سرگودھا کا ظفر قریشی…رئوف کلاسرا
سابق پولیس افسر اور ایف آئی اے کے اعلیٰ پائے کے تفتیش کار ظفر قریشی کی آواز میں گہری مایوسی تھی ۔
میری ان سے بڑے عرصے بعد فون پر بات ہورہی تھی۔ کچھ برس پہلے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ اپنے آبائی گھر سرگودھا شفٹ ہوگئے ہیں اور آج کل وہاں مقامی سیاست میں دل بہلاتے رہتے ہیں۔
میں آج کل ان چند بڑے سکینڈلز پر کتاب لکھ رہا ہوں جو سابق پولیس افسر ظفرقریشی نے ایف آئی اے میں تعیناتی کے دوران سپریم کورٹ کے حکم پر انویسٹیگیٹ کیے تھے۔ ایک سکینڈل پر پہلے ہی تھرلر کتاب لکھ چکا ہوں”ایک قتل جو نہ ہوسکا‘‘۔ کرائم اور سیاست پر مبنی یہ تھرلر ناول دوست پبلشر اسلام آباد نے چھاپا تھا جس کا اب بھی بیسٹ سیلرز کتب میں شمار ہوتا ہے۔ حقیقی زندگی کے یہ کردار ایک کہانی کی شکل میں ڈھالے گئے تھے۔
یہ سنسنی خیز ناول نما کتاب میں نے تقریباً ایک ہزار صفحات پر مشتمل سرکاری دستاویزات پڑھنے اور ریسرچ کرنے کے بعد لکھی تھی۔ بہت کم لوگوں کو یاد ہوگا کہ ایک اخباری گروپ میں اپنے تئیں ایک سکوپ چھاپا گیا تھا کہ اس وقت کے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ خواجہ شریف کو صدر زرداری، گورنر سلمان تاثیر اور وزیرقانون بابر اعوان نے کرائے کے قاتلوں کے ذریعے قتل کرانے کا پلان بنایا ہے۔
اس خبر پر سپریم کورٹ نے فوری ایکشن لیا تھا اور بہت سارے مظلوم اور بے قصور لوگوں پر پولیس نے تشدد کیا تھا ۔ کئی گھرانے اجڑے تھے اور آخر میں ایف آئی اے کی تحقیقات اور عدالتی کمیشن میں یہ خبر جھوٹ کا پلندہ نکلی تھی۔ اس کیس کی ظفرقریشی نے‘ جو اس وقت ایف آئی اے میں تھے‘ تفتیش کی تھی۔ ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ یہ سب جھوٹ تھا۔ ایک عدالتی کمیشن‘ جس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی شامل تھے‘ بھی اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ سب جھوٹ تھا ۔
کچھ عرصہ پہلے میںنے اخبار میں ظفرقریشی کی ایک تصویر دیکھی تھی جس میں وہ بنی گالہ میں عمران خان سے ملاقات کر کے پی ٹی آئی میں شمولیت کا اعلان کررہے تھے۔ وہ ان لوگوں میں سے ہیں جو ریٹائرمنٹ کے بعد چپ کر کے گھر نہیں بیٹھ جاتے بلکہ معاشرے کی بہتری کے لیے مزید کام کرنا چاہتے ہیں۔
اس سے کچھ عرصہ پہلے ان کا فون آیا تھا ۔ میں نے پوچھا: آج کل کیا کر رہے ہیں؟بتایا: وہ سوچ رہے ہیں کہ سرگودھا سے سیاست میں حصہ لیں ۔ ناانصافیوں کے خلاف ایک آواز بنیں۔ میں نے ان کی حوصلہ افزائی کی اور کہا: ضرور آپ کو بالکل سیاست میں آنا چاہیے۔
خیر پوچھنے لگے کہ کس پارٹی میں جائوں ؟
میں نے کہا ، سر جی،میں اس معاملے میں آپ کی کوئی رہنمائی کرنے سے قاصر ہوں۔ آپ کا ضمیر جس پارٹی میں مانے چلیں جائیں۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا، ویسے ایک بات کہوں آپ جیسے ایماندار، اچھے لوگ کسی کو ہضم نہیں ہوتے۔ کچھ زیادہ عرصہ آپ کسی پارٹی میں چل نہیں سکیں گے۔ بہرحال، آپ مایوس نہ ہوں۔ ہمت کریں۔
پوچھنے لگے: کیا وجہ ہے‘ میں کسی سیاسی جماعت کو ہضم کیوں نہیں ہوں گا؟ میں نے کہا: وجوہات میں بتا دیتا ہوں ۔ پہلی بات یہ ہے آپ نے ایک اچھی صاف ستھری نوکری کی ہے۔ پولیس افسر سے لے کر ایف آئی اے کے ٹاپ تفتیش کار تک۔ سپریم کورٹ روزانہ کسی نہ کسی مقدمے میں آپ کے ذمے کام لگاتی تھی کہ اس کی تفتیش کر کے دیں کیونکہ انہیں آپ پر بھروسہ تھا ۔ ان سکینڈلز میں اکثر سیاستدان اور ان کے بچے ملوث ہوتے تھے۔ پرویز الٰہی دور سے سکینڈلز کی تحقیقات کرنا شروع کیں۔ سونیا ناز کیس میں آپ نے جنرل پرویز مشرف اور پنجاب میں چوہدریوں کو ناراض کیا ۔ اس کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو پھر این آئی سی ایل سکینڈل کی تحقیقات کی‘ جس میں بڑے بڑے سیاسی گھرانوں کے چشم و چراغ شامل تھے۔ وزیراعظم گیلانی تک آپ سے ناراض تھے۔ شہباز شریف بھی آپ سے ناراض تھے۔ چوہدریوں کا برخوردار آپ کی وجہ سے جیل گیا تھا ۔ آپ نے خود سپریم کورٹ میں بیان دیا تھا کہ آپ کو قتل کرنے کی سازش ہورہی ہے۔ آپ نے چار بڑے سکینڈلز پر کام کیا اور ایمانداری سے کام کیا ۔ سیاسی پارٹیوں میں ایسے ایماندار لوگوں کی کہاں جگہ بنتی ہے جو جان ہتھیلی پر رکھ کر اپنی نوکری کرتے ہوں۔ یہ تو خوشامدیوںاور درباریوں کا دور ہے۔ سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کو دیوتا کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ کوئی ٹی وی چینل کھولیں‘ وہاں شام سات بجے سے لے کر رات گیارہ بجے تک ہر شو میں آپ کو ہر پارٹی کا ایک ایک نمائندہ ملے گا جو اپنے لیڈر کی شان میں قصیدہ پڑھنے سے شروع کرے گا اور اسی پر ختم کرے گا۔ آپ دیکھ لیں ایک گھنٹے کے پروگرام میں وہ کتنی دفعہ اپنے پارٹی لیڈر کو آسمان پر بٹھاتا ہے۔ میں نے کہا: یہ کامیابی کا طریقہ ہے۔ آپ ٹھہرے ایک سیدھے سادے انسان جو خدا سے ڈرتا ہے ورنہ وہ اپنے دور میں چوہدریوں اور زرداریوں سے نہ ڈر جاتا؟ آپ جیسا بندہ تو ایک کونے میں چپ کر کے بیٹھ سکتا ہے‘ کھڑے ہوکر پورے دربار میں بادشاہ سلامت کی خوشامد نہیں کرسکتا۔ دوسرے میں نے کہا: آپ جیسے اچھے اور ایماندار لوگ درباریوں اور خوشامدیوں کے ضمیر پر بھی بوجھ کا سبب بنتے ہیں۔ آپ جیسے اچھے لوگوں کو دیکھ کر ان کے اندر کا انسان ان کی مذمت کرنے لگ جاتا ہے لہٰذا ایسے درباریوں کی کوشش ہوتی ہے کہ آپ کو یا تو دربار سے نکلوا دیا جائے یا پھر ایسا ذلیل کیا جائے کہ آپ کے اندر اگر تھوڑی سی بھی عزتِ نفس موجودہے تو آپ خود ہی چھوڑ دیں۔ میں نے کہا: باقی چھوڑیں آپ نے تو سپیکر ایاز صادق‘ جو آپ کے قریبی رشتہ دار بھی ہیں‘ کے سمدھی پولیس افسر افتخار احمد خان کو پولیس فاونڈیشن سکینڈل میں نہیں بخشا تھا جس پر نواز لیگ کے ایم این اے اور پراپرٹی ڈیلر انجم عقیل خان کے ساتھ مل کر ڈاکے مارنے کا الزام تھا ۔ پورا خاندان دشمن ہوگیا تھا اور آپ کا سوشل بائیکاٹ کردیا گیا تھا ۔ اب وہی ایاز صادق آپ کا دشمن ہے۔ آپ کب سیاست یا سیاستدانوں کے درمیان فٹ ہوں گے؟
میں نے کہا: سیاست تو وہ چیز ہے کہ میں نے پیپلز پارٹی کے بڑے بڑے معززین کو لندن میں رحمن ملک کے فلیٹ کے باہر واقع پلاٹ میں گھنٹوں لیٹ کر دروازہ کھلنے کا انتظار کرتے دیکھا ہے کہ کب دروازہ کھلے اور وہ بینظیر بھٹو سے مل سکیں ۔ پاکستان میں عام انسانوں کے لیے دہشت کی علامت یہ بڑے لوگ وہاں رحمن ملک کے فلیٹ کا دروازہ کھلنے کا انتظار کرتے تھے۔
آپ یہ سب کچھ کر سکیں گے؟
مجھے یاد ہے وہ چپ سے ہوگئے تھے۔ چہرے پر کچھ پریشانی ابھر آئی تھی جو ہر شریف اور اچھے انسان پر نظرآتی ہے جب اس کی عزتِ نفس خطرے میں ہو۔
سیاست کبھی اچھے اور بہتر انسانوں کا کام ہوتا تھا۔ کھاتے پیتے لوگ اس لیے سیاست میں آتے تھے اور اپنی زمینیں بیچ کر گزارہ کرتے تھے کہ وہ ان لوگوں کے لیے کچھ کرسکیں جو ان سے پیچھے رہ گئے تھے یا پھر وہ نظریات کے لیے لڑتے تھے۔ اب تو یہ منافقوں اور جھوٹوں کا کاروبار بن کر رہ گیا ہے۔ اب جو جتنا بڑا فراڈیا ہے وہ اتنا ہی بڑا سیاستدان کہلاتا ہے۔
وہ کہنے لگے: مجھے لگتا ہے کہ پی ٹی آ ئی میں میری کچھ جگہ بن سکتی ہے کہ وہاں اب بھی عمران خان بہتر ہیں اور ان کے ہاں میرٹ اور کچھ اچھے لوگوں کی قدر ہے۔
چند دنوں بعد وہ نتھیا گلی میں عمران خان سے مل کر تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر رہے تھے۔ اب کچھ عرصے سے میری ان سے بات ہورہی تھی۔ میں ایک کتاب پر کام کررہا ہوں اور مجھے ان سے کچھ مدد کی ضرورت تھی۔
میں نے پوچھا: سنائیں پی ٹی آئی کیسے جارہی ہے اور الیکشن لڑ رہے ہیں؟
ان کی آواز میں مایوسی تھی۔ بولے سائیں میں تو بڑا خوش خوش گیا تھا لیکن میری پی ٹی آئی میں عزت نہیں کی گئی ۔ نہ تفصیل میں نے پوچھی اور نہ ہی انہوں نے بتائی۔
میں نے پوچھا تو پھر آپ نے سیاست چھوڑ دی؟ بولے نہیں ۔ میرے سرگودھا کے لوگ میری عزت کرتے ہیں۔ الیکشن لڑوں گا ۔ آزاد لڑوں گا ۔
خوشی ہوئی کہ میرا اندازہ درست نکلا تھا ۔ ظفرقریشی نے اپنی انا کا سودا نہیں کیا تھا۔ ایک عزت دار پولیس افسر نے باعزت انداز میں تحریک انصاف سے دوری کر لی تھی۔ چلیں کسی نے تو درباری بن کر الیکشن ٹکٹ لینے کے چکر میں اپنی عزت نفس کا سودا نہیں کیا ۔