سماجی خدمت ‘کیا کسی کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچا سکتی ہے؟شوکت خانم ہسپتال کا قیام ‘کیا عمران خان کی سیاسی کامیابی کی بنیاد ہے؟
عمران خان کی سیاسی زندگی میں‘ جس کارنامے کا تذکرہ سب سے بلند آہنگ تھا‘ وہ یہی ہسپتال کا قیام ہے۔کہا گیا کہ جو ایسا شاندار ہسپتال بنا اور چلاسکتا ہے‘وہ ایک اچھی حکومت کیوں نہیں بنا اور چلا سکتا ؟ بعد میں اس مقدمے کو نمل یونیورسٹی سے تقویت پہنچائی گئی۔رائے سازوں میں جو عمران خان کے حامی تھے‘ ان کی سیادت کے حق میں ان کارناموں کوکافی و شافی دلائل کے طور پرباتکرار پیش کرتے رہے۔تحریکِ انصاف کی مہم میں بھی اسے مرکزیت حاصل رہی۔کیا عوام نے اسی مقدمے کو قبول کرتے ہوئے‘ان کا انتخاب کیا؟
پاکستان میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا واقعہ نہیں‘ جب کسی نے سیاسی حمایت کے حصول کے لیے‘ اپنی سماجی خدمات کودلیل بنایا ہو۔جماعت ِاسلامی کو اس حوالے سے تقدم حاصل ہے۔اس میں شبہ نہیں کہ سماجی خدمات کے باب میں جماعت اسلامی کا کوئی ثانی نہیں۔یہ ایک نہ ختم ہو نے والا سلسلہ ہے ‘جو کئی دھائیوں کو محیط ہے۔آج بھی ‘ الخدمت فاؤنڈیشن ‘کے فورم سے سماجی خدمت کاایک ملک گیر نظام وجود میں آ چکا۔بے شمار ہسپتال‘تعلیمی ادارے اوریتیم خانے اس نظام کا حصہ ہیں۔اب تو اس کا دائرہ دوسرے ممالک تک پھیل چکا۔جماعت اسلامی کا یہ بے مثال کام اس کے لیے کسی سیاسی تائید میں نہیں ڈھل سکا۔اگر شوکت خاتم ہسپتال نے عمران خان کو وزیراعظم بنوا دیا‘ تو اس سے کہیں بڑی سماجی خدمت ‘جماعت اسلامی کو اقتدار کے ایوانوں تک کیوں نہ پہنچا سکی؟
اس ضمن میں عبدالستار ایدھی اور حکیم محمد سعید شہید کے نام بھی لیے جا سکتے ہیں۔ایدھی صاحب نے بھی سیاست میں قسمت آزمائی کی۔حکیم صاحب کو بھی سیاست میں لایا گیا۔دونوں کی سماجی خدمات بہت ہیں اور عوام میں احترام بھی بہت۔لوگوںنے ‘مگر ایک سیاسی راہنما کے طورپر انہیں قبول نہیں کیا۔ایدھی صاحب توکوشش کے باوجود کونسلر بھی نہ بن سکے۔جولوگ لاکھوں روپے دینے پر آمادہ رہتے ہیں‘ وہ ایک ووٹ دینے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔مقامی سطح پر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ کئی افراد ایسے ہیں‘ جن کی سماجی خدمات کا عمومی اعتراف پایا جاتا ہے‘ مگر جب وہ ووٹ کا مطالبہ کرتے ہیں تو لوگ زبانِ حال سے انکار کر دیتے ہیں۔
