منتخب کردہ کالم

سوچنا شرط ہے! (فاروق ھارون)

ترقی یافتہ ممالک، بلکہ بہت سے ایسے ممالک جو ابھی ترقّی کی طرف گامزن ہیں، میں تعلیم کی صورتحال کیسی ہے؟ کیا کسی ترقی یافتہ ملک، بلکہ کسی بھی ایسے ملک میں جو ترقّی کے مکمل اور صحیح معنوں سے واقف ہے، میں ممکن ہے کہ تعلیم کا معیار ناقص ہو؟ اور ہمارے ہاں صورتحال کیا ہے؟ کیا والدین، یا خود حکومت، پاکستان میں تعلیم کے معیار سے مطمئن ہیں؟ ہمارا معیارِ تعلیم پچھلے 70 برسوں میں بہتر ہوا ہے یا ابتر؟ اِن دونوں سوالوں کے جواب عوام النّاس کی زبان پر کیا ہیں؟ راقم نے پاکستان میں صرف سرکاری سکول اور کالج میں تعلیم حاصل کی؛ چنانچہ وہ اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ چند دہائیاں قبل تک، اُس دور کے معیار کے مطابق، سرکاری ادارے بہترین تعلیم فراہم کیا کرتے تھے۔ ہمارے قومی المیہ کی دو شکلیں ہیں۔ ایک طرف 2 کروڑ سے زیادہ بچے سکول ہی نہیں جاتے‘ جو جاتے ہیں اُنکی بہت بڑی تعداد زندگی بھر ناقص تعلیم کا بوجھ اٹھائے پھرتی ہے۔ دونوں میں سے بڑا المیہ کون سا ہے؟ یہ شاید ایک نہ ختم ہونے والی بحث ہو گی۔
تعلیم کے شعبے میں پرائیویٹ سکولز، کالجز اور یونیورسٹیوں کی تعداد میں کس قدر اضافہ ہوا ہے؟ گائوں گائوں گلی گلی پرائیویٹ سکول کالج کھلے ہیں اور مزید کھل رہے ہیں۔ ان اداروں میں اکثر ایسے ہیں جہاں فیس شاید ناقابلِ برداشت بوجھ نہیں ہے۔ دوسری طرف سرکاری سکولوں میں کوئی فیس نہیں لی جاتی اور کالجز وغیرہ میں بھی فیس ”مناسب‘‘ سطح پر رکھی جاتی ہے۔ اس کے باوجود طلبا اور طالبات کی ایک بڑی، اور بڑھتی ہوئی تعداد، پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو ترجیح دیتی ہے۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی تعداد اور مقبولیت میں اضافہ اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ ہم نے بحیثیت قوم، بیشتر سرکاری تعلیمی اداروں کو مسترد کر دیا ہے۔
ہمارے ہاں بدحالی کی وجہ حکومت کی فرسودہ پالیسیاں ہیں۔ ان کا از سرِ نو جائزہ لینا اشد ضروری تھا‘ لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ نتیجتاً ہماری حکومتیں بدقسمتی سے وہ کام نہیں کر رہیں جو اکیسویں صدی میں انہیں کرنے چاہئیں۔ اور جو کام یہ کر رہی ہیں انہیں سو سال پہلے حکومتیں اپنی ذمّہ داری سمجھا کرتی تھیں لیکن آج ایسا نہیں ہے۔ پنجاب میں اس وقت تقریباً 36 ہزار پرائمری سکول اور ان کے لیے ایک لاکھ سے زائد اساتذہ ہیں۔ سندھ میں 15ہزار پرائمری سکول اور ان کے لیے 35ہزار اساتذہ ہیں۔ خیبر پختونخوا میں 23ہزار پرائمری سکولوں کے لیے 76ہزار اساتذہ ہیں اور بلوچستان میں تقریباً 11ہزار پرائمری سکول اور 20ہزار اساتذہ ہیں۔ ان میں سے بہت سی آسامیاں ضرور خالی بھی ہوںگی اور یہ تعداد یقینا کم اور زیادہ ہوتی رہتی ہو گی۔ ذرا سوچیں کہ صوبوں کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ان تقریباً 85ہزار پرائمری سکولز کے حالات کون دیکھتا ہوگا؟ اِن میں مقرر دو لاکھ سے زیادہ اساتذہ کی کارکردگی کو کون دیکھتا ہے؟
یہ ذمّہ داریاں حکومت نے اپنے پاس کیوں رکھی ہوئی ہیں؟ کیا لاہور، کراچی، پشاور اور کوئٹہ میں قائم دفاتر سے ان ہزاروں سکولوں اور ان میں متعین اساتذہ کی صحیح معنوں میں نگرانی اور مدد ممکن ہے؟ ”قواعدِ انصرامِ کار‘‘ کے مطابق ہے؟ ان سکولوں کی نگرانی اور اعانت وغیرہ ہر صوبہ میں عملاً
محکمہ تعلیم کی ذمّہ داری ہے۔ محکمہ تعلیم کے ذیلی دفاتر صوبہ، ہر ڈویژن، ضلع، تحصیل/ تعلقہ کی سطحوں پر موجود ہیں‘ لیکن یہ انتظامی ڈھانچہ ایک لحاظ سے محض افسانوی ہے‘ اس لیے کہ صوبائی سطح سے نیچے اکثر سطحوں پر وہ انتظامی اختیارات حاصل نہیں‘ جو نگرانی کے لیے انتہائی ضروری ہوتے ہیں۔ تحصیل اور ضلع کی سطح پر نگرانی کا عمل ہمارے مروّجہ نظام کا حصّہ ضرور ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ ان سطحوں پر ایک تو پیشہ ورانہ اہلیت کی کمی ہوتی ہے اور دوسرا یہ کہ نگرانی کے ذمّے داروں کے پاس سزا اور جزا کے اختیارات نہیں ہوتے۔ یہ درست ہے کہ تحصیل سے مجاز سطح تک سفارشات بھجوائی جا سکتی ہیں لیکن ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ سرکاری دفاتر میں کس مستعدی کے ساتھ کام ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے بہت کم معاملات اوپر کی سطح تک پہنچتے ہیں اور ان سے بھی کم پر کوئی ایسی کارروائی ہوتی ہے جس کا اثر سارے نظام پر مرّتب ہوتا ہو۔
پہلے خیبر پختونخوا میں، اور اب حال ہی میں پنجاب میں، از قسم ضلعی تعلیمی اتھارٹیