منتخب کردہ کالم

سرمایہ دار خاندان اور جمہوریت

سابق صدر مملکت اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے ڈیڑھ برس بعد وطن واپسی پر استقبال کے لیے آنے والے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ سرمایہ دار خاندان کے ظلم کو روکیںاور جمہوریت کو بچائیں گے۔ یہ بیان خاصا معنی خیز ہے۔ محسوس ہو رہا ہے، جس طرح 1972ء میں صنعتوں کو قومیانے کے نام پر جاگیردار سیاستدانوں کے لیے راہ ہموار کی گئی تھی۔ اسی طرح ایک بار پھر سرمایہ داروں کو بھگا کر ان کی جگہ فیوڈل سیاستدانوں کے سیاست و ریاست پر تسلط کو مزید مستحکم کرنے کے خواہاں ہیں۔ اس لیے ان کے بیان کے بین السطور کو سمجھنا ضروری ہے۔

اس میں شک نہیں کہ اشرافیائی طرز حکمرانی (Oligarchy)کا خاتمہ اور عوامی شراکتی (Participatory)جمہوریت کا فروغ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ایک اشرافیائی کلچر کی جگہ اس سے زیادہ فرسودہ اشرافیائی نظام مسلط کرنے کی کوششوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ دراصل وطن عزیز میں جمہوریت کے بارے میں مختلف حلقے مختلف تفہیم کرتے نظر آتے ہیں۔ سندھ میں فیوڈل اشرافیہ کی سیاست پر بالادستی جمہوریت تصور کی جاتی ہے۔ پنجاب میں مراعات یافتہ طبقات اور برادریاں نظم حکمرانی کا تعین کرتی ہیں۔ بلوچستان اور کے پی کے میں قبائلی سرداروں کے اقتدار پر غلبہ کو جمہوریت سمجھاجاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی حکمران اشرافیہ کی نظر میں اختیار کی مرکزیت ہی اقتدار کا اصل محاصل ہے۔ چنانچہ یہ طبقات اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کی راہ میں ہر ممکن طریقہ سے روڑے اٹکاتے ہیں۔ لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جمہوریت اور جمہوری نظم حکمرانی کو آمروں نے جو نقصان پہنچایا، وہ اپنی جگہ خود سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادتوں نے بھی کم نقصان نہیں پہنچایا۔ آج بھی پاکستان اسی اشرافیائی سیاسی کلچر کا اسیر ہے جس نے 70برس سے ریاست کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے اور اس کے ختم ہوئے بغیر عوام تک جمہوریت کے ثمرات پہنچنے کے امکانات نہیں ہیں۔

کارل مارکس نے کہا تھا کہ”ذرایع پیداوار کسی معاشرے سماجی، سیاسی اور فکری رجحانات کا تعین کرتے ہیں”۔ اس میں شک نہیں کہ جمہوریت صنعتی انقلاب کے نتیجے میں جنم لینے والی سیاسی فکر اور نظم حکمرانی ہے جس نے فیوڈل طرزحیات و حکمرانی کا خاتمہ کیا چونکہ بیسویں صدی میں صنعتی انقلاب کے بطن سے ایک نئے مگر خاموش انقلاب نے جنم لیا جو بعد از جدیدیت یعنی Post Modernانقلاب کہلاتا ہے۔ اس نے ذرایع پیداوار کو مزید جدید بناتے ہوئے روایتی سرمایہ دار کی اجارہ داری کو ختم کردیا۔ نتیجتاً کارل مارکس کے تصور کے مطابق سماجی، سیاسی اور فکری رجحانات میں بھی تبدیلی آئی جو شراکتی جمہوریت کی شکل میں ظاہر ہوئی۔ اس لیے یہ سمجھنا کہ جمہوریت محض بورژوا طرز حکمرانی ہے فاش غلطی ہے۔

آج کی دنیا میں حکمرانی کسی فرد واحد کی مطلق حاکمیت کے تابع نہیں ہوتی بلکہ اجتماعی فیصلہ سازی کے ذریعہ کی جاتی ہے۔اسی طرح پارٹی کا ہر رکن فرد واحد کے فیصلوں اور اقدامات کا ترجمان نہیں ہوتا بلکہ اپنی جماعت کے نظریات، سیاسی ایجنڈے اور منشورکا وفادار اور اس کا مبلغ ہوتا ہے۔ پارٹی سربراہ بھی انھی کارکنوں کا منتخب کردہ رہنما ہوتا ہے۔ مگر پاکستان میں یہ سیاسی کلچر ابھی بہت دور کی بات ہے۔

یہاں قائد سے وفاداری ہی جماعت اور نظر یات سے وفاداری تسلیم کی جاتی ہے۔ اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ اول، ایسے تمام معاشرے جو صدیوں تک غلامی کے زیر اثر رہے ہوں، وہاں عوام و خواص کے رویوں میں شخصیت پرستی کا عنصر غالب ہوجاتا ہے۔ ان کے مزاج میں منکسر المزاجی کی جگہ خوشامد، حق گوئی کی جگہ مصلحت کوشی اور بے باکی کی جگہ چاپلوسی گھر کر لیتی ہے۔ طاقتور کے آگے سجدہ ریز ہونا اور کمزور کو آنکھیں دکھانا ایسے معاشروں کا وتیرہ بن جاتا ہے۔