میرے علم میں نہیں کہ محض سماجی خدمت نے کسی کو سیاسی راہنمابنایاہو۔کون ہے ‘جو اس میدان میںسر سید احمد خاں کی مثال پیش کر سکے۔میرا خیال ہے کہ اگر وہ بھی اقتدار کی سیاست کا رخ کرتے ‘تو ان کا انجام بھی ایدھی سے مختلف نہ ہوتا۔سوال یہ ہے کہ جو عمل کسی دوسرے کے لیے سیاسی تائید میں تبدیل نہیں ہو سکا‘وہ عمران خان کے لیے کیسے اقتدار تک پہنچنے کی سیڑھی بن گیا؟یہی وہ سوال ہے‘ جو مجھے یہ بات قبول کرنے سے روکتا ہے کہ عمران خان کی سماجی خدمات نے انہیں اقتدار تک پہنچا یا ہے۔میرے نزدیک اس کے بنیادی اسباب اور ہیں۔
ان اسباب کا تعلق ایک حد تک‘ان سماجی تبدیلیوں سے ہے ‘جو ملکی اور عالمی سطح پر آ رہی ہیں۔دو تبدیلیوں کا ذکر میں نے ایک گزشتہ کالم میں بھی کیا۔یہ خواتین اور نو جوانوں کا متحرک کردار ہے۔ایک اور تبدیلی عالمی سطح پر روایتی سیاست دانوں سے بے زاری ہے۔یہ معلوم ہے کہ دنیا کا کوئی سیاسی نظم عوامی مسائل حل کرنے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکا۔عوامی سطح پر ایک اضطراب یورپ سے امریکہ تک مو جو دہے۔عام آ دمی کے مسائل ہر جگہ حل طلب ہیں۔یونان‘ سپین‘فرانس‘ برطانیہ اور امریکہ تک عوام نے بلند آہنگ ہوکر مو جود نظام سے اظہارِ ناراضی کیا ہے۔
اس ناراضی نے اس تصور کے لیے جگہ پیدا کی ‘جسے ‘پوسٹ ٹرتھ‘ کہتے ہیں۔اس صورتِ حال میں غیر روایتی سیاست دانوں کا ایک طبقہ نمودار ہوا‘ جس نے نجات دہندہ ہو نے کا تاثر دیا۔اس نے مسائل کو ضرورت سے زیادہ سادہ بنا کر پیش کیا اور یہ تاثر دیا کہ جیسے ہی معاملات روایتی سیاست دانوں کے ہاتھ سے نکلیں گے‘ہر طرف بہتری آجائے گی۔اس طبقے نے حالات کی ایک تصویر کھینچی‘ جو حقیقت نما کے طور پر سامنے آئی اور لوگوں نے اسے سچ مان لیا۔ٹرمپ اسی عمل کی ایک مثال ہیں۔
پاکستان کی نئی نسل بھی اسی فضا سے متاثر ہوئی۔اس کے سامنے یہ ‘پوسٹ ٹروتھ‘ رکھا گیا کہ پاکستان کا اصل مسئلہ کرپشن اور اس کا حقیقی ذمہ دار شریف خاندان ہے۔نئی نسل اور نیم پڑھے لکھے طبقے نے اسے قبول کر لیا۔نوازشریف سے منسوب کرپشن کی ہر داستان کو سچ سمجھا گیا۔امریکہ سمیت دنیا بھر میں یہی طبقہ ہے‘ جو ‘پوسٹ ٹروتھ‘ سے متاثر ہوتا ہے کیونکہ وہ ذہنی طور پرمعاملات کو زیادہ گہرائی کیساتھ د یکھنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔نوجوانوں میں جو تحریک پیدا ہوئی ‘وہ اسی کا نتیجہ ہے۔
