ایک انگریزی اخبار کے تجزیہ نگار ‘سرل المیڈا پاکستان کے واحد صحافی ہیں‘ جو عالمی اخبارات میں‘ تبصروں اور خبروں پر چھائے ہوئے ہیں۔ان کا کارنامہ کیا ہے؟ کم از کم مجھے تو اس کی اہمیت کا علم نہیں۔جس خبر یا پلانٹڈ خبر کے حوالے سے ان کے چرچے ہو رہے ہیں‘ اس میں تو خبر والی کوئی بات‘ مجھے دکھائی نہیںد ے رہی۔وزیراعظم نوازشریف اپنی پہلی وزارت عظمیٰ کے پہلے ہی ہفتوں میں ‘فوج کے ساتھ زور آزمائی شروع کر بیٹھے تھے۔ضیا الحق جب بہاولپور کے صحرا کو پیارے ہوئے تو اس زمانے کے ڈپٹی چیف آف آرمی سٹاف ‘جنرل اسلم بیگ نے فوراً ہی فوج کی کمان سنبھال لی۔ واپس آکر صدر غلام اسحق خان عام انتخابات منعقد کرانے کے ذمہ دار ٹھہرائے گئے۔وہ فوج کے منتخب صدر تھے اور صدر صاحب نے عام انتخابات کرائے تو بڑی سرکار نے حکومت پر جھپٹنے کے لئے ایک متحدہ محاذ بنایا جس کے سربراہ‘ غلام مصطفی جتوئی تھے۔پروگرام کے عین مطابق‘ متحدہ محاذ جیت گیا اور سب کا اندازہ تھا کہ وزیراعظم‘ غلام مصطفی جتوئی کو ہی بنایا جائے گا۔ خود صدر اسحق خان بھی یہی چاہتے تھے۔ مگر سب سے بااثر اور نوازشریف کے حامی‘ جنرل حمید گل تھے۔ سیاسی سمجھ بوجھ وہ اپنے دیگر ہم عصر تمام جنرلوں کے مقابلے میں زیادہ رکھتے تھے۔جتوئی صاحب ‘حکمران کلب کے پسندیدہ وزیراعظم ہونے کے باوجود‘ جنرل حمید گل سے ہار گئے اور میاں نوازشریف ملک کے وزیراعظم بنا دئیے گئے۔ اس اعتبار سے وہ محسنوں میں سرفہرست ہیں جو پہلی لات سے لطف اندوز ہوئے۔ان کے بعد جنرل آصف نواز آئے۔ غالباً انہوں نے آتے ہی لات پر نظر رکھ لی اور مایوس ہونے سے بچ گئے۔جنرل وحید کاکڑا ور صدر غلام اسحق خان‘ دونوں ہی بیک وقت اپنے مشترکہ احسان کے صلے کے امیدوار تھے۔ ان کی امید پوری ہوئی۔دونوں ایک ہی دولتی میں نپٹ گئے ۔ جنرل جہانگیر کرامت‘ پاک فوج کے ان گنے چنے جنرلوں میں ہیں۔جو انتہائی مہذب اور شائستہ تھے۔انہوں نے جیسے ہی اپنے باس کی نظروں سے رال ٹپکتے دیکھی تو دور ہی سے اپنے کیرئیر کی آبرو بچا کر کھسک لئے۔جنرل پرویز مشرف‘ ذرا اکھڑ قسم کے چیف تھے۔اقتدار پر قبضہ کر کے‘ کافی عرصے تک بیٹھے رہے مگر تابکے؟ایسی لات پڑی کہ پاکستان کی طرف رخ کرنے کا نام نہیں لیتے۔جنرل ضیا خوش نصیبوں میں شامل ہیں کہ قدرت نے انہیں لات کا مزہ چکھنے سے پہلے ہی اٹھا لیا۔میں تو محض تماشائی ہوں۔اندازے لگاتا رہتا ہوں کہ اگلی لات کس کے نصیب میں ہے؟ جب لات پڑے گی‘ دیکھیں گے۔ ہو سکتا ہے اگلی لات سے پہلے زندگی مجھے لات مار دے۔
میں حیران ہوں کہ لاتیں کھانے والوں کی فہرست میں ہمارے ایک صحافی ساتھی کہاں سے آ نکلے؟اقتدار کے جوڑ توڑ میں بڑے بڑوں کو ناکوں چنے چبوانے پڑے۔آرام سے ملائم اور مزیدار خبروں اور تجزیوں کا حلوہ کھاتے کھاتے ‘خدا جانے سرل کو کیا سوجھی؟کہ شاہی محل کے پائیں باغ سے درباری جھلکیوں میں جھانکنے چل نکلا۔ خدا کا بندہ جھانکنے پر قناعت کر لیتا لیکن نئی نئی جوانی کب باز آتی ہے؟جھانکتے جھانکتے ایک سرگوشی پر کان گاڑ ہی دئیے اور یہ سن کر اس کے پیٹ میں کھدبد ہونے لگی اور اخبار میں ڈھنڈورا پیٹ دیا کہ کون کس کو نکالنے والا ہے؟ کون کس کو رکھنے والا ہے؟اور کون کس کو یہ کہہ رہا تھا کہ اب کی بار میں زبردستی کی پرواز لے کر باہر جائوں گا؟ پرانے زمانے کی باتیں پرانی ہو گئیں۔جو پہلے باہر گیا تھا۔آج اندر آتا جاتا رہتا ہے اور جو اندر درباریوں کے منہ سے اپنے مخالفین کو دی جانے والی گالیاں سن سن کر‘ مزے لے رہا ہے‘ ایک دو دن کی اڑان کے خیال سے فکر مند ہے اور مخالفین کو گالیاں دینے والے ایک دو ‘استاد گدے خان کو ساتھ لے کر جاتے ہوئے مطمئن ہیں کہ دوران سفر بھی میرے مخالفین کو چٹخارے دار لاہور ی گالیاں سننے کا موقع ملتا رہے گا۔
