سندھ میں نئے صوبے کیسے بن سکتے ہیں…الیاس شاکر
”ڈھائی کروڑ آبادی کا تو ملک ہوتا ہے ہم نے شہر بنایا ہوا ہے۔ یورپ اور دنیا کے دیگر ممالک میں 50 لاکھ آبادی سے زیادہ کا شہر نہیں ہوتا۔ بڑے بڑے عہدوں پر بیٹھے لوگوں کو شرم نہیں آتی۔ کچھ کرنے کی ہمت اور عزم ہوتا تو اس شہر کا بیڑہ غرق نہیں ہوتا‘‘… یہ ریمارکس سندھ ہائیکورٹ میں زیر سماعت انتہائی اہم ترین مقدمے کے دوران جسٹس عقیل عباسی پر مشتمل سنگل بینچ نے دیئے۔ سندھ کو سات ریاستوں میں تقسیم کرنے کی درخواست کی سماعت کے دوران جسٹس عقیل عباسی کا کہنا تھا کہ ”کراچی کو منی پاکستان کا نام دے کر اس کے ساتھ بد ترین سلوک کیا جا رہا ہے۔ لوگ ایک دوسرے کے گلے کاٹنے کو تیار ہیں۔ شہر میں پانی اور بجلی کا حال سب کے سامنے ہے‘‘۔ عدالتِ عالیہ نے صوبائی حکومت، چیف سیکرٹری، کمشنر کراچی اور دیگر فریقوں سے پانچ جولائی تک تفصیلی جواب طلب کر لیا کہ کراچی کو انتظامی طور پر کیسے الگ کیا جا سکتا ہے؟ اور صوبے کی تقسیم یا نئے اضلاع بنانے سے متعلق طریقہ کار اور قانون کے بارے میں بھی عدالت عالیہ کو آگاہ کیا جائے۔
پوری دنیا میں انتظامی یونٹس کی تعداد چالیس سے پچاس اور کہیں اس سے بھی زیادہ ہے‘ لیکن ہمارے ملک میں اتنے اہم موضوع پر بحث مباحثہ کرنے والا کوئی نہیں۔ ہم نے آدھا ملک (مشرقی پاکستان) صرف اس بحث میں گنوا دیا کہ مرکز مضبوط ہونا چاہئے یا عوام اور جب اہلیان مشرقی پاکستان کی بات مانی تو پانی سر سے گزر چکا تھا۔ آگ ہر طرف پھیل چکی تھی اور عوامی لیگ اپنے چھ نکات پر اتنی مقبول ہو گئی تھی کہ پھر بات بنتے نہ بنی۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم پاکستان کے سیاسی نظام میں سے ساٹھ فیصد افراد کو نکال کر ملک میں جمہوریت کو مضبوط بنانے کا خواب دیکھ رہے ہیں؟ عوام اور سیاسی جماعتیں خاندانی بادشاہت کی لوٹ مار سے بچنے کیلئے ایک آئینی اور قانونی حق مانگ رہی ہیں… اور اگر انہیں اس سے روکا گیا تو پھر مسائل بڑھیں گے۔ اب پھر ایک مرحلہ آیا ہے کہ ملک کی یکجہتی کا فیصلہ کرنا ہے یا چند سو خاندانوں کو قصائی بنا کر پورے ملک کو ان کے سامنے بھیڑ بکریاں بنا کر ڈال دینا ہے۔
جب قائد اعظم نے بمبئی سے سندھ کو آزادی دلائی اور بمبئی تقسیم ہوا تو سندھ کی ترقی کا دروازہ کھلا… سندھ ان دنوں ہندوئوں کے قبضے میں تھا… سندھ اسمبلی میں ہندوئوں کی 60 فیصد اور مسلمانوں کی 40 فیصد نمائندگی تھی… اس کے باوجود قائد اعظم نے اتنی زبردست تحریک چلائی کہ ہندو اسے نہ روک سکے اور بمبئی کی تقسیم سے ملنے والا ٹکڑا پاکستان کا حصہ بنا۔ ان دنوں کراچی وفاق کی زیر نگرانی علاقہ تھا۔ اب پنجاب کی طرح سندھ کی آبادی میں بھی اس قدر اضافہ ہو چکا ہے کہ اتنے بڑے ہجوم کو چلانا حکمرانوں کے لئے آسان نہیں رہا… اس لئے سندھ میں بھی شدت کے ساتھ انتظامی یونٹس کے قیام کا مطالبہ شروع ہوا ہے۔
