سعودی عرب اور کینیڈا کے اختلافات (آخری قسط)….نذیر ناجی
” چونکہ کینیڈا کی بہت سی اقدار‘ عالمگیریت کی روشن خیالی سے اخذ کی گئی ہیں‘ اس لئے وہاںکے لوگ‘ اسے کینیڈین اقدار نہیں کہتے‘ بلکہ انسانی اقدار کا نام دیتے ہیں۔ اس سوچ کو پیش نظر رکھا جائے‘ تو واضح ہے کہ ایسی اقدار کو کہیں بھی رائج کیا جا سکتا ہے۔ سعودی عرب میں صورتحال مختلف ہے۔ وہاں فعالیت پسندوں کو ریاست کا دشمن خیال کیا جاتا ہے‘گیرٹ ہوفسٹیڈے کے الفاظ میں ”ولن‘‘۔ اس معاملے میں سعودی عرب کے مشتعل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ فعالیت پسندوں نے براہ راست مملکت کے طاقت‘ اقتدار اور خود مختاری کے نقطہ نظر کو چیلنج کیا تھا۔ فعالیت پسندوں نے سعودی پاور سٹرکچر کے باہر سماجی تبدیلی تلاش کرنے کی کوشش کی تھی۔ علاوہ ازیں وہ گروپوں کے اندر اتفاق رائے تلاش کرنے کی کوشش کرتے رہے تھے‘ لیکن وہ اس آڑ میں‘ اپنے طاقت کے ایجنڈے کو مسلط کر رہے تھے۔ یہ ایک اور سرخ لکیر تھی۔ سعودی عرب میں یہ رواج ہے کہ وہاں فعالیت پسندوں کی گرفتاری ‘اہم قومی اقدار کے پھر سے اجاگر ہونے کا باعث بنتی ہے۔
اب کینیڈا نے سعودی حکومت کے فیصلے کو سر عام تنقید کا نشانہ بنایا‘ تو اس کو اس طرح لیا گیا ‘جیسے وہ (کینیڈا) اپنے اور سعودی عرب کے درمیان‘ ویلیو گیپ کو رد عمل ظاہر کر رہا ہے۔ دراصل دونوں ملکوں نے اپنی اپنی قوموں کی اقدار کا دفاع کرتے ہوئے ‘ایک قوم پرستانہ تاثر پیدا کیا اور ریاض نے بھی غیرملکیوں کو یہ پیغام دیا کہ سعودی عرب کے داخلی معاملات میں مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی۔ (ہوفسٹیڈے کی کلچرل اقدار یہ سمجھنے میں ہماری مدد کر سکتی ہیں کہ خواتین کے حقوق کے حوالے سے سرگرم اتنے زیادہ فعالیت پسندوں کو گرفتار کرنے کی آخر کیا ضرورت پڑ گئی تھی؟ جو خواتین کو ڈرائیونگ کا حق دینے کا مطالبہ کر رہے تھے‘ جبکہ سعودی حکومت انہیں یہ حق دینے کے بارے میں پہلے ہی سے تیاریاں کر رہی تھی‘ لیکن یہ ضروری نہیں کہ اقدار سے ہر عدم اتفاق کسی تنازعہ کا ہی باعث بنے۔ خصوصی طور پر اس وقت جب کلچر کی دوسری جہتیں موافق ہوں۔ مثال کے طور پر 2011ء میں فرانس نے نقاب پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اب نقاب زیادہ تر خواتین سعودی عرب میں کرتی ہیں۔ گویا یہ سعودی عرب کا نشان ہے۔ یہ سعودی کلچر کا اہم ثقافتی حصہ ہے‘ لیکن فرانس کے اس اقدام پر سعودی عرب نے اس کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع نہیں کئے تھے۔ سوال یہ ہے کہ کیوں؟ اگر ہم ہوفسٹیڈے کی تھیوری کا اطلا ق کریں‘ تو اس معاملے کو بھی سمجھا جا سکتا ہے اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ نقاب پر پابندی ‘ ہو سکتی ہے۔ سعودی عرب میں اسے خوش دلی سے قبول کیا گیا ہو گا‘ ایک ایسی چیز یا ایک ایسا اقدام تھا‘ جس کے بارے میں سعودی حکومت سمجھ سکتی تھی کہ فرانس نے کیوں پابندی لگائی ہے؟ کیونکہ دونوں ملک کچھ حوالوں سے ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتے ہیں ‘لیکن دونوں کلیدی قومی اقدار پر ایک دوسرے کے موافق سوچ رکھتے ہیں۔