عمران خان نے جب اپنی سیاست کا آغاز کیا‘ توطویل عرصے تک انہیں کوئی بڑی سیاسی کامیابی نہ مل سکی۔شوکت خانم ہسپتال اس وقت بھی مو جود تھا۔اس خدمت کاا عتراف کرنے کے باوجود ‘عوام نے انہیں اپنا سیاسی رہنما نہیں مانا۔پاکستان کی داخلی سیاست کے اپنے محرکات تھے ‘جن کے تحت سیاسی عمل آگے بڑھ رہا تھا۔ان کی وجہ سے عمران خان مقتدر حلقوں کا انتخاب بن گئے۔ 2011ء میں دونوں عوامل مل گئے اورعمران خان کے بارے میں پہلی بار یہ تاثر قائم ہوا کہ وہ روایتی سیاست کا حصار توڑ سکتے ہیں۔
ٹرمپ کی طرح عمران خان بھی کوئی سیاسی پس منظر نہیں رکھتے۔اس لیے جب انہوں نے روایتی سیاست کو چیلنج کیا ‘تو غیر سیاسی ماضی ان کا اثاثہ ثابت ہوا۔ایک کرکٹر کے طور پر نئی نسل کے ہیروتو وہ تھے ہی۔اسی دور میں ‘تبدیلی کی وہ لہر بھی اٹھی ‘ جس کا میں نے ابھی پوسٹ ٹروتھ کے عنوان سے ذکر کیا ۔کرپشن کے خلاف وہ اپنا مقدمہ ثابت کرنے میں کامیاب رہے اور عوام کی ایک بڑی تعداد نے مان لیا کہ ہمارے مسائل کا سبب کرپشن ہے۔
پوسٹ ٹروتھ میں چونکہ گہرائی کے ساتھ معاملات کو نہیں دیکھا جا تا‘ بلکہ ‘تاثر‘ ہی حقیقت کی جگہ لے لیتا ہے‘اس لیے ملک کے حقیقی مسائل کو عوام نے قابلِ اعتنا نہیں سمجھا‘تاہم یہ بھی المناک حقیقت ہے کہ نئی نسل میں موجود اس تائید کے باجود‘عمران خان ‘سٹیٹس کو‘ کی قوتوں سے بے نیاز نہیں ہو سکے۔’سٹیٹس کو‘کی تمام قوتیں جو 1960ء کی دھائی میں متحرک تھیں‘ ایک بار پھر بروئے کار آئیں۔یوں تبدیلی آئی ‘مگر نہیں آئی۔
میں اس سے یہ اخذ کرتا ہوں کہ یہ روایتی سیاست اور پوسٹ ٹروتھ کا ایک ملغوبہ ہے ‘جو عمران خان کی سیاسی کامیابی میں متشکل ہوا۔’پوسٹ ٹروتھ ‘ اگر ایک فیصلہ کن سیاسی تبدیلی کی بنیادبن جا تی‘ تو انہیں روایتی حربوں کی ضرورت نہ رہتی۔عمران خان اور ٹرمپ میں ایک فرق یہ ہے کہ ٹرمپ پوسٹ ٹروتھ کی پیداوار ہیں اور عمران خان اس سے مستفید ہونے والے۔ابتدا میں توعمران خان تبدیلی کے لیے نکلے تھے۔تدریجاًتبدیلی کی خواہش قتدار کی خواہش میں تبدیل ہوگئی۔ پوسٹ ٹروتھ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ عام طور پر یہ حربہ ایک بار ہی کام آتا ہے۔لوگ تھوڑے عرصے میںاس کے حصار سے نکل آتے ہیں۔ عمران خان کے لیے آزمائش یہ ہے کہ وہ روایتی سیاست دانوں کے ساتھ‘ اس حصار کو کب تک قائم رکھ پائیں گے؟
اس تجزیے کی بنیاد پر میں یہ خیال کرتا ہوں کہ عمران خان کی سیاسی کامیابی میں شوکت خاتم ہسپتال کا کردار اساسی نہیں ہے۔ ہسپتال اور یونیورسٹی نے یقیناکردار ادا کیا ‘مگر اضافی۔ اصل کردار پوسٹ ٹروتھ کا ہے‘ جس نے نوجوانوں اور متوسط طبقے کے ایک حصے کو متحرک کیا اوردوسرا کردار روایتی سیاست کا ہے۔اب چیلنج یہ ہے کہ وہ اس اثاثے کے ساتھ کس حد تک تبدیلی کی بنیادی خواہش کی طرف لوٹ سکیں گے۔