منتخب کردہ کالم

سندھ میں بھی! آغا مسعود حسین (نئی دنیا)

یہ خوش آئند بات ہے کہ پنجاب کی حکومت نے پورے پنجاب میں دہشت گردی کے خلاف منظم و مربوط کارروائی کرنے کے لئے رینجرز کی خدمات حاصل کرلی ہیں۔ یہ اقدام عوام و خواص دونوں کی جانب سے مسلسل درخواست کے بعد کیاگیا ہے؛ تاہم دیر آید درست آید کے مصداق اس خطے کے طول و عرض میں نہ صرف دہشت گردوں کا صفایا ممکن ہوسکے گا بلکہ ان کے سہولت کاروں کی حوصلہ شکنی بھی ہوگی، جو مالی فوائد حاصل کرکے ملک کی سالمیت سے کھیل رہے تھے۔ ویسے بھی ماضی میں پنجاب کی حکومت نے دہشت گردی کے خاتمے اور اس کے انسداد کے لئے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایاتھا، بلکہ لعیت و لعل سے کام لیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ دہشت گردوں کو اور ان کے سہولت کاروں کو مذموم کارروائیاں جاری رکھنے کا پورا پورا موقع ملتا رہا۔ یہی عناصر بعض مذہبی تنظیموں کے ساتھ مل کر پنجاب کے علاوہ دیگر صوبوں میں بھی فرقہ واریت پھیلارہے ہیں تاکہ قوم مسلکی بنیادوں پر تقسیم ہوکر کمزور سے کمزور تر ہوجائے۔حکمرانوں کے دست راست پہلے تو یہ ماننے کے لئے تیار نہیں تھے کہ پنجاب رفتہ رفتہ دہشت گردوں کا مرکز بنتا جا رہا ہے، اس لئے وہ اس بڑے صوبے میں رینجرز کی خدمات حاصل کرنے یا بلا امتیاز سماج دشمن عناصر کے خلاف کارروائیاں کرنے کی مزاحمت کررہے تھے ۔ گزشتہ دنوں جس تواتر کے ساتھ پاکستان کے مختلف صوبوں میں دہشت گردوں کی جانب سے حملے ہوئے ہیں، انہوں نے پنجاب کی حکومت کی آنکھیں کھول دی ہیں اور انہیں یہ احساس ہوگیا ہے کہ اب اس سلسلے میں فیصلہ کرنا ہی ہوگا، ورنہ پانی سرسے اونچا ہوجائے گا۔ چنانچہ اب پنجاب میں دہشت گردوں کے خلاف Across the board کارروائیاں ممکن ہوسکیں گی۔
اس کے علاوہ ایسی جگہوں کو بھی چیک کرنا چاہیے جہاں فرقہ واریت کی ”تعلیم‘‘ دی جا رہی ہے۔ نیشنل ایکشن پلان میں جن اصلاحات کا عہد کیا گیا ہے، ان کو بھی پورا کرنا چاہیے۔ بعض جگہ ایسی کتابیں چھپ کر تقسیم کی جاتی ہیں جن میں فرقہ واریت کا عنصر صاف نظر آتا ہے، ایسی کتابوں کے تقسیم کاروں کے خلاف بھی سخت تادیبی کارروائیاں کرنی چاہئیں۔ ان کتابوں کے ذریعہ کچے اور معصوم ذہنوں میں اسلام سے متعلق غلط اشارے ملتے ہیں جو اسلامی اقدار کو بعد میں نقصان پہنچانے کا باعث بنتے ہیں۔
پنجاب میں رینجرز کی کارروائیوں سے یقیناً حالات میں سدھار پیدا ہوگا جیسا کہ کراچی میں ہوا ہے۔ رینجرز بلا امتیاز قانون پر عمل درآمد کرانے کی علامت بن چکے ہیں۔ پولیس بھی ان کی شانہ بہ شانہ ان کی مدد کر رہی ہے، بلکہ پولیس نے دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں کرتے ہوئے بہت سی کامیابی حاصل کی ہیں اور اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیاہے اور اب بھی کر رہے ہیں۔ دراصل ہمارے سیاسی کلچر نے بھی قانون کی اہمیت اور اس کی افادیت کوبری طرح پامال کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ سماج دشمن عناصر بڑی ڈھٹائی سے قانون توڑنے میں کسی قسم کا خوف محسوس نہیں کرتے تھے، لیکن شاید اب ایسا نہیں ہوسکے گا، کیونکہ اب سماج دشمن عناصر کا صفایا کرنا پاکستان کی سالمیت سے مشروط ہو چکا ہے۔ آئندہ نسلوں کی آزادی اور ترقی بھی قانون کی بالادستی سے مربوط ہوچکی ہے۔ اگر قانون پر عمل درآمد ہوگا تو انصاف کے تقاضے بھی پورے ہوسکیں گے۔ پاکستان کی فوج، عوام اور پولیس نے سماج دشمن عناصر اور دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں غیر معمولی کردار ادا کیا ہے اور ملک کو بچانے کے لئے آئندہ بھی ایسا کریں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ سیاست دانوں کو بھی اپنی سوچ میں تبدیلی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