اب جہاں تک پاکستان کا معاملہ ہے، توچھوٹی اور علاقائی جماعتوں کو تو جانے دیجیے، قومی کہلانے والی تینوں جماعتیں یعنی پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف بھی Alterableکے چنگل میں پھنسی ہوئی ہیں۔ جنہوں نے اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر سیاست میں موروثیت اور شخصیت پرستی کے رجحان کو فروغ دیا ہے۔ چنانچہ آصف زرداری جب یہ کہتے ہیں کہ”سرمایہ دار خاندان کے ظلم کوروک کر جمہوریت کو بچائیں گے”، تو ان کا مطمع نظر کسی بھی طور عوامی (یا شراکتی) جمہوریت نہیں ہوتا، بلکہ جاری الیکٹورل سسٹم کے ذریعہ فیوڈل سیاستدانوں کی بالادستی کو مزید مستحکم کرنا ہے۔ مسلم لیگ(ق)، جس کے قائدین کا پیپلزپارٹی سے پشتینی اختلاف ہواکرتا تھا، فیوڈل کلچر اور حکمرانی میں Status quoکو بچانے کے لیے یکجا ہوگئے ہیں۔

ہو سکتا ہے کہ کچھ حلقوں کے نزدیک مسلم لیگ(ن) کو اقتدار سے بے دخل کرنا اولین ترجیح ہو جس کے لیے وہ ہر طریقہ کار کو جائز سمجھتے ہوں۔ مگر عوام کی اکثریت کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ملک کے متوشش شہری اور عوام کی اکثریت اب شخصیات کی تبدیلی میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ بلکہ وہ نظم حکمرانی میں ٹھوس بنیادوں پر بہتری کی خواہشمند ہے۔ جو شراکتی جمہوریت کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔ شراکتی جمہوریت کے فیوض و برکات اسی وقت حاصل ہوسکتے ہیں، جب ریاستی انتظام کے نچلے ترین یونٹ تک حقیقی معنی میں اقتدار و اختیار کی منتقلی ہوسکے اور اقتدار و اختیار میں مناسب فاصلہ پیدا ہوجائے۔اس مقصد کے لیے چند برس کے لیے ملک میں متناسب نمایندگی کا نظام رائج کرنا ضروری ہوگیا ہے۔ جس پر کوئی بھی سیاسی جماعت آمادہ نہیں ہے۔ کیونکہ اس طرح Electablesکی اجارہ داری ختم ہوجانے کے امکان قوی پیدا ہوجاتے ہیں۔

یہی وہ طاقتور عناصر ہیں ، جو انتخابی اصلاحات میں پس و پیش سے کام لیتے ہیں اور اقتدار و اختیار کی نچلی سطح تک منتقلی کی راہ میں روڑے اٹکاتے ہیں جب کہ آصف علی زرداری کے بیان سے بات واضح ہوتی ہے کہ وہ اور ان کی جماعت میں موجود فیوڈل سیاستدان یہ سمجھتے ہیں کہ مسلم لیگ(ن) کے مزید اقتدار میں رہنے سے فیوڈل سیاست گہنا کر ختم ہوسکتی ہے۔ اس لیے وہ پارسا بن کر اس سیٹ اپ کو بھی ختم کرنے کے درپئے ہوگئے ہیں تاکہ سیاست پر ان کی بالادستی کو درپیش ہر قسم کے چیلنجوں کا خاتمہ ہوسکے ۔

آج پاکستان نظم حکمرانی کے جس بحران کا شکار ہے، اس کی جڑیں ماضی کے بعض غلط فیصلوں میں پیوست ہیں۔ 70 برس گزر جانے کے باوجود ملک اشرافیائی سیاست کے چنگل سے نہیں نکل سکا ہے۔ خواہ وہ ابتدائی 11برس کی مسلم لیگی حکومت ہو یا ایوب خان کی آمریت کے 10سال۔ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت ہو، یا جنرل ضیا کی بدترین آمریت کے11برس یا پھر 1988کے بعد بننے والی حکومتیں ہوں۔ پیپلز پارٹی کی موروثی قیادت ہو، یا مسلم لیگ(ن) میں قائدین پر مرتکز شخصی بالادستی۔ یا پھر تحریک انصاف میںکپتان کے فرمان کے گرد گھومتا تنظیمی ڈھانچہ ہو، سیاست جمہوری اقدار سے کوسوں دور ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ میاں نواز شریف کا اقتدار میں رہنا یا نہ رہنا اصل معاملہ نہیں ہے ۔ بلکہ نظم حکمرانی میں ایسی تبدیلیاں ناگزیر ہوچکی ہیں جن کا براہ راست تعلق عام شہری سے بنتا ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب آئین کے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے بعض ایسے فیصلے اور اقدامات کیے جائیں جن کے نتیجے میں اقتدار و اختیار کی نچلی سطح تک منتقلی یقینی بن سکے۔متناسب نمایندگی کے نظام کے ذریعہ Electables کے اسمبلیوں میں پہنچنے اور ہر چند برس بعد پارٹی تبدیل کرنے کے رجحان کی حوصلہ شکنی ممکن ہے۔

یہی سبب ہے کہ جو جماعتیں ساڑھے تین برس میں انتخابی اصلاحات تیار کر کے انھیں پارلیمان سے منظور کرانے میں عدم دلچسپی کا شکار ہوں، ان سے نظم حکمرانی میں بہتری کی توقع وابستہ کرنا عبث ہے۔لہٰذا متذکرہ بالا بیان اس لحاظ سے خطرناک ہے کہ اس کے بین السطور اشرافیائی سیاسی کلچر کو مزید مضبوط بنانے کی خواہش موجود ہے۔