سر بلند رہو….نذیر ناجی
کسی گھر سے نوجوان لڑکی زیور اورپیسے لے کر‘ اپنے آشنا کے ساتھ بھاگ نکلے‘ تو نہ لڑکی والوں کے خاندان کی عز ت رہتی ہے اور نہ عاشق زار کی۔اس کام کو دونوں کی برادریوں میں شدید نفرت سے دیکھا جاتا ہے۔ بھارت میں باقاعدہ ووٹوں کی سودے بازی پہلی مر تبہ 2017ء میں ہوئی۔ اس سے قبل سیاسی لین دین بکثرت ہوتا رہا ہے۔ وزارتوں پر” سودے‘‘ ہوتے اور حکومت سازی میں دس بارہ سیٹوں کی کمی پوری کرنے کے لئے‘ کسی چھوٹی پارٹی کے ساتھ وزارتوں کا لین دین کر لیا جاتا۔ ایسی خبر شاذو نادر ہی آیا کرتی‘ جس میں لوک سبھا کا کوئی رکن‘رقم لے کر اپنا ووٹ بیچ دیتا۔بھارت میں بارہا ایسی صورت حال پیدا ہوئی۔ اگر کہیں پانچ سات منتخب برہمن ‘حکومت سازی میں کمی‘ اپنے ووٹوں سے پورے کر دیتے تو پیسے کا لین دین کر کے حکومت بنا لی جاتی اور حکومت کے قدم جمنے کے بعد‘ وہی ممبر وزارت یادیگر عہدوں کے عوض ‘حکمران پارٹی کے ساتھ کولیشن میں آجاتے تو معاملہ پکا ہو جاتا۔ مجھے حیرت ہے کہ 2017ء تک بھارت میں ضمیر فروشی نہیں ہوا کرتی تھی۔ جو کام ہمارے سینیٹ یا قومی اسمبلی میںچند ہفتے پہلے‘ پھر سے شروع ہوا ‘اس میں بھارت والوں نے اتنی دیر کیوں لگائی؟
پاکستان میںیہ” دھندہ‘‘ چوری چھپے ہوا کرتا تھا۔ووٹ بیچ کر کسی بھی ہائوس میں کوئی رکن‘ تازہ ریٹ کے مطابق چار کروڑ کی ”بوہنی‘‘ سے کھاتہ کھولتا تو آگے چل کر نہ صرف ”دھندہ‘‘ سیکھ لیتا بلکہ اپنے ممبری کے پورے عرصے میں اربوں تک پہنچ جاتا۔ اس بارعہد حاضر کا مقبول ترین عوامی لیڈر عمران خان‘ اس کھیل میں کودا تو اس نے پہلے ہی سے اپنے منتخب ممبران کو انتباہ کر دیا کہ آپ اپناووٹ‘ پارٹی پالیسی
کے مطابق دیں اور فروخت مت کریں۔ کیونکہ یہ ایمان اور ضمیر بیچنے کے مترادف ہے۔ ایسے ضمیر فروشوں کو میں اپنی پارٹی میں نہیں رہنے دوں گا۔ماضی میں ووٹ فروشی کو معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا۔اسی روایت کی روشنی میں عمران خان نے اپنے تمام اراکین کو‘ واضح طور پر بتا دیا کہ میں اپنے کسی ساتھی کو‘ ضمیر فروشی کی اجازت نہیں دوںگا۔جس نے ووٹ بیچا‘اس نے عوام سے بھی غداری کی اور اپنی پارٹی سے بھی۔ جس رکن نے بھی دولت کے لالچ میں ضمیر فروشی کی‘ درحقیقت اس نے عوام کے ووٹوں کا مذاق اڑایا اور ایسا میں ہرگز نہیں ہونے دوں گا۔ تحریک انصاف میں کسی بے ضمیر کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔جیسے ہی سینیٹ کے ٹکٹ کھلے‘ عمران خان نے ووٹ دینے کے اہل تمام ساتھیوں کو بتا دیا کہ کسی رکن کو ضمیر فروشی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ماضی میں ہر مرتبہ ”ووٹ منڈی‘‘ لگتی رہی۔ حکومتیں بنتی رہیں۔ کسی کی جیب خالی اور کسی کی بھرتی رہی۔اور پاکستان میں ملاوٹ شدہ جمہوری نظام چلتا رہا۔ہماری قومی سیاست میں ‘عمران خان پہلا لیڈر ثابت ہوا جو صرف زبانی کلامی اصول پرستی کی بات نہیں کر رہا تھا‘ اس نے پہلا موقع آنے پر ہی سختی سے اصول پسندی کا عملی مظاہرہ کر دکھایا۔