پنجاب کی طرح اندرون سندھ بھی رینجرز کی خدمات حاصل کرنا اشد ضروری بن چکا ہے۔ سندھ کی صوبائی حکومت اس سلسلے میں مزاحمت کر رہی ہے کیونکہ سندھ حکومت کے بعض بد کردار عناصر وطن دشمن عناصر کو بچانے کے لئے اندرون سندھ میں رینجرز کی خدمات حاصل کرنے کے سلسلے میں پس وپیش سے کام لے رہے ہیں؛ حالانکہ اس صوبے میں پنجاب سے زیادہ دہشت گردی کے واقعات ہوچکے ہیں۔ کراچی آپریشن کے بعد بہت سے دہشت گرد اندرون سندھ جاکر پنا ہ گزیں ہوچکے ہیں۔ درگاہوں پر خود کش حملے یہی عناصر کر رہے ہیں، انہیں پاکستان مخالف طاقتوں کی حمایت حاصل ہے، نیز یہ عناصر سندھ کے صوفی مسلک سے تعلق رکھنے والے امن پسند لوگوں کو نشانہ بنانے اور سندھ کی تہذیب کو اپنی ناقص اور منفی سوچ سے نقصان پہنچانے کا باعث بن رہے ہیں۔ گزشتہ جمعرات کو سیہون میں لعل شہباز قلندرؒ کی درگاہ پر جو دہشت گردی کا المناک اور دل سوز واقعہ ہوا وہ انہی عناصر نے کیا ہے۔ اس خودکش حملے میں 90 معصوم افراد شہید ہوچکے ہیں جبکہ 200 سے زائد زخمی ہیں۔ اس سے قبل بلوچستان میں شاہ نورانیؒ کی درگاہ پر خود کش حملہ بھی سندھ کے راستے سے ہوا تھا، جس میں 62 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے اور 100سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ حضرت عبداللہ شاہ غازیؒ کی درگاہ بھی ان ظالموں کی ناپاک حرکتوں سے نہیں بچ سکی تھی، لیکن اس کے باوجود سندھ کی حکومت سوتی رہی اور اب تک سو رہی ہے، اس لئے فوری طور پر سندھ اپیکس کمیٹی کا اجلاس طلب ہونا چاہیے
اور اندرون سندھ سماج دشمن اور دہشت گردوں کے خلاف فوری کارروائی کرنی چاہیے۔ یہ وقت کی ضرورت ہے۔ سندھ کے سیاست دان زیادہ تر زمیندار طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، اس لئے انہیں عوام کی مشکلات اور پریشانیوں کا احساس و ادراک نہیں ہے اور نہ ہی یہ لوگ دیہی سندھ کے عوام کی سماجی و معاشی حالات بدلنے کا کوئی عزم رکھتے ہیں۔ اندرون سندھ کے سیاست دانوں کا حال یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف جناب خورشید شاہ سے جب ایک صحافی نے یہ پوچھا کہ قلندر کی درگاہ میں شہید ہونے والے بعض افراد کے اعضاء نالے اورکچرے میں پائے گئے ہیں، کیا یہ بے حسی نہیں؟ انہوں نے جواب دیا: ”بم دھماکے کی شدت کی وجہ سے یہ اعضاء باہر جا گرے تھے‘‘۔ حالانکہ اس سیاست دان کو یہ علم ہی نہیں ہے کہ بم کا دھماکہ درگاہ کے اندر ہوا تھا جہاں اطراف میں مضبوط دیواریں بنی ہوئی ہیں، وہاں سے انسانی اعضاء کے باہر اچھل کر جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا؛ چنانچہ اب پنجاب کی طرح اندرون سندھ میں رینجرز کی خدمات حاصل کرنا وقت کی ضرورت بن گیا ہے۔ مزاحمت کرنے والوںکو حالات کی سنگینی سے قائل کرنا چاہیے، اگر اس کے بعد بھی وہ نہ مانیں تو رینجرز کو اندورن سندھ بھیجنے کا فیصلہ کرکے وہاں چھپے ہوئے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کا صفایا کردینا چاہیے۔ یہ وقت کی ضرورت اور تقاضا ہے، پاکستان کو محفوظ بنانے کا یہی ایک راستہ ہے۔