ماضی میں جائیں تو سندھی سیاستدانوں اور دانشوروں نے کتابیں لکھ کر اور اخباری مضامین کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ بمبئی سے سندھ کی علیحدگی کیوں ضروری ہے اور اہلیان سندھ کو اس کا کیا فائد ہ ہوا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جن فوائد کا ان مضامین میں ذکر کیا گیا ہے۔ اب وہی فوائد نقصانات قرار دیئے جا رہے ہیں۔ ”عوامی مفاد‘‘ کو روکا اور جمہوری فوائد سے انحراف کیا جا رہا ہے… کھلم کھلا کہا جا رہا ہے کہ یہ سیٹ اپ ہم برداشت نہیں کریں گے… لیکن ماضی کی طرح اس ”انکار‘‘ میں وہ قوت اور طاقت نظر نہیں آ رہی کیونکہ یہ انتظامی یونٹس پورے ملک میں بن رہے ہیں اور تحریک انصاف نے اپنے منشور میں جنوبی پنجاب صوبہ بھی شامل کر رکھا ہے۔ تحریک انصاف اگر کراچی کو صوبہ بنانے کا مطالبہ اپنے نکات میں شامل کر لے تو کراچی کے ووٹ اس کی جھولی میں بن مانگے گر سکتے ہیں۔ ایم کیو ایم کراچی صوبہ تحریک کے ساتھ کبھی انصاف نہ کر پائی… اور اسے صرف ایک انتخابی نعرہ بنا کر رکھ دیا ہے… جب ضرورت ہوتی ہے صوبے کا نعرہ لگایا جاتا ہے۔ ضرورت ختم اور نعرہ ختم۔ کراچی کی انتظامی تقسیم میں کسی کو کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہئے۔ اگر ایک سندھی اور ایک اردو بولنے والا ایک ہی وقت میں وزیر اعلیٰ ہوں گے تو کسی کو کیا نقصان ہو سکتا ہے… زیادہ کام ہو گا تو سب کی قسمت جاگے گی اور نقصان جمہوریت کے نام پر صرف لوٹ مار کرنے والوں کو ہی پہنچے گا۔
پاکستان میں صوبوں کا مطالبہ جتنا پرانا ہے… اس کو نہ ماننے کا حربہ بھی اتنا ہی پرانا ہے۔ تمام جاگیردار اور اجارہ دار سیاسی گروپ اس بات پر متفق ہیں کہ نئے صوبے کسی صورت نہیں بننے چاہئیں… اس طرح عوام کو طاقتور بننے کا موقع مل جاتا ہے… اقتدار نچلے طبقے تک پہنچ جاتا ہے اور روایتی سیاست دانوں کی گرفت کمزور ہو جاتی ہے… حکومت میں لوگوں کی مداخلت بڑھ جاتی ہے جو ہر لحاظ سے موروثی سیاست کیلئے خطرناک علامت ہے… اس لئے ہر جگہ کا جاگیردار اور وڈیرہ نئے صوبوں کے قیام کا مخالف ہے… وہ ڈرتا ہے کہ اگر صوبہ بن گیا تو ٹیکس کے ذرائع پیدا کرنے کے لئے کارخانے اور صنعتیں لگانا پڑیں گی… جس کے نتیجے میں ہاری ”خاندانی غلام‘‘ نہیں رہے گا… اس کی ڈیوٹی کے اوقات کار طے کرنا ہوں گے، ملازمت 8 گھنٹے ہو گی اور وہ اکیلا کام کرے گا… اس کی بیوی اور بچے ”مفت کے ملازم‘‘ نہیں ہوں گے… بیگار کیمپ ختم ہو جائیں گے… چھٹیاں دینا ہوں گی… میڈیکل کا مطالبہ بھی ماننا پڑے گا… اس طرح تو جاگیردارانہ سسٹم تباہ ہو جائے گا اور جاگیردار خود کو تباہ کیسے کر سکتا ہے… وہ تو غریبوں کو تباہ کرنے کے ”مشن‘‘ پر کام کر رہا ہے۔