تحریک انصاف کے جو رکن روایت کے مطابق‘ووٹ فروشی کر بیٹھے تھے‘ خان صاحب نے ایسے تمام اراکین کو دوٹوک الفاظ میں پیغام دیا کہ وہ اپنے جرم کا اقرار کر کے‘ وصول شدہ رقم واپس کر دیں ۔ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو انہیں بطورپارٹی ممبر‘ خارج کر دیا جائے گا۔جس پر کھلبلی مچ گئی۔ معاوضے دینے والوں کو کوئی شرم نہیں تھی کیونکہ وہ سودے کرتے رہے ہیں لیکن تحریک انصاف کے جو اراکین‘ اس دھندے میں پرانے تھے یا نئے۔ بڑے مخمصے میں پھنس گئے۔انہیں سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اپنے ہی پھیلائے ہوئے جال سے کیسے نکلیں؟ حالانکہ یہ بالکل آسان طریقہ ہے کہ وہ سیدھے‘ اپنے لیڈر عمران خان کے پاس جاتے۔ اظہار ندامت کرتے اور ان سے پوچھتے کہ جو رقم لے چکے ہیں‘ اس کی واپسی کیسے کی جائے؟آگے یہ کام پارٹی لیڈر کا تھا کہ وہ اپنے ساتھی کے دامن پر لگے ہوئے داغ کو‘ کس طرح مٹاتے؟ ووٹ فروش بھی نیندوں سے محروم ہو گئے۔سچی بات ہے ووٹوں کے خریدار بھی الجھن میں پڑگئے۔وہ اپنی خریداری کا اعتراف کریں تو جمہوریت
پسندوں کو‘ منہ کیسے دکھائیں؟اوراگر رقم واپس کرتے ہیں تو بھید کھلتا ہے لیکن اس میں شرمانے والی بات نہیں۔ شرمانے والی بات وہ ہے‘ جس میں ضمیر کا معاوضہ وصول کر لیا جائے۔جب کوئی رکن‘ ضمیر کے عوض وصول شدہ رقم واپس کر کے‘ ووٹ دینے سے انکار کر دے تو یہ قابل فخر فیصلہ ہو گا۔رہ گیا عمران خان کا فیصلہ؟ تو یہ قدم اٹھا کر خان صاحب ‘پاکستان کی گندی سیاست میں اجلے اور پاکیزہ ضمیر کے ساتھ‘ حریفوں کا سامنا کریں گے۔وہ سر بلند ہوئے اور ان کے حریف نگاہیں اٹھا کر چلنے کے قابل نہیں رہ گئے۔آگے چل کر جیسے جیسے پاکستانی سیاست میں دیانت داری آئے گی‘اسی طرح ہمارے ووٹر اور ان کے منتخب نمائندے‘ سر اٹھا کر چلیں گے۔ خان صاحب کے اس اعلان کا پہلا فائدہ یہ ہوا کہ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما ‘ ندیم افضل چن نے تحریک انصاف کے چیئرمین‘ عمران خان سے ملاقات کی اور تحریک انصاف کے فیصلوں کو سراہا۔ چن صاحب 25 اپریل کو اپنی رہائش گاہ پرعمران خان کا استقبال کریںگے اور اسی موقع پر تحریک انصاف میں باقاعدہ شمولیت اختیار کر کے‘ انصاف پسندی کا ثبوت دیں گے۔پاکستان کی گدلی سیاست میں ایک لیڈر کے صاف ستھرے اقدام کے نتیجے میں‘ قومی سیاست کوصاف ستھرے اور ایماندارانہ راستے پر گامزن کر کے‘ نئی راہوں پر آگے بڑھیں گے۔ خان صاحب اپنے ضمیر کے سامنے سرخرو ہو کر ایک اچھے معاشرے کی تعمیر کا فرض ادا کر رہے ہیں۔یہی وہ سیاست ہے جس میں پاکستان کے محنت کش میلے کپڑوں میں ‘پاکیزہ ضمیرکے ساتھ اورصاف ستھری راہوں پر سربلند ہو کر مستقبل کی طرف ‘ سینہ تان کے چلیں گے۔