منتخب کردہ کالم

سندھ طاس معاہدہ اور نریندر مودی

اسلام آباد نے ورلڈ بینک سے کہا ہے کہ 1960ء میں بھارت اور پاکستان کے درمیان کرائے جانے والے سندھ طاس معاہدے پر اس کی روح کے مطابق عمل کرایا جائے۔

واضح رہے اس سے قبل بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ بھارت دریاؤں کے سمندر میں جانے والے پانی کو استعمال کرنے کیلیے آزاد ہے۔ حالانکہ یہ درست نہیں ہے۔ کیونکہ معاہدے کے مطابق بھارت دریائے سندھ کا 20 فیصد سے زائد پانی نہیں استعمال کر سکتا۔

کہا جاتا ہے کہ ورلڈ بینک نے نئی دہلی اور اسلام آباد کو اس معاہدے پر قائل کرنے کے لیے کئی برس تک کام کیا۔ مجھے یاد ہے معاہدے پر دستخطوں کے بعد وزیراعظم جواہر لعل نہرو اور پاکستان مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر محمد ایوب خان ایک ہی کار میں بیٹھ کر گئے۔ جس پر میاں افتخار الدین نے کہا تھا اگر اسی جذبے سے وہ کشمیر پر بھی معاہدہ کر سکیں تو یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ لیکن دونوں خاموش رہے۔ میاں افتخار الدین اسی زمانے میں مسلم لیگ کے چوٹی کے لیڈر تھے۔ جنہوں نے سالہا سال تک کانگریس میں رہنے کے بعد مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی تھی۔

سندھ طاس معاہدے کے مطابق بھارت راوی، بیاس اور ستلج سے پانی لے گا جو پاکستان کی سرزمین سے بہتے ہیں۔ درحقیقت سندھ طاس معاہدہ پوری دنیا کے لیے ایک مثال تھا کہ دونوں ملکوں میں جنگ کے باوجود یہ معاہدہ قائم رہا تھا۔ نریندر مودی نے سندھ طاس معاہدے کے بارے میں جو فی البدیہہ ریمارک دیاجس سے پاکستان میں تشویش پیدا ہو گئی جس کے نتیجے میں پاکستان ورلڈ بینک کا دروازہ کھٹکھٹانے پر مجبور ہو گیا تاکہ اسے معاہدے پر عملدرآمد کرانے کا احساس دلایا جا سکے۔

پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ورلڈ بینک کے صدر چن ینگ کم کے نام ایک خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سندھ طاس معاہدے میں ایسی کوئی شق شامل نہیں ہے جس کے تحت کوئی فریق یکطرفہ طور پر اس میں کوئی تبدیلی کر سکے۔

جہاں تک میرا ذاتی خیال ہے پاکستان کا اس حوالے سے ڈر اور خوف یقیناً مبالغہ آمیز ہے ۔ میں نہیں سمجھتا کہ پاکستان اس معاہدے میں کوئی تبدیلی چاہتا ہے جب کہ ورلڈ بینک نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ ورلڈ بینک پاکستان اور بھارت میں سندھ طاس معاہدے کو محفوظ اور قائم رکھنا چاہتا ہے۔ لہٰذا بھارت کو یکطرفہ طور پر کوئی ایسا اقدام نہیں کرنا چاہیے جس کا اس معاہدے پر کوئی منفی اثر پڑے۔ البتہ دونوں ملکوں کو باہم مل بیٹھ کر اس معاہدے میں مزید بہتری پیدا کرنے کیلیے صلاح و مشورہ ضرور کرنا چاہیے کیونکہ موجودہ معاہدہ کافی پرانا ہو چکا ہے۔

معاہدے کی تشکیل کے وقت بھارت کا خیال تھا کہ اس معاہدے کی رو سے حاصل ہونے والے پانی کو بھارت راجستھان کے صحرائی علاقے کو سیراب کرنے کیلیے اگر استعمال نہ بھی کر سکا تو یہ پانی باقی ملک کیلیے استعمال ہو سکے گا۔ لیکن یہ مفروضہ غلط ثابت ہوا اور ریاست راجستھان نے نہ صرف یہ کہ اپنے حصے کا پورا پانی استعمال کیا بلکہ اس کا تقاضا ہے کہ اسے مزید پانی دیا جائے۔ جب وزیراعظم مودی پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے تھے تو انھوں نے اپنے پاکستانی ہم منصب میاں نواز شریف کو گزشتہ ہفتے ان کی سالگرہ پر مبارکباد کا پیغام بھیجا جس سے باور کیا جا سکتا ہے کہ مودی ایسا کوئی اقدام نہیں کریں گے جو پاکستان کیلیے نقصان دہ ہو۔ پٹھانکوٹ اور اُڑی جیسے واقعات بھی ہوئے جن میں بہت سی ہلاکتیں بھی ہوئیں حالانکہ خطے میں امن و امان کا قیام دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔

کشمیر ایک ایسا مسئلہ ہے جس نے دونوں ملکوں میں خلیج پیدا کر رکھی ہے۔ دونوں ملکوں کے نمائندوں کو مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر یہ مسئلہ حل کر لینا چاہیے۔ نواز شریف نے اس مسئلے کو اجاگر کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اس مسئلہ کے حل ہونے تک خطے میں قیام امن ممکن نہیں ہے۔

پاکستان کے وزیراعظم کی طرف سے اس بیان نے کشمیر میں سیاحوں کی آمد کو روک دیا ہے حالانکہ یہ سیاحوں کی آمد کا سیزن ہے جب کہ اور تو اور سید علی گیلانی اور حریت کانفرنس کے لیڈر یاسین ملک دونوں نے امن ریلی میں شرکت کی ہے جس کا مقصد سیاحوں کی وادی میں آمد کی ترغیب دینا تھا۔ وہ دونوں چاہتے تھے کہ ان کا پیغام نئی دہلی حکومت تک بھی پہنچ جائے تا کہ حکومت بھی سیاحوں کے کشمیر واپس لوٹنے کیلیے اقدامات کرے۔

وادی کے علیحدگی پسندوں کو اس بات کا احساس نہیں ہے کہ سیاح جہاں ملک کے دوسرے علاقوں کا رخ کر رہے ہیں وہیں ان کو مقبوضہ وادی میں بھی آنا چاہیے کیونکہ سیاحوں کیلیے ملک کا کوئی اور علاقہ اتنا خوبصورت نہیں جتنا کہ وادیٔ کشمیر ہے۔ لہٰذا یہ بات ناگزیر ہے کہ وادی میں جس قدر جلد ممکن ہو سکے امن کا دور دورہ ہونا چاہیے۔ یہ کشمیریوں کے عین مفاد میں ہے کہ اسٹیٹس کو خراب نہ کیا جائے۔ یہ اسی صورت ممکن ہے جب تینوں فریق یعنی بھارت، پاکستان اور کشمیری مذاکرات پر آمادہ نہ ہوں۔ لیکن لگتا ہے کہ نئی دہلی اس کیلیے تیار نہیں ہے جو اسلام آباد کو موردالزام ٹھہراتا ہے اور پاکستان پر الزام عائد کرتا ہے کہ وہاں سے درانداز وادی میں آتے ہیں۔

جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں کشمیر کے بارے میں کسی سمجھوتے کی امید پیدا ہو گئی تھی جب وہ آگرہ پہنچے اور اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ معاہدے پر دستخط کرنے کے قریب تھے کہ یہ خبر افشاء ہو گئی اور بھارتی وزیر اطلاعات سشما سوراج نے معاہدے کے ڈرافٹ میں تبدیلی پیدا کرتے ہوئے اس کے اقتباس میں سے کشمیر کا لفظ ہی نکال دیا۔ اس وقت کے بعد سے دونوں ملکوں میں فاصلہ بڑھتا چلا گیا اور اس دوری میں کارگل کی مہم جوئی نے بھی اپنا کردار ادا کیا۔ اس بات کا سہرا البتہ واجپائی کے سر بندھتا ہے جنہوں نے بس کے ذریعے لاہور کا سفر کیا۔

میں بس میں عین واجپائی کے پیچھے بیٹھا تھا۔ جب انھوں نے نئی دہلی سے موصول ہونے والی ایک ٹیلی گرام مجھے دکھائی جس میں کہا گیا تھا کہ جموں کے نزدیک بہت سے ہندوؤں کو قتل کر دیا گیا ہے۔ واجپائی نے کہا کہ انھیں اس بات کا علم نہیں کہ ان کے لاہور جانے پر بھارت کے اندر کیا ردعمل ہو گا تاہم انھوں نے نواز شریف کے ساتھ اس ٹوٹے ہوئے سلسلے کو ازسرنو جوڑنے کا پختہ ارادہ کر لیا ہے۔

جہاں تک سندھ طاس معاہدے کا تعلق ہے تو اس کو ایک نئے معاہدے سے بدلا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے پاکستان کی رضا مندی لازمی لی جانی چاہیے۔ جہاں تک دریاؤں کے پانی کے آبپاشی یا بجلی کی پیداوار کے استعمال کے بغیر سمندر میں گرنے کا تعلق ہے تو پاکستان سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ ان دریاؤں سے بجلی حاصل کرنے کیلیے رضا مند ہو جائے گا۔

پاکستان میں یہ رجحان ہے کہ وہ ہر بات کو کشمیر کے مسئلے سے جوڑ دیتا ہے جس کی وجہ سے یہ مسئلہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ لہٰذا اس کے حل کیلیے بھی اب اتنا ہی طویل عرصہ درکار ہو گا جتنا اس کو پیچیدہ تر بنانے میں لگا۔ اب سندھ طاس معاہدے پر نظرثانی کرتے ہوئے اس میں ایسی تبدیلیاں پیدا کرنی چاہئیں جس سے دونوں ملکوں کو مکمل اطمینان ہو سکے اور یہ معاہدہ علاقے میں امن کے فروغ کیلیے کارآمد ثابت ہو۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)