سر میں کچھ تو ہے…امر جلیل
آج بھیجے کے بارے میں دو غیر سائنسی انکشاف ہونگے۔ اس لئے Neurologist نیورولوجسٹ یعنی دماغی امراض کے ڈاکٹروں کو قطعی چونکنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے آپ کو بتادیا ہے کہ بھیجے کےبارے میں دونوں انکشاف غیر سائنسی ہیں۔ ویسے بھی کائنات میں اتنا کچھ ہے جو سائنس کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔
آپ بھیجے کامطلب سمجھتے ہیں نا؟ انگریزی میں بھیجے کو Brain کہتے ہیں۔ بھیجے کے لئے اردو میں کچھ اور نام بھی ہیں، جیسے مغز، دماغ وغیرہ۔ قدرت نے بھیجے کو ایک بے انتہا مضبوط خول میں رکھا ہے۔ اوریہ خول ہماری کھوپڑی کہلاتا ہے۔ انسان جب تک زندہ ہوتا ہے تب تک اس کی کھوپڑی اس کا سر کہلاتی ہے۔ سر پر بڑے کام کی چیز ہوتی ہے۔ سر پر بال ہوتےہیں۔ بال بنوانے اور بال منڈوانے کے لئے حجام اور نائی ہوتے ہیں۔ ہم جب پڑھ لکھ جاتے ہیں اور شہر میں رہنے لگتے ہیں تب ہم حجام سے بال بنواتے ہیں۔ جب ہم ضرورت سےزیادہ خوشحال ہوجاتے ہیں تب ہم ہیئر ڈریسر سے بال بنواتے ہیں۔ جب تک ہم گائوں میں رہتے ہیں یا کراچی کو گھیرا ڈالے ہوئے کسی کیچڑ کالونی، کاکروچ کالونی، مچھر کالونی اور مینڈک کالونی میں رہتے ہیں تب تک ہم نائی سے بال کٹواتے ہیں۔ گرمیوں میں اگر سورج سرپر ہو تو ہم نائی سے اپنی ٹنڈ بھی کروالیتےہیں۔ بال بنانے کے علاوہ نائی ہمارے دوسرے نہایت اہم کام بھی کرتاہے،
اجرت پر ، مفت میں نہیں۔ وہ شادی بیاہ کے موقع پر لذیذ پلائو کی دیگیں پکاتا ہے۔ وہ ہمارے نو زائیدہ بچے کا سر مونڈنے کے علاوہ اس کا ختنہ بھی کرتاہے۔ مگرشہر کے نائی یہ کام نہیں کرتے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ شہر میں نائی نہیں ہوتے۔ شہر میں حجام ہوتے ہیں وہ ہیئر ڈریسر کہلاتے ہیں۔ اب انہوں نے پارلر اور سیلون کھول لئے ہیں۔ پارلر اور سیلونوں میں مردوں کو عورتوں کی طرح سنوارتے اور خوبصورت بناتے ہیں۔ ایک طرف دلہن تیار ہورہی ہوتی ہےاور دوسری طرف دولہا میاں۔ وہ اتنا کما لیتے ہیں کہ پاکستان کے وزیراعظم سےزیادہ انکم ٹیکس دیتے ہیں۔ یہ سب باتیں میں نے اس لئے لکھی ہیں تاکہ آپ اندازہ لگاسکیں کہ ہمارے سر پر اُگے ہوئے بالوں سے کتنے لوگوں کی روزی روٹی لگی ہوئی ہے۔
اگر ہمارے سر سے بال غائب ہوجائیں تب بھی کمائی کرنے والے ہمارے ٹکلے سر سے اچھی خاصی دولت کما لیتے ہیں۔ وہ ٹکلےسر پر بال اگانے کا دعویٰ کرتے ہیں، بالوں کی ہماری ٹنڈ پر پیوند کاری کرتےہیں اور ہیئر ٹرانسپلانٹ Hair Transplant کے ڈاکٹر کہلواتے ہیں۔ وہ بنیادی طورپر ماہر نفسیات ہوتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ہرگنجا سمجھتا ہے کہ سر پر بال آجانے سے اس کے حسن کو چار پانچ چاند لگ جائیں گے۔ وہ جہاں سے گزرے گا خوبصورت لڑکیاں لڑکھڑا کر اس کے قدموں میں آگریں گی۔ وہ ملازمت کے لئے جہاں انٹرویو دینے جائے گا وہاں سلیکشن بورڈ کے ممبر اس کے سر پر ٹرانسپلانٹ یعنی اگے ہوئے بالوں سے متاثر ہوکر بغیر انٹرویو کے اسے اعلیٰ عہدے پر لگادیں گے۔ ایسے ہوتے ہیں ہمارے سر پر لگے ہوئے بال! مجھے دشمنوں نے خبر دی ہے کہ کئی ایک پاکستانی پیر اور سیاستدانوں نے بھی سرپر بالوں کی پیوندکاری کروا رکھی ہے۔ دشمنوں نے جن چیدہ چیدہ ہستیوں کے نام بتلائے ہیں ان میں سر فہرست نام میاں نواز شریف ، شہباز شریف اورعمران خان کے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے سر پرگھنے بال دیکھ کر لوگ انہیں ووٹ دیں گے۔ پیر سائیں کا نام میں اس لئے لینا نہیں چاہتا کہ پیر سائیں کے جنونی مرید کسی مزا چکھانے میں میں دیر نہیں لگاتے۔
