منتخب کردہ کالم

سررہ گزر…پرو فیسر سید اسرار بخاری

سررہ گزر

سررہ گزر…پرو فیسر سید اسرار بخاری

نوشتہِ عمل
سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے:آنے والے دنوں میں بڑا انتشار دیکھ رہا ہوں۔ یہ بات غیر معمولی طور پر اہم ہے اس پر مثبت انداز میں سوچنا چاہئے، ایک جملہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اب ہمیں درگزر سے کام لیتے ہوئے آگے بڑھنا ہو گا، ایک بات طے ہے کہ ہم جیسے بھی ہیں من حیث القوم محب وطن ہیں، میاں نواز شریف 3بار وزیراعظم رہ چکے ہیں ان کے تجربے، مشاہدے اور بصیرت سے فائدہ اٹھانا چاہئے، یہ بات کئی دنوں سے ہمارے ذہن میں بھی کھٹک رہی تھی کہ آگے چل کر پاکستان کو ملک دشمن قوتیں کسی بڑے انتشار سے دوچار نہ کر دیں اس لئے یہ ضروری ہے کہ اب تمام اسٹیک ہولڈرز اور پوری قوم دانشمندی کا مظاہرہ کرے، درگزر سے کام لے، ہم کچھ منفیت پسند ہوتے جا رہے ہیں، اور ہر بات میں کوئی غلط بات کوئی اندیشہ ڈھونڈ کر اس کی تشہیر بھی کرتے ہیں جو شخص بھی کہیں کوئی دہکتا انگارا دیکھے اس پر پانی ڈال دے یہی ہماری اجتماعی بقا کے لئے ضروری ہے، اس وقت سب کو سیاست آئی ہوئی ہے، مگر اسے اہل سیاست جیسی باقاعدہ وہ سیاست نہیں کہا جا سکتا جو ملک و قوم کے لئے مفید ہو، ہم اپنے سیاستدانوں سے بھی گزارش کریں گے کہ ہمارے ملک نے کافی دھوکے دھکے کھا لئے اب سنجیدگی سے ووٹ کی حرمت اور ووٹر کی خدمت مخلصانہ انداز میں کرنے کے لئے میدان میں اتریں، ہمیں یہ جان کر

