منتخب کردہ کالم

سلسلۂ عالیہ اُکسانیہ .. کالم سہیل وڑائچ

سلسلۂ عالیہ اُکسانیہ .. کالم سہیل وڑائچ

واشنگٹن ڈی سی میں وائٹ ہائوس کے ایگزیکٹو آفس میں انتہائی اہم خفیہ میٹنگ کا انعقاد کیا گیا‘ اس جدید ترین میٹنگ ہال کی لمبی میز کے ارد گرد دنیا اور بالخصوص جنوبی ایشیا کے اہم ترین تھنک ٹینکس کے سربراہ‘ پینٹاگون اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ماہرین جمع تھے۔ کمرے کی ایک سائیڈ پر بڑی سکرین لگی تھی‘ آڈیو ویژل پریذنٹیشن کا انتظام موجود تھا۔ میٹنگ خاص طور پر ”سلسلۂ عالیہ اُکسانیہ‘‘ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور اس کے سیاسی‘ مذہبی اور سماجی اثرات پر بلائی گئی تھی۔ میٹنگ کا آغاز نئے ڈائریکٹر سی آئی اے مائیک پومپیو نے کیا۔ ان کا کہنا تھا وہ حال ہی میں سی آئی اے کے انچارج بنے ہیں اور انہیں ”سلسلۂ عالیہ اُکسانیہ‘‘ کی سرگرمیوں نے بہت پریشان کیا ہوا ہے‘ اس کے بارے میں اب تک صرف یہ پتہ چل سکا ہے کہ یہ ایک فکری اور روحانی آرڈر یا سلسلہ ہے جس کا مقصد سیاسی تبدیلی لانا ہے۔ پومپیو ابھی بات کرہی رہے تھے کہ سی آئی اے کے سابق سربراہ جارج ٹیننٹ کے ساتھ بیٹھے ہوئے نوجوان نے ہاتھ کھڑا کیا جس پر جارج ٹیننٹ نے نوجوان کا تعارف کرواتے ہوئے کہاکہ مسٹر میڈمڈل(Mr.Mad Middle) نے حال ہی میں ہارورڈ یونیورسٹی کے کینڈی سکول آف گورنمنٹ سے گولڈمیڈل حاصل کیا ہے۔ میڈمڈل نے کہا کہ سلسلۂ اُکسانیہ کے نام سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید اس کا تعلق OX یعنی بیل سے ہے۔ موہنجوداڑو کے زمانے سے اس خطے کے لوگ ”بیل‘‘ سے کام لیتے رہے ہیں۔ میں نے یہ بھی پڑھا ہے کہ انہیں لوگ طنزیہ طور پر ”ڈھگا‘‘ کا خطاب بھی دیتے ہیں‘ جس سے ان کی مراد ہوتی ہے کہ یہ ذہنی طور پر سمارٹ نہیں۔ میڈمڈل کی گفتگو جاری تھی کہ اچانک سابق چیف جارج ٹیننٹ اور موجودہ چیف سی آئی اے نے زوردار قہقہہ لگایا۔ بروکنگ انسٹی ٹیوشن کے جنوبی ایشیا ایکسپرٹ سٹیفن پی کوہن نے انتہائی ٹھنڈے عالمانہ لہجے میں کہا کہ سلسلہ عالیہ اکسانیہ دراصل ایسے گروہ کا نام ہے جو دوسرے
لوگوں کو اکسا کر‘ بھڑکا کر اور ان کی پیٹھ ٹھونک کر ملک میں اپنے مطلب کی تبدیلی لانا چاہتا ہے۔ یہ لوگ اس مقصد کے لئے چکنی چپڑی باتیں کرتے ہیں مسکہ پالش سے کام لیتے ہوئے اداروں کی عزت‘ ایمانداری اور ان کے اعلیٰ رتبے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ان کو مہمیز دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ نے کچھ نہ کیا تو ملک تباہ ہو جائے گا‘ لوٹ مار اور کرپشن کا دور دورہ ہو جائے گا۔ سٹیفن پی کوہن کو اس خطے کے بارے میں جو تفصیلی معلومات حاصل ہیں اس کی وجہ سے میٹنگ میں موجود ہر ماہر ان کی طرف متوجہ تھا۔ کوہن نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ یہ سلسلہ آج کل ”تضادستان‘‘ میں بہت مقبول ہے‘ اس کے عقیدت مند لاکھوں میں ہیں۔ یہ گروہ پڑھا لکھا ہے مگر فرسٹرئٹڈہے۔ یہ ایک طرف سیاست خان کو بھڑکاتا ہے تو دوسری طرف عسکری خان کو بھی اکساتا ہے‘ یہ سکرینوں پر بیٹھ کر چیختا اور چنگھاڑتا ہے‘ تبدیلی کی بات کرتا ہے‘ یہ لوگ چاہتے ہیں ہر وقت لڑائی‘ جھگڑا اور دنگا فساد چلتا رہے‘ جھوٹی سچی خبروں کو اتنے اعتماد سے پیش کرتے ہیں جیسے انہیں ہیڈکوارٹر سے براہ راست ملی ہوں یا پھر انہیں الہام ہوا ہو۔ حالانکہ بعد میں پتہ چلتا ہے کہ ان میں اکثر خبریں صرف افواہیں ہوتی ہیں۔
