سمندر کے سپاہی….منیر احمد بلوچ
کسی بھی ملک کی بری ، بحری اور فضائی افواج پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ہر حالت اور ہر قیمت پر اپنی سرحدوںکی سالمیت اور خود مختاری کی حفاظت کرے‘ فوج پر اس کے ملک اور قوم کی جانب سے سونپی گئی ذمہ داری تقاضا کرتی ہے کہ خالی نعروں اور چمکتی دمکتی وردیوں سے نہیں بلکہ دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس طرح کھڑی رہے جس کا عملی مظاہرہ گوادر ‘اورمارہ کے وسیع و عریض سمندر کی لہروں پر اپنے وطن کی بحریہ کے ہم سفر رہ کر دیکھ چکا ہوں ۔۔۔ سر کریک میں نیوی کے جانبازوںکو دشمن کی آنکھ میں کانٹے کی طرح چبھتے ہوئے دیکھ کر یقین ہو گیا کہ سمندر کی باگ ان کے ہاتھوں کی زینت بن چکی ہے جس کا تفصیلی ذکر اپنے دوسرے کالم میں کروںگا!!
کوئی شک نہیں کہ آج کی بحری جنگ صرف نعروں سے نہیں بلکہ بہترین افرادی قوت‘ اپنے پاس موجود جدید اسلحہ اور اس کے استعمال کی تکنیک میں مہارت کے ساتھ ساتھ دشمن کا مقابلہ کرنے کیلئے پر جوش مورال سے لڑی جاسکتی ہے۔ کسی بھی ملک کی ریڑھ کی ہڈی اس کے سر سبز میدان ہی نہیں بلکہ جنگ اور امن میں شہ رگ کی حیثیت رکھنے والا وہ سمندر بھی ہوتا ہے جس پراس کی معیشت اور عسکری قوت کا دارو مدار ہوتا ہے اور پاکستان کی بحریہ کو ملک کا نظامِ زندگی بحال کرنے کیلئے ا پنی شہ رگ کی ایک ایک لہر کا ساتھ دینے کیلئے ہمہ وقت سر بکف رہنا پڑتا ہے۔ اگر آپ کی بحریہ مستعد اور فعال نہیں تو دشمن سے آئے روز کی ملنے والی دفاعی مار پیٹ تو ایک طرف بھوک اور قحط کا طوفان سب کچھ برباد کر کے رکھ دے ۔ بدقسمتی سے پاکستان کو اپنے آغاز سے ہی کسی عام نہیں بلکہ بھارت جیسے مکار اور بدترین مسلم دشمن سوچ رکھنے والوں کا سامنا ہے جوپاکستان کو ہڑپ کرنے کیلئے دن رات ایک کئے ہوئے ہے اور اس مشن میں امریکہ، اسرائیل اور برطانیہ جیسے کئی ممالک اس کی مدد کرنے کیلئے ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ میں ہلکان ہوئے جا رہے ہیں ۔
بھارتی نیوی کی موجودہ دیو ہیکل ترتیب کا پس منظر کچھ اس طرح سے ہے کہ سکیورٹی کونسل کی مستقل نشست کا خود کو اہل ثابت کرنے کیلئے بھارت یو این امن مشن کا بہت بڑا حصہ بن رہاہے اور اس کیلئے وہ اپنی بحریہ کو جدید، وسیع اور طاقتور روپ میں پیش کرنا چاہتا ہے یہی وجہ ہے کہ بھارتی قیا دت اپنے ملک کی بحریہ کو دنیا کی پانچویں طاقت ور بحریہ کے طور پر منوانے کے بعد اس سے ایک قدم مزید آگے بڑھنے کی کوششوں میں ہے جس کیلئے امریکہ پر آسیب کی صورت میں چھایا ہوا گوادر بندرگاہ کا خوف بھارت کیلئے امریکی لاٹری بن چکا ہے ۔ کل تک کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ چین کی موجو دگی سے گوادر عالمی سیا ست کا محور بن جائے گا۔ چین کی مدد سے پاکستان کا گوادر اور سی پیک ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں ہیں لیکن اس کے با وجود امریکہ اور بھارت پر انڈین اوشین اور بحیرئہ عرب میں مستقبل میں چین کی پاکستان کے شانہ بشانہ موجو دگی کے امکانات سے گھبراہٹ طاری ہو تی جا رہی ہے اور انڈین اوشین میں بھارتی نیوی کو امریکہ اور اس کے اتحادی اس طرح تیار کر رہے ہیں جیسے بحیرہ عرب، چین کی جنوبی سمندری حدود کی نگرانی ۔۔۔۔اور بحیرہ ہند کا مکمل کنٹرول بھارت کے سپرد کرنا چاہ رہے ہوں ۔امریکہ اور اسرائیل کی مدد کے بعد اگر پاکستان اور بھارت کی بحری طاقت کا موازنہ کیا جائے تو یہ ایک اور چار کا فرق بنتا ہے یعنی بھارت کی نیوی پاکستان سے تعداد اور اسلحہ میں چار گنا زیادہ ہے۔۔۔لیکن بھارتی نیوی کو کیل کانٹے سے لیس کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ جو جذبہ اور مہارت اﷲ نے پاکستان نیوی کے افسروں اور جوانوں میں سمو رکھی ہے اس کا مقابلہ بھارتی نیوی نہیں کر سکتی۔۔۔۔اس حقیقت کو عام فقرہ کی صورت میں نہیں بلکہ اب تک پاکستان کی سمندری حدود میں آئے دن پیش آنے والے واقعات سے حاصل کئے جانے والے تجربوں کا تجزیہ بتاتا ہے ۔
