سلسلۂ حادثات…خورشید ندیم
وقت کی صراحی سے قطرہ قطرہ مے حوادث ٹپک رہا ہے۔افسوس کہ کسی جبین پر کوئی قطرہ انفعال نہیں۔
احسن اقبال کو موت چھو کر گزر گئی۔بچانے والا مارنے والے سے طاقت ور نہ ہوتا تو نہیں معلوم کتنا بڑا المیہ جنم لے چکا ہو تا۔عالم کا پروردگار بڑا مہربان ہے‘انسانوں کو موقع دیتا ہے کہ وہ سنبھل جائیں۔افسوس کہ کم ہی ہوتے ہیں جو موقع سے فائدہ اٹھا تے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے‘ جوانسان کا خالق ہے، خود ہی اس مخلوق کے رویے پر تبصرہ کیاہے۔یومِ حساب جب اسے نامۂ اعمال دکھایا جا ئے گا تو وہ ایک اور موقع کی درخواست کرے گا۔یہ کہ ایک بار پھر دنیا میں بھیجا جائے تاکہ وہ فرماں بردار بندہ بن کر دکھائے۔یہ اللہ کی سنت نہیں کہ اجل کے آنے کے بعد کسی کو مہلت دی جائے۔تاہم اس کاکہنا یہ ہے کہ اگر اسے موقع دے دیاجائے تو بھی وہی کچھ کرے گا جو پہلے کرتا رہا۔
انگلیاں گھس گئیں لکھتے لکھتے کہ خدا کے لیے انتہا پسندی کے بیج نہ بوئے جائیں۔مسلم معاشرے میں کسی گستاخ کا کیا گزر؟مسلمان اور توہینِ مذہب؟اللہ اللہ کیجیے!اسلام نام ہی محمدالرسول اللہ ﷺ پر ایمان لاناہے۔استادِگرامی جاوید احمد غامدی صاحب نے کم و بیش پچاس سال اس دین پر غور کیا۔حاصلِ تحقیق کو اپنی معرکہ آرا تصنیف ”میزان ‘‘ میں بیان کیا تو آغازاس جملے سے کیا؛” دین کاتنہا ماخذ اس زمین پراب محمدﷺہی کی ذاتِ والا صفات ہے۔یہ صرف انہی کی ہستی ہے کہ جس سے قیامت تک بنی آدم کو اُن کے پروردگار کی ہدایت میسر آ سکتی ہے اور یہ صرف انہی کا مقام ہے کہ اپنے قول وفعل اور تقریر و تصویب سے وہ جس کو دین قرار دیں،وہی اب رہتی دنیا تک دین قرار پائے…رسول اللہ ﷺ سے یہ دین آپؐ کے صحابہؓ کے اجماع اورقولی و عملی تواتر سے منتقل ہوا۔‘‘قیامت تک تنہا ماخذہونے کا مطلب ختمِ نبوت کے سوا کچھ نہیں۔
جامعیت کے پیشِ نظر ،میں نے یہ جملہ نقل کر دیا ورنہ یہ کوئی منفرد بات نہیں۔یہی اس امت کا اجماعی عقیدہ ہے۔یہ اطلاقات کا فرق ہے جس سے ہماری علمی روایت آگے بڑھی اور اسلامی علوم میں مختلف نقطہ ہائے نظر وجود میں آئے۔اہلِ علم نے اطلاق اورفروعات میں فرق کوہمیشہ قبول کیا ہے۔یہی ہماری روایت ہے اور یہی مسلم سماج کے ارتقاکا سبب ہے۔بعد میں ایسے لوگ آئے جنہوں نے اطلاق کے فرق کواصل اور فرع کا فرق کہا۔