میٹنگ میں موجود ریٹائرڈ فورسٹار جنرل سٹینلے میکر سٹل نے کہا کہ لیڈر جتنا بھی عظیم ہو بالآخر انسان ہوتا ہے اور انسان بہرحال خطا کا پتلا ہے۔ میں نے ”رولنگ سٹون‘‘ کو انٹرویو کیا دیا تھا کہ صدر اوباما کو سویلین اتھارٹی کی فکر پڑ گئی اور مجھے فوج سے فارغ کردیا گیا۔ یوں مجھے اپنے دوستوں اور دشمنوں کی اچھی طرح پہچان ہوگئی۔ مجھے اچھی طرح علم ہوگیا ہے کہ منتخب قیادت کے خلاف بھڑکانے والے لوگ میرے دوست نہیں دشمن تھے‘ جان بوجھ کر مجھے جھوٹی سچی داستانیں سنا کر اکساتے تھے۔ جنرل نے کہا کہ ”سلسلۂ اُکسانیہ‘‘ بالکل میرے ان دشمنوں کی طرح ہے جنہوں نے مجھے نقصان پہنچایا اور جب میں نوکری سے فارغ ہوگیا تو مجھے کہنے لگے کہ یہ پنگا لیا کیوں تھا؟ ”سلسلۂ عالیہ اُکسانیہ‘‘ کے بارے میں جنرل میکرسٹل نے بتایا کہ جب وہ افغانستان میں تعینات تھے اس وقت انہوں نے ”سلسلہ عالیہ اُکسانیہ‘ ‘ کے بارے میں معلومات حاصل کی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ شروع شروع میں اس سلسلہ کا نام ”سلسلۂ عالیہ بھڑکاویہ‘‘ تھا مگر بعد میں اسے اس کے نئے مہذب نام ”سلسلۂ عالیہ اُکسانیہ‘‘ سے پکارا جانے لگا ہے۔ انہوں نے اس گروہ کی مجرمانہ بے وفائی کی مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ پہلے یہ اکساتے ہیں‘ وہ کہتے ہیں کہ حکومتوں کو الٹائیں‘ بار بار کہتے ہیں سخت بیانات دیں مگر جب کام خراب ہو جائے تو یہ آپ کا ساتھ چھوڑ کر تنقید کرنا شروع کر دیتے ہیں‘ ٹویٹ کریں یا ایس ایم ایس تو یہ واہ واہ کرتے ہیں‘ اسے قوم کے دل کی آواز کہتے ہیں‘ جب سیاست خان کہتے ہیں کہ قانون کی حکمرانی کا کیا بنے گا‘ تو ریاست کی خاطر ٹویٹ واپس لے لیتے ہیںمگر سلسلۂ اُکسانیہ کہتا ہے کہ ٹویٹ واپس لینا سانحہ مشرقی پاکستان سے کم نہیں، دراصل ان کا کام ہی مشتعل کرنا ہے۔ جنرل میکرسٹل نے کہا کہ یہ سلسلہ ایک نیا فتنہ ہے جس سے استحکام کو خطرہ ہے۔ انہوں نے کہا دراصل یہ وہ لوگ ہیں جو حا لتِ انکار میں رہتے ہیں اور اپنے فلسفہ کو لاگو کرنے کے لئے دوسروں کو استعمال کرتے ہیں۔ جنرل میکرسٹل نے تجویز پیش کی کہ اس بار آرٹیکل 6 کا استعمال سلسلہ اُکسانیہ کے خلاف ہونا چاہیے کیونکہ وہ نہ صرف تضادستان بلکہ دنیا بھر کے امن کے لئے خطرہ بنے ہوا ہے ۔