اچانک نوجوان اخبار نویس نے درباری بول چال عام قارئین تک پہنچانے کی ٹھانی اور پھر ایسی ٹھنی کہ ٹھنتی ہی چلی جا رہی ہے۔اس انگریزی اخبار کورکھ رکھائو والے قارئین پڑھا کرتے تھے ‘ آج دربایوں کی باہمی ان بن کوشہروں شہروں‘ ملکوں ملکوں پہنچا رہے ہیں۔تیسرے درجے کی سازشیں گلی محلوں میں پھیلتے دیکھ کر‘ نازک مزاجوں کا دل اتنا کھٹا ہوا کہ وہ میٹھے پھلوں سے لطف اندوز ہونے کے لئے” آذربھائی جان‘‘ کے شہر کی سیرکے لئے چل دئیے۔”آذر بھائی جان‘‘ کہنے کو تو بادشاہ سلامت ہیں لیکن ان کی بادشاہی چند سپاہیوں تک محدود ہے۔ وہی رات کو پہرے دیتے ہیں۔ وہی آتے جاتے مہمانوں کو گارڈ آف آنر پیش کرتے ہیں۔وہی مہمانوں کے خریدے ہوئے پھلوں اورسبزیوں کی ٹوکریاں اٹھا کر قیام گاہوں تک پہنچاتے ہیں۔ اور ضرورت پڑے تو معزز مہمانوں کی سیوا بھی کر دیتے ہیں۔
اب میں سرل سرل بہتے پانی کے ساتھ ساتھ چلتا ہواسوچ رہا ہوں کہ آخر کیا زمانہ آگیا ہے؟ ایک زمانہ تھا ہمارے سابق وزیراعظم جب اپنے جہاز میں تمام اہل خاندان‘ گھریلو ملازمین اور ان کا گھریلو سامان‘ سب کچھ جہازوں میں لاد کر‘ بیرونی ملک چلے گئے تھے اور پھر خود کہا تھا کہ لوگ نعرے لگا رہے تھے ”قدم بڑھائو نوازشریف‘ ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘۔مگر تھوڑی ہی دور جانے کے بعد ‘کوئی بھی میرے ساتھ نہیں تھا۔اسی ڈھب کا ساتھ دینے والے ”کبھی جاتی امرا جاتے ہیں اور کبھی کھاتی عمرہ کھاتے ہیں‘‘ اب تو کھاتے کھاتے ان کے پیٹ اتنے بڑھ گئے ہیں کہ اکثر اوقات شاہی دستر خوان سے بھرے ہوئے پیٹ کو‘ ہلکا کرنے کے لئے میلوں چہل قدمی کرتے ہیں۔ صرف تین پیس ایسے ہیں جو قصیدے چبانے کے لئے رات رات بھر سٹیجوں پر گزارتے ہیں۔ اگلے دن بستروں پر گہری نیندیں سوتے ہیں۔ ٹی وی چینلز کے سٹوڈیوز میں اونگھتے ہیں۔ اور شب بارہ بجے کے بعد‘ آنکھ کھلتی ہے تو بولنا شروع کر دیتے ہیں۔”عمران خان تم جھوٹے ہو۔عمران خان تم کبھی وزیراعظم نہیں بنو گے۔بن گئے تو ہماری خدمات حاضر ہیں۔میاں نوازشریف‘ چلو چلو عمران کے ساتھ‘‘۔ سرل المیڈاسارے جہانوں میںنوازشریف کے نعرے لگاتے ہوئے ”قدم بڑھائو نوازشریف‘ ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘ کاگلا بیٹھ جائے گا اور ٹانگوں میں کھلیاں پڑ جائیں گی۔مگر ہوتا آخر میں وہی کچھ ہے کہ اپنی اپنی سچائی لکھتے ہوئے‘ سرکاری آرام گاہ میں پہنچ جاتے ہیں۔ بہت پہنچے ‘ پہنچنے کو بہت تیار بیٹھے ہیں۔خاور نعیم ہاشمی نے تو کوڑے بھی کھا لئے۔ حسین نقی نے اپنا انگریزی ہفت روزہ‘ خود ہی اکیلے جیل میں بیٹھ کے پڑھا۔کبھی کبھار کھڑے ہو کر بھی پڑھتے رہے۔ مجھے جنرل ضیا الحق کی جیل میں اطمینان سے بیٹھ اور لیٹ کر پڑھنے کی سہولت ضرور تھی لیکن میری آمد کی خوشی میں‘ سارے فرش کوادھیڑ کر نوکدار کنکروں میں بدل دیا گیا تھا۔کالم میں بات کچھ بنی؟ یا گریڈ 18,19کے سرکاری مقررین کی سرکاری سرگوشیوں کی طرح واپس وہیں جا کر دبک گئیں جہاں سے سرکائی گئی تھیں۔چھڈو جی!یہ بتائو پاوے کھائو گے یا کھّد؟ بلانا تو لوگ ‘صالح ظافر کو بھی چاہتے تھے مگر کسی نے اڑا دی کہ صالح ظافر کا نام تو ای سی ایل پر ڈالا جا رہا ہے اور ان کو پتہ چل گیا