سرپر اگے ہوئے بالوں کی بات یہاں آکر ختم نہیں ہوتی۔ میں عرض کر چکا ہوں کہ طرح طرح کے لوگوں کی روزی روٹی ہمارے بالوں سے بندھی ہوئی ہے۔ خوب کماتے ہیں اوردنیا بھر میں سیر سپاٹے کرتے پھرتے ہیں۔ وہ ہمارے بالوں کے لئے نت نئے شیمپو بناتے ہیں۔ نہاتے دھوتے کچھ بال قدرتی طور پر گرتےہیں۔ مگر شیمپو بنانے والوں نے زبردست پبلسٹی سے ہمیں چاروں شانے چت کردیا ہے۔ ہم بالوں کو گرنے سے روکنے کے لئے مخصوص قسم کے شیمپو لیتے ہیں۔ خشک بالوں کے لئے منفرد شیمپو ہیں۔ تیل والے بالوں کے لئے الگ قسم کے شیمپو ہیں۔ بالوں کی نشوونما کے لئے خاص قسم کے شیمپو ہیں۔ لہراتے اوربجلیاں گراتے ہوئے بالوں کے لئے نئے قسم کے شیمپو ایجاد ہوچکے ہیں۔ ایسے شیمپو بھی ایجاد ہوچکے ہیں جو آپ کے سر میں پھلنے پھولنے اور رینگنے والی جوئوں سے آپ کو نجات دلواسکتے ہیں۔
صرف آپ کے سر کے بالوں سے لوگوں کی روزی روٹی بندھی ہوئی نہیں ہے۔ آپ کے سر کے ایک حصے کو چہرہ کہتے ہیں۔ اپنے چہرے کودیکھنے میں لوگ عمریں گنوا دیتے ہیں۔ اس چہرے پر ایک عدد منہ ہوتاہے۔ منہ میں دانت ہوتے ہیں جن کی تعداد عام طور پر بتیسں ہوتی ہے۔ قدرت کی مخلوقات میں انسان واحد مخلوق ہے جس کے کھانے کے دانت الگ اور دکھانے کے دانت الگ نہیں ہوتے۔ انسان کے دانتوں کو ایک ایسا کیڑا لگ جاتا ہے جو دانت کھوکھلے کردیتاہے، مگر کسی کو نظر نہیں آتا۔ جولوگ ایک دوسرے کو پسند نہیں کرتے وہ لوگ ایک دوسرے کے دانت کھٹے کرتےہیں۔ دانت کھٹے کرنے کے لئے لیموں کی ضرورت نہیں پڑتی۔ کینسر کے بعد سب سے مہنگا علاج دانتوں کاہوتا ہے۔ کچھ دہائیاں پہلے تک بچے دانتوں کا ڈاکٹر بننا پسند نہیں کرتے تھے۔ مگر اب معاملہ اس کے برعکس ہے۔ اب مہنگے اور اعلیٰ دندان ساز پیداہوچکے ہیں۔ اب آپ سیاستدانوں کی گھسی پٹی باتیں سن کر دانت پیس سکتے ہیں۔ آنے اور جانے والے لیڈروں کی پیشگوئیاں اور دعو ے سن کر آپ ایک کے بجائے ہاتھ کی پانچوں انگلیاں دانتوں میں دباکر کاٹ سکتے ہیں۔
منہ کے اوپر ایک ناک ہوتی ہےجس میں دو نتھنے ہوتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ دو سانسیں ایک ساتھ لے سکتے ہیں۔ آپ ایک وقت میں دو نتھنوں سے ایک سانس لے سکتے ہیں۔ آپ ناک سے کھلواڑ نہیں کرسکتے۔ وہ زمانہ گزر گیا جب ناک میں نکیل ڈالی جاتی تھی، اب آپ ناک سے لکیر نہیں کھینچ سکتے۔ یاد رہے کہ اب ناک موم ہوتے ہیں۔ موم کی ناک سے آپ ناکوں چنے نہیں چبوا سکتے۔
ناک کے اوپر دوآنکھیں ہیں۔ یاد رہے کہ آنکھیں دیکھنے کے لئے ہوتی ہیں۔ آنکھیں دکھانے کے لئے نہیں ہوتیں۔ آپ جب تک بھینگے نہیں ہوتے۔ آپ آنکھیں نہیں پھیر سکتے۔ آنکھوں کے آس پاس دوکان ہوتے ہیں۔ قدرت نے ہمیں دو کان اسلئے دیئے ہیں کہ آپ حاکم وقت کی باتیں ایک کان سے سنیں اور دوسرے کان سے نکال دیں۔ ایک توجہ طلب بات یاد رکھیں۔ آپ کے چہرے پر جو دوکان لگے ہوئے ہیں ان سے سونا نہیں نکل سکتا۔ وہ سلئے کہ آپ مرد ہوں یاعورت آپ کے چہرے پر لگے ہوئے کان مذکر ہیں۔ مذکر کان سے سونا نہیں نکلتا۔ مونث کان سے سونا نکلتا ہے۔ایسے سر میں محفوظ ہے ہمارا بھیجا، بھیجے کے بارے میں دو غیر سائنسی انکشاف میں، آپ کو اگلے منگل کے روز سنائوں گا۔