے مجھے ہرایا ہے‘ وہ بھی انتہائی قابلِ شرم ہے‘ اگرچہ ہمیں ہار کر کوئی شرم نہیں آئی۔ انہوں نے کہا کہ ”پنجاب میں ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے حکومت بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے‘‘کیونکہ حکومت ہارس ٹریڈنگ کے بغیر بن ہی نہیں سکتی اور اس کا گواہ ہم سے زیادہ اور کون ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”گزشتہ روز ملک میں 71 واں یوم آزادی منایا گیا‘ لیکن مجھے افسوس ہے کہ آج بھی ہم آزاد نہیں‘‘ جبکہ ایک ہارا ہوا شخص تو غلام سے بھی بدتر ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”اگر تھیلے دوبارہ کھل گئے‘ تو عمران خان کی اصلیت پوری قوم کے سامنے آ جائے گی‘‘ کیونکہ اس چالاک شخص نے دوبارہ جیت جانا ہے اور میں نے دوبارہ ہار کر سرخرو ہونا ہے۔ آپ اگلے روز پنجاب اسمبلی کے باہر صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
میرے ہاتھ پائوں نہ کاٹیں‘ میں کونسا لیڈر بنوں گا: جاوید ہاشمی
سینئر سیاستدان مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا ہے کہ ”میرے ہاتھ پائوں نہ کاٹیں‘ میں کونسا لیڈر بنوں گا‘‘ کیونکہ جب سے میں نے تحریک انصاف چھوڑی ہے‘لیڈری کا فتور تب سے ہی میرے دماغ سے نکل گیا تھا اور پوری توقعات کے برعکس نواز لیگ نے بھی مجھے گھاس نہیں ڈالی اور مجھے صرف ملتان میں نواز شریف کی جپھی پر ہی ٹرخا دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ”چار سال سے ن لیگ کو بتاتا رہا ہوں کہ آپ کے ساتھ کیا ہونے جا رہا ہے‘‘ اگرچہ میں اپنے بارے میں اندازہ نہ لگا سکا کہ میرے ساتھ کیا ہونے جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”میں نے کوشش کی کہ اس ملک کا نظام ٹھیک ہو‘‘لیکن اس کی بجائے میرا نظام ہی تہہ و بالا کر دیا گیا اور میں اپنے آپ سے یہ کہتا رہ گیا کہ ہور چوپو! آپ اگلے روز احتساب عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور ‘ اب کچھ شعر و شاعری ہو جائے:
خوشی تو ایک طرف‘ غم بھی اب نہیں کوئی
میں آگہی کے کسی عرصۂ خلا میں ہوں
خیرات میں خوشی بھی نہیں ہے مجھے قبول
غم ہی سہی مگر مرے اپنے کمائے ہوں
ایک احساس ہی تو ہے ورنہ
آدمی آدمی کہاں ہے اب
ترے آنچل کو پیارے ہو گئے ہیں
مرے آنسو ستارے ہو گئے ہیں
بہت ہے یہ کہ ہم اب ہمسفر ہیں
ندی کے دو کنارے ہو گئے ہیں
یہیں پر رہ گئی ہیں تیری یادیں
مرے وارے نیارے ہو گئے ہیں
جو مجھ کو روکتے تھے شیخ صاحب
سنا ہے خود تمہارے ہو گئے ہیں
جتنی آنکھیں تھیں ساری میری تھیں
جتنے چہرے تھے سب تمہارے تھے
خود اپنی آگ میں جلتا رہا پگلتا رہا
مرا سخن بھی تمہارے شباب جیسا تھا
جب سے احساس بجھ گیا اندر
تب سے باہر بڑا اندھیرا ہے(نعیم ضرارؔ)
آج کا مقطع
ہے‘ ظفرؔ یہ بھی ایک مجبوری
جی رہے ہیں کہ مر نہیں سکتے