خطے کے دو نوںمتحارب ملکوں کی بحریہ کی ظاہری طاقت کو دیکھتے ہوئے اگر کوئی یہ کہے کہ بھارتی نیوی پاکستان پر اپنی فوجی برتری کی بنا پر غالب آ جائے گی تو یہ خام خیالی ہے کیونکہ اس فلسفے یا معیار کو اگر تسلیم کر لیا جائے تو پھر۔۔۔۔پرشین کو یونانیوںپر فتح کیوں نہ مل سکی ۔۔۔پرشین سکندر اعظم کو شکست کیوں نہ دے سکے؟۔ رومن Hannibal,پر فتح کیوں نہ حاصل کر سکے؟۔Gauls جولیس سیزر کو آسانی سے اپنے قدموں میں کیوں نہ گرا سکے؟۔چینیوں کیلئے منگولوں کو مار بھگانا ممکن کیوں نہ ہوسکا؟۔ کیا اس سے یہ تاثر اپنی اہمیت نہیں کھو دیتا کہ تعداد کبھی بھی استعداد پر غالب نہیں آ سکتی قبضہ کبھی بھی جذبے کو شکست نہیں دے سکتا۔اس کیلئے کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں بر صغیر میں انڈیا اور پاکستان کی صورت میں دو ممالک کرہ زمین پر ایسے ہیں کہ مجموعی طور پر پاکستان اور بھارت کا مقابلہ ایک سات کا ہے لیکن اس کے با وجود پاکستان اپنی سالمیت اور خود مختاری کو نہ صرف قائم رکھے ہوئے ہے بلکہ اس کیلئے جہاں پاکستانی عوام کی اپنی فوج اور بحریہ سے محبت کو بڑا دخل ہے وہیں بحریہ کا وہ جذبہ جہاد ہے جسے میں اپنی آنکھوں سے تربت، گوادر، اورمارہ، سجاول، شاہ بندر اور سر کریک میں دیکھ کر آ رہا ہوں اور کوئی شک نہیں وہی جذبہ جہاد ہماری نیوی کے ہر جوان اور افسر کی صورت میں طوفانی لہروں کے سامنے سینہ سپر رہتا ہے۔
دونوں ممالک کی بحری قوت کے بارے میں حاصل معلومات کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان اور بھارتی نیوی کی آئینے میں نظر آنے والی تصویر کے خدو خال دیکھنے کے بعد فیصلہ کیا جائے کہ ان دونوں کی نیوی میں ٹکرائو کی صورت میں کون سا ملک فاتح ہو سکتا ہے تو اس کیلئے افرادی قوت، تیل کے ذخائر اور سیٹیلائٹ میں مہارت تین بنیادی پوائنٹس سامنے رکھے جاتے ہیں اور مجھے امید ہے کہ ہماری بحریہ کے کمانڈرز ان تین بنیا دی پوائنٹس کو ہمہ وقت اپنے سامنے رکھتے ہوں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت اس وقت امریکہ، برطانیہ، روس اور چین کے بعد دنیا کی پانچویں بڑی بحری قوت بن چکا ہے۔بھارتی نیوی کے پاس ایک نیوکلیئر سب میرین سمندر میں موجزن ہے اوراطلاع کے مطا بق دو مزید تیاری کی حالت میں ہیں جبکہ6 ایٹمی سب میرینز تیار کرنے کی پلاننگ کی جا رہی ہے۔بھارتی نیوی کے پاس 13 کنونشنل سب میرینز پہلے سے موجود ہیں جبکہ6 کی تیاری آخری مراحل میں ہے اور چھ مزید تیارکرنے کا پیپر ورک مکمل کیاجا رہا ہے۔انڈین نیوی کے پاس2 طیارہ بردار جہاز45000T-30000Tاس کے علا وہ40000T تیاری کے مراحل میں ہے جبکہ65000T تیار کرنے کی منظوری مل چکی ہے۔بھارتی نیوی کے پاس10-destroyersموجود ہیں اور تین مزید تیار کئے جا رہے ہیں۔۔15 فریگیٹ کے علا وہ مزید سات کی تیاری تیزی سے جاری ہے۔
بھارت اور چین کی آپس میں کسی بھی جگہ پر سمندری حدود نہیں ملتی ان دونوں ممالک کا ٹکرائو بھارت کی مغربی نیول کمانڈ سے ہی ہو گا جبکہ اس کے بر عکس بھارت اور پاکستان کی نیول فورسز جگہ جگہ ایک دوسرے کے سامنے کھڑی نظر آتی ہیں۔۔۔پاک بحریہ کو ایک طرف جہاں سب سے بڑے دشمن کو اس کی حدود تک محدود رکھنا ہے وہیں پر دہشت گردی کے طوفان کا مقابلہ بھی کرنا پڑ رہا ہے اس وقت بلوچستان میں عالمی طاقتوں اور ان کے زیر کفالت دہشت گرد وں کے خطرناک نیٹ ورک کا پاکستان کو سامنا ہے جن کے عزائم کو ناکام بنانے کیلئے پاکستان کی مختصر لیکن متحرک بحریہ دیوار بن کر کھڑی دکھائی دیتی ہے!!