بعض ”دانشور طوطوں‘‘ کا یہ کہنا ہے کہ صوبے بننے سے ملک ترقی نہیں کرتا۔ ان کے سامنے بھارت ایک ایسی مثال کے طور پر موجود ہے جو آسام اور خالصتان جیسی بارہ تحریکوں کا سامنا کرنے کے باوجود صوبوں کو ”جنم‘‘ دے رہا ہے… دو سال قبل ہی تلنگانہ صوبہ بھارت کے نقشے پر اْبھرا ہے۔ افغانستان پر پہلے روس نے بارود برسایا اور پھر امریکہ نے اپنے تمام نئے ہتھیار آزمائے لیکن اب بھی افغانستان بدخشاں سے زابل تک 34 صوبوں میں منقسم ہے اور یہ صوبے کبھی اس کی ترقی کی راہ میں حائل نہیں ہوئے۔ آج بھی امریکہ‘ برطانیہ سمیت تمام ممالک کی ترقی اور گڈ گورننس کا راز صوبوں کے قیام اور اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی میں پنہاں ہے۔ پاکستان کو ون یونٹ بنانے کا انجام دیکھ لیا گیا۔ اب زیادہ صوبے بنا کر بھی دیکھ لیا جائے۔ وقت آ گیا ہے کہ نئے صوبے بنا کر کرپشن کی روک تھام اور جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کا عمل شروع کیا جائے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے پرویز مشرف نے ”مجسٹریسی نظام‘‘ کا خاتمہ کر کے بیوروکریسی کی حکمرانی لپیٹ دی تھی۔ وہ انگریزوں کا نظام تھا اور جاگیرداروں کو ”سوٹ‘‘ کرتا تھا۔ دس افسران کو احکامات دینے سے بہتر ایک ڈپٹی کمشنر کے ذریعے پورا ضلع قابو میں رکھنا وڈیروں کے لئے آسان فارمولا تھا۔ اْس وقت بھی بیوروکریسی نے بہت ہاتھ پائوں مارے… ہڑتالوں کی دھمکیاں دیں… استعفوں سے بھی ڈرایا لیکن پرویز مشرف نے ایک ”دبنگ حکمران‘‘ کی طرح ڈپٹی کمشنر سے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے اختیارات واپس لے کر عدالت اور ضلعی ناظم کو تفویض کر دئیے لیکن ان کے جاتے ہی جاگیرداروں نے پھر وہی ”ڈھاک کے تین پات‘‘ کر دیئے… نہ ناظم رہے نہ اختیارات… تمام ”پاورز‘‘ پھر وزیر اعلیٰ ہائوس پہنچ گئے اور کراچی اور حیدر آباد کے میئرز اختیارات و وسائل کا رونا روتے رہتے ہیں۔
اس وقت پاکستان کی عدلیہ اپنے ”جوبن ‘‘ پر ہے۔ سندھ کی تقسیم کا معاملہ بھی عدالت عالیہ میں زیر سماعت ہے اور کراچی کے ڈھائی کروڑ شہری عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ سے ہی امید لگا بیٹھے ہیں کہ جس طرح پرویز مشرف نے ”مجسٹریسی نظام‘‘ کا خاتمہ کیا اسی طرح عدالت اگر کراچی کو الگ صوبہ بنانے کا ”آئینی فارمولا‘‘ دے دے اور ڈھائی کروڑ شہریوں کو الگ وزیر اعلیٰ ‘ الگ کابینہ اور وسائل مل جائیں تو پانچ کروڑ ہاتھ عدلیہ کو دعائیں ضرور دیں گے۔