فرع کو جب اصل مان لیا گیاتو انتہا پسندی نے جنم لیا۔اطلاق کو عقیدہ بنا دیا گیا ۔بات فتوے سے شروع ہوئی۔پہلے قلم سے تکفیر کی گئی۔پھر زبانیں بے لگام ہوئیں۔ آتش نوائی اور شعلہ بیانی کو شعاربنا لیاگیا۔بات زبان سے ہاتھ تک پہنچی اور ہاتھوں نے تلوار اور بندوق اٹھالی اور اسے اہلِ اسلام ہی کے خلاف تان لیا ۔
یہ سارا سفر دن کی روشنی میں طے ہوا۔ریاست دیکھتی رہی اور معاشرہ بھی۔لوگ حسبِ توفیق انتہا پسندی کے گھوڑے کو مہمیز دیتے رہے۔دینی حمیت کے نام پر کلمہ گو کا قتل بھی روا ہو گیا اور کسی نے آواز نہ اٹھائی۔اگر آواز اٹھائی تو ہم جیسوں نے،جن سے پہلے سند طلب کی گئی کہ وہ پہلے دین کے باب میں کلام کرنے کی اہلیت ثابت کریں۔اس اہلیت کا ثبوت اہلِ مدرسہ کی سند ہوگی۔سند یافتہ خاموش رہے یا اس انتہا پسندی کا علم تھامے رہے۔نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔
جو سلوک ہم نے مذہب کے ساتھ کیا،وہی سیاست میں بھی روا رکھا۔ ریاستی وغیر ریاستی سیاسی قوتوں اور میڈیا نے مل کر سیاسی انتہا پسندی کو فروغ دیا۔سیاسی مخالفت کو دشمنی میں بدلا۔لوگوں میںہیجان پیدا کیا۔سیاسی جماعتوں نے اپنے سٹیج شیخ رشید جیسوں کے حوالے کر دیئے ،مارویا مرجاؤ جن کا تکیہ کلام تھا۔ختم ِنبوت جیسے سنجیدہ اور حساس مذہبی معاملات کو سیاسی اغراض کے لیے استعمال کیا۔سیاسی مقاصد کے لیے لوگوں کے مذہبی جذبات کا استحصال کیا۔آج شیخ رشید صاحب فر ماتے ہیں کہ میں اس ملک میں خانہ جنگی کے آثار دیکھ رہا ہوں۔آج انہیں سیاسی ضابطۂ اخلاق کی ضرورت بھی محسوس ہو نے لگی ہے۔اب ان کو دکھائی دے رہا ہے کہ شعلے بھڑک اٹھے ہیں اور وقت کی ہوا انہیں کسی طرف لے جا سکتی ہے۔اس طرف بھی جہاں لال حویلی ہے۔اگر وہ خوش ذوق ہوتے تو میں انہیں غالب کا مصرع سناتا:
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
آج شیخ رشید طرز کے راہنما بھی اس واقعے کی مذمت کر رہے ہیں حالانکہ یہ آگ ان ہی کی لگائی ہوئی ہے۔سیاسی لیڈر بھی اسے غلط کہہ رہے ہیں۔میڈیا میں بیٹھے لوگ بھی نوحہ پڑھ رہے ہیں۔کسی کے رویے میں مگر میں کوئی فرق نہیں دیکھ رہا۔محراب ومنبراسی طرح جوشِ خطابت سے لرز رہے ہیں۔سیاسی جماعتیں پہلے کی طرح باہم دست و گریبان ہیں۔ غیر سیاسی قوتیں بھی پوری طرح فعال ہیں۔احسن اقبال پر حملے کو کچھ لوگ ایک پیغام قرار دے رہے ہیں۔آدمی سوچتا ہے:کیا سب کچھ بچشمِ سر دیکھنے کے بعد بھی ہم رجوع پرآمادہ نہیں ہوں گے؟
جو خودنہیں سمجھتے ،انہیں وقت سمجھاتا ہے۔وقت کی تعزیریں بہت سخت ہیں۔تیرہویں صدی میں سقوطِ بغداد کا حادثہ پیش آیا۔اس سے پہلے قدرت نے کئی بار سنبھلے کاموقع دیا۔ہم نے اس تنبیہ کو سننے سے انکار کیا۔پھر وقت نے اپنا فیصلہ سنایا اور ہم پر سزا نافذ ہوگئی۔ہم آج تک یہ سزا بھگت رہے ہیں۔افسوس کہ آج بھی اصلاح کے آثار دکھائی نہیں دیتے۔
آج اگر کوئی اصلاح کر نا چاہے توآغاز کہاں سے ہو؟مشکل سوال ہے۔تاہم ایک امید باقی ہے:صاف شفاف اور بروقت انتخابات۔ شفاف انتخابات کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ عوام کی رائے کے راستے میں حائل نہ ہوا جائے۔سیاسی انجینئرنگ کا سلسلہ بند ہو۔مخصوص افراد کو احتساب کی بھٹی میں نہ ڈالا جا ئے۔کسی جماعت کے لیے انتخابی عمل میں شرکت کو مشکل نہ بنایا جائے۔بندوق صرف اُس ہاتھ میں ہو جو وطن کے دفاع کے لیے سرحدوں پر پہرہ دے رہا ہے یاجسے ریاست چاہے۔انسانی آبادیوں میں بندوق کا کیا کام؟
شفاف انتخابات سے کم از کم اتنا تو ہوگا کہ سیاسی عمل فطری ڈگر پر لوٹ آئے گا۔یہ اصلاحی عمل کادروازہ کھول دے گا۔اس سے جمہوری فضا بحال ہوگی۔مکالمہ ہوگا اوریہ امکان پیدا ہوگا کہ دلیل کی سنی جائے۔سیاسی عمل کے بحال ہونے سے سماجی تبدیلی کا عمل بھی صحیح رخ پر آگے بڑھ سکے گا۔ہماری منزل یہی سماجی تبدیلی ہے جو ظاہر ہے کہ برسوں کا کام ہے۔
احسن اقبال پر حملہ،اللہ کرے اس نوعیت کا آخری واقعہ ہو۔ انتہا پسندی ایک دائرے میں آگے بڑھتی ہے۔یہ ممکن نہیں کہ کوئی اس سے بچ جائے۔یہ جہاں سے شروع ہوتی ہے،لازماً وہاں تک پہنچتی ہے۔جو دیا سلائی دکھاتا ہے،ایک دن اس کا گھر بھی شعلوں کی زد میں ہوتا ہے۔ہم نے جہاد کے نام پر شروع ہونے والی دہشت گردی کو دیکھا۔یہ جہاں سے شروع ہوئی،وہاں تک پہنچی۔جن تنظیموں نے اس کا آغاز کیا،ان کی کوکھ سے نئی تنظیمیں اٹھیں اورانہوں نے پہلی تنظیموں کو کچلنا شروع کردیا۔کون ہے جو اس سے بچ سکاہو؟
آج کہیں محبت کا زم زم نہیں بہہ رہا۔ہر طرف اضطراب ہے۔میں بہتری کے زیادہ امکانات نہیں دیکھ رہا۔نفرتوں کی آب یاری کرتے کرتے،ہم بہت دور نکل آئے۔واپسی کا ایک ہی راستہ دکھائی دیتا ہے اور وہ شفاف اور بروقت انتخابات ہیں۔ن لیگ اگر آزادانہ طور پرانتخابی مہم نہ چلا پائی۔ میڈیا کا سوئے استعمال اگر رک نہ سکا تو مجھے خدشہ ہے کہ اس کے نتائج بہت ہول ناک ہوں گے۔بڑے بحران بڑے دل اور بڑے دماغ کا تقاضا کرتے ہیں۔بحران کے بڑا ہونے میں تو کوئی شبہ نہیں،کیا ہمارے ذہن اور دل بھی اتنے ہی بڑے ہیں؟