فرانس کے لئے نقاب ایک ایسے ملک میں نئی ثقافتی تبدیلی تھی‘ جو کسی تبدیلی کو آسانی سے قبول نہیں کرتا؛ چنانچہ فرانس کے لئے یہ جواز بنتا ہے کہ وہ اس تبدیلی کو کم سے کم سطح پر رکھے‘ بلکہ اگر ضرورت پڑے ‘تو اس پر مکمل طور پر پابندی ہی عائد کر دے‘ پھر فرانس نے یہ واضح کر دیا تھا کہ نقاب پر پابندی‘ صرف فرانس کی حدود تک لگائی گئی ہے اور یہ بین الاقوامی سطح پر پابندی لگوانے کی کوئی کال نہیں ہے۔ سعودی شہری بھی اس صورتحال کو بخوبی سمجھ سکتے تھے۔ سعودی عرب بھی اپنی سرحدوں کے اندر غیر ملکی کلچر کو‘ اپنی اقدار و روایات کے مطابق چلا سکتا ہے یا روک سکتا ہے‘ اور انہیں بنیادوں پر جن پر دوسرے ملک ایسا کرتے ہیں: تبدیلی کے لئے پائی جانے والی ناپسندیدگی اور غیر یقینی صورتحال سے بچنا۔ اگر کلیدی اقدار کے حوالے سے سوچ ایک جیسی ہو تو کئے گئے‘ فیصلے بصورتِ دیگر حالات کی نسبت کم متنازعہ ہو جاتے ہیں‘ یعنی ان پر کئے گئے فیصلے مختلف ممالک کے درمیان اختلافات کا باعث نہیں بنتے۔ ہوفسٹیڈے کی کلچرل ڈائیمنشنز تھیوری قوموں یا ملکوں‘ رہنمائوں اور بین الاقوامی تنظیموں کے جیوپولیٹیکل رویوں کو سمجھنے کا ایک اور ذریعہ فراہم کرتی ہے۔ وہ ممالک جن کی قومی روایات یکساں ہوں‘ ان کی ثقافتوں میں سطحی اختلافات‘ ان کے درمیان جھگڑوں کا باعث نہیں بنتے‘ لیکن جب ممالک کے درمیان ثقافتی ڈائمنشنز (جہتیں) مختلف ہوں ‘تو ان کے درمیان کسی قسم کے ثقافتی تصنع پر بھی تصادم ہو سکتا ہے۔ ریاستیں اور ممالک ایسے تصادموں سے بچ سکتے ہیں‘ اگر ایک دوسرے سے یکسر مختلف اقدار والے ممالک‘ جیسے سعودی عرب اور کینیڈا‘ کے خاصے بڑے مشترکہ یا یکساں تزویراتی مفادات ہوں۔ بعض اوقات اقدار پر مفادات غلبہ حاصل کر لیتے ہیں‘ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مختلف ممالک کی حکومتیں اور عوام ایک دوسرے کے ساتھ جتنے زیادہ تعلقات رکھیں اور جتنے زیادہ معاملات کریں گے‘ اقدار کے حوالے سے ایسی دراڑیں اتنے ہی زیادہ جھگڑوں اور فساد کا باعث بنیں گی اور ظاہر ہے کہ اس سے معاشی‘ سیاسی اور سفارتی سمیت کئی طرح کے معاملات متاثر ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ ریاستیں ان معاملات کی غلط تعبیر و تشریح بھی کر سکتی ہیں‘ جن کو حکومتیں ٹھیک ٹھیک اور اچھے طریقے سے سمجھ سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر وہ ممالک جو ہائی پاور ڈسٹینس انڈیکس سکور کے حامل ہیں‘ ان کے بارے میں زیادہ امکان یہ ہے کہ دوسری حکومتوں سے یہ توقع رکھیں کہ وہ متاثرہ پارٹیوں کی پروا کئے بغیر‘ تنظیمی لحاظ سے یکطرفہ طور پر فیصلے کریں۔ لیکن اگر وہ کسی ایسے ملک کے ساتھ کوئی ڈیل کرنے کی کوشش کریں‘ جس کا پاور ڈسٹینس انڈیکس سکور زیادہ نہیں ہے‘ تو موخرالذکر کا فیڈ بیک حاصل کرنے کا عمل سست پڑ جائے گا۔ ترکی اور امریکہ کے تعلقات ایسی ہی نا موافق توقعات کی وجہ سے خرابی کا شکار رہ چکے ہیں: انقرہ کو یہ بات سمجھنے میں خاصی کوشش کرنا پڑی کہ امریکہ کے داخلی نظام کی وجہ سے‘ امریکی انتظامیہ ترکی کو مطلوب فتح اللہ گولن کو ملک بدر کرنے سے قاصر ہے۔
حتمی بات یہ کہ جب کوئی حکومت کسی بڑی طاقت کے ساتھ تعلقات بنانے کی کوشش میں ‘اپنی ہی اقدار کو نظر انداز کرتی ہے تو اس سے ایک خطرناک صورتحال بن سکتی ہے۔ شدید داخلی دبائو بالآخر حکومت کو مجبور کر سکتا ہے کہ وہ اپنی پالیسیاں تبدیل کرے‘ یا نئے انتخابات کا بندوبست کرے ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی انقلاب برپا ہو جائے یا نتیجہ ‘کُو‘ کی صورت میں سامنے آئے۔ اس کی ایک مثال ایران میں آنے والا 1979ء کا انقلاب ہے۔ جب رضا شاہ پہلوی نے اپنی حکومت کو‘ اپنے کلیدی اتحادیوں امریکہ اور برطانیہ کی اقدار کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی ‘تو اس کے رد عمل میں داخلی سطح پر پیدا ہونے والا بحران ‘ایک بڑے انقلاب کا پیش خیمہ بن گیا۔ اقدار کو بین الاقوامی تعلقات میں ایک اضافی رسک فیکٹر سمجھا جاتا ہے۔ یہ ایک طرح سے مستقل طور پر بے یقینی کا عنصر سمجھی جاتی ہیں ‘ حتیٰ کہ ان ممالک کے درمیان بھی‘ جن کے تزویراتی طور پر موافق تعلقات ہوتے ہیں۔ بعض اوقات ان کے درمیان اچانک جھگڑے پیدا ہو جاتے ہیں؛ حالانکہ کوئی خاص وجہ بھی سمجھ یا نظر نہیں آتی۔ ایسا مسئلہ اقدار کے تصادم کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ شدید ترین داخلی دبائو کی وجہ سے‘ کوئی حکومت اپنا کوئی موقف تبدیل کرنے پر مجبور ہو جائے‘ جس پر وہ ایک وقت پر مستقل طور قائم رہی ہو۔ اس سے بھی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اقدار جیو پولیٹیکل فیصلوں میں کیا کردار ادا کر سکتی ہیں؟ اس بارے میں آگہی بڑھا کر ان ممالک کی مدد کی جا سکتی ہے جو ممالک کے مابین تعلقات کو بہتر بنانے کے خواہش مند ہیں۔ ایسی آگہی تنظیموں اور افراد کو یہ اندازہ لگانے میں مدد دے گی کہ کون سی چیزیں بڑے بین الاقوامی فیصلوں کا باعث بن سکتی ہیں ؟اور زیادہ کامیابی کے ساتھ ان پر کیسے ردعمل ظاہر کیا جا سکتا ہے؟‘‘۔