میٹنگ کے اہم ترین مندوب سابق وزیرخارجہ ہنری کیسنجر تھے۔ 92 سالہ فلاسفر اور عالمی امور کے ماہر سفارتکار نیویارک سے خاص طور پر مدعو تھے۔ انہوں نے بہت آہستہ آواز میں گفتگو شروع کی تو ہر طرف مکمل خاموشی چھا گئی۔ کیسنجر نے کہا کہ مسلم دنیا میں جو اُتھل پتھل چل رہی ہے وہ کسی نہ کسی تبدیلی کی نشاندہی کرتی ہے۔ بادشاہوں کا دور ختم ہوا‘ اب اصلی جمہوریتوں کا دور آئے گا۔ جھریوں بھرا چہرہ جو اپنے طویل تجربے کا عکس تھا‘ اس پر ایک رنگ آیا اور گیا۔ بوڑھے کیسنجر نے کہا کہ ”سلسلۂ عالیہ اُکسانیہ‘‘ کی پوری توجہ اب جے آئی ٹی کی طرف ہے۔ دوسری طرف خاندانِ شریفیہ اس کی جانب داری ثابت کرنے کی کوشش میں ہے۔ یہ دونوں غلط ہیں، ہنری کیسنجر نے بات مکمل کرتے ہوئے کہا ”نوازشریف کے خلاف جے آئی ٹی کا کڑا احتساب دراصل ”تضادستان‘‘ کے تنخواہ دار طبقے کا بزنس کلاس سے انتقام ہے۔تنخواہ دار طبقات یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بڑی ہی محنت سے اینکر‘ جج‘ جرنیل یا افسر بنے ہیں مگر بزنس مین غلط طریقوں سے ہم سے آگے نکل جاتے ہیں‘ اگر وہ بھی تنخواہ دار طبقے کی طرح قانون پر چلے ہوتے توسسلی کا مافیا یا ماریوپزو کا گاڈفادر نہ بن پاتے۔‘‘
ہنری کیسنجر کے بعد کسی اور کا تجزیہ غیرضروری تھا تاہم سی آئی اے کے اور سابق چیف ڈیوڈ پٹریاس نے ایک نیا انکشاف کرکے محفل میں بحث کا رخ موڑ دیا۔ ڈیوڈ پیٹریاس نے بتایا کہ ”سلسلۂ عالیہ اُکسانیہ‘‘ ان کے دور میں سی آئی اے نے تخلیق کیا تھا اور اس کا مقصد عدم استحکام کو جاری رکھنا اور انارکی پھیلانا تھا۔ انہوں نے کہا کہ جب تک سلسلہ عالیہ اُکسانیہ کی سرگرمیاں جاری ہیں‘ ادارے لڑتے رہیں گے تضادستان کی اصل منزل دور ہوتی جائے گی اور ایک دن ایسا آئے گا کہ ہر طرف انارکی پھیل جائے گی۔ پھر نہ افغانستان کے خلاف سٹرٹیجک گہرائی کا نظریہ باقی رہے گا اور نہ بھارت کو ”خونی چرکے‘‘ لگانے کی سوچ بچے گی ۔نہ امتِ مسلمہ کی حفاظت ہو سکے گی‘ نہ معاشی ترقی کا خواب پورا ہوگا اور نہ ہی چین سے اقتصادی شاہراہ کا منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچے گا۔ پیٹریاس نے گفتگو میں وقفہ لیا تو نوجوان مسٹر میڈمڈل نے کہا امریکی دانشور کس قدر دانش مند ہیں کہ انہوں نے ”تضادستان‘‘ میں ژولیدہ فکری‘ مایوسی‘ فرسٹریشن اور ڈپریشن کو فروغ دے دیا ہے۔ ہنری کیسنجر نے کہا کہ فی الحال امریکہ کو اس خطے کے بارے میں پالیسی تبدیل نہیں کرنی چاہئے کیونکہ مسلم دنیا کی اندرونی لڑائیاں اور ”تضادستان‘‘ کے سیاسی اور سماجی تضادات‘ سول اور ملٹری اختلافات بجائے خود اس کی ترقی کو روکے ہوئے ہیں۔ کیسنجر نے کہا کہ وہ ذاتی طورپر چاہتے تھے کہ پاکستان ترقی کرے کیونکہ پاکستان نے چین سے دوستی کروانے میں ان کی مدد کی تھی مگر چونکہ پاکستان کی اشرافیہ کوئی اچھا مشورہ ماننے کو تیار نہیں اور وہ سلسلہ عالیہ اُکسانیہ ہی کے اشارے پر چلنا چاہتی ہے تو پھر اسے اس کے حال پر ہی چھوڑ دیا جائے تو بہتر ہے۔ میٹنگ ختم کرنے کا اعلان ہوا تو سٹیفن کوہن نے کیسنجر سے الوداعی مصافحہ کرتے ہوئے کہا کہ تضادستان کو جس طرح سے سلسلہ عالیہ اُکسانیہ‘ جذبات بھڑکا کر جنگ کی طرف دھکیل رہا ہے اور اندرونی طور پر انارکی پیدا کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ اس سے حالات بہت خراب ہوں گے۔ ہنری کیسنجر نے مسکراتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو ہمیشہ خدا بچاتا ہے اس بار بھی وہی بچائے گا۔
(نوٹ: کالم کے تمام کردار‘ واقعات اور دلائل سب فرضی ہیں)