حیرانی کے ساتھ پریشانی بھی ہوتی ہے کہ کسی جماعت کے پاس ٹھوس لائحہ عمل نہیں جس میں ایک جامع پروگرام طے شدہ ہو، باقی یہ جو ہم ان دنوں نظریئے کے لفظ سے کھلواڑ کر رہے ہیں یہ بڑی ہی مضحکہ خیز بات ہے، کیا ہمارا قومی نظریہ طے نہیں، وہی جس کی بنیاد پر ہم نے یہ ریاست کھڑی کی، ہم سب کا ایک ہی نظریہ موجود ہے، اب مزید نظریات کی ضرورت نہیں اب ایسے قابل عمل پروگرام کی ضرورت ہے جو واقعتاً سیاست کو خدمت بنائے پیسہ بنانے، شہرت و غلبہ حاصل کرنے سے دور رکھے یہی ہماری ضرورت ہے۔
٭٭٭٭
پی ٹی آئی میں اصلاح و تصحیح کی گنجائش
اصلاح و تصحیح کی اس وقت جتنی ضرورت پی ٹی آئی کو ہے شاید اتنی کسی کو بھی نہیں مگر اس کا ہر فرد دوسروں کے سامنے دوسروں کے لئے مصلح اعظم بننے کی کوشش کر رہا ہے، یہ کیسے اناڑی کھلاڑی ہیں کہ اپنے ہی ہاتھوں اپنا کھیل خراب کر رہے ہیں۔ قوم کی ضرورت کو پیش نظر رکھا جائے اپنی ذاتی ضروریات سے ہاتھ اٹھا لینا چاہئے، عمران خان نے آغاز میں یہ عندیہ دیا تھا کہ یہ نوجوانوں کی جماعت ہو گی جن کو ایک قومی ترقیاتی منشور کی تربیت دی جائے گی اور یہ بھی سکھایا جائے گا کہ اب صرف اپنے ہدف کو حاصل کرنا ہے، اور سیاست برائے ذاتی کامیابی کی بیماری کا شکار نہیں ہونا، طالع آزما تو وہیں جاگرے گا جہاں اس کی ذات کو فائدہ ہو گا، لیکن افسوس کہ خان صاحب نے وہی پرانے بھانڈے قلعی کرنے کا کام شروع کر دیا جو ان کی جماعت میں آئے ہی اس لئے کہ اپنے اہداف حاصل کریں عوام کے بھلے اور ملک میں مثبت تبدیلی لانے کے لئے کچھ کرنے سے دور رہیں اور پارٹی کو بھی دور رکھیں، حتی الامکان کوشش کریں کہ نیا خون سامنے لائیں جن کی کوئی سابقہ لاحقہ سیاسی وابستگیاں نہ ہوں، وہ نئے عزم، نئی قوت اور نئے مثبت و مفید پروگرام کے ساتھ آگے بڑھیں جو اپنے قد کاٹھ کو اونچا کرنے کے لئے آج پی ٹی آئی میں آ جائیں اور اگلے دن کسی اور جانب دیکھنا شروع کر دیں، ان کے ہاں بکائو مال اِن ہو چکا ہے اور بک بھی چکاہے اور عمران خان آگاہ بھی ہو چکے ہیں، وہ تطہیر کا عمل شروع کریں ایک نئی جواں سال دیانتدار ٹیم بنائیں انہی کو ٹکٹ دیں بلاشبہ بدقسمتی سے ہمارے ہاں اب سیاست ہرگز سیاست نہیں، فقط ایک راتوں رات امیر بننے کا نفع بخش کاروبار ہے، وہ سمجھدار ہیں ایسے مائنڈ سیٹ کو داخل نہ ہونے دیں، اقبال نے قائد سے کہا تھا یہ جاگیردار وڈیرے طالع آزما اگر آج مسلم لیگ کا ٹکٹ لے کر داخل ہو گئے تو مسلم لیگ سے کبھی باہر نہیں نکالے جا سکیں گے، پی ٹی آئی سے متعلق جو خوش فہمی کبھی تھی وہ اب غلط فہمی بنتی جا رہی ہے غور کریں۔
٭٭٭٭
کمر سیدھی کرنے والی لات
….Oایک خیال اسے رد بھی کیا جا سکتا ہے، اور وہ یہ کہ کہیں ہم غلطی سے صحیح راستے پر تو نہیں چل پڑے؟
….Oیہ جانتے ہوئے کہ سیاست ایک نفع بخش کاروبار بن چکی ہے، پھر بھی سیاست سیاست کرتے پھرتے ہیں کہیں سیاست کو ایک پیشہ تو تسلیم نہیں کر بیٹھے۔
….O ٹاک شوز سے قبلے کا تعین کیسے کیا جا سکتا ہے جبکہ ہر شامل گفتگو نے تہیہ کر رکھا ہوتا ہے کہ اس نے کچھ نہ کچھ کہنا ہے چپ نہیں رہنا۔
….Oہم کسی کے پیچھے لگنے میں ذرا تاخیر نہیں کرتے، اور کسی کو آگے لگانے میں دیر کر دیتے ہیں۔
….Oبچیوں کو زیادتی کے بعد قتل کرنے کے واقعات روزانہ کا معمول بن چکے ہیں۔
اس فتنے کو روکنے اور اس کی جڑ تک پہنچنے کے لئے ہم نے اب تک یہ کچھ کیا کہ ابھی تک زینب کے قاتل کو نشان عبرت نہیں بنایا، اگر فوری سرعام لٹکا دیا جاتا تو مزید زینبیں زیادتی کے بعد قتل نہ ہوتیں۔
….O نبیل گبول:نواز شریف لندن چلے گئے تو انہیں واپس کون لائے گا۔
وہ خود ہی آ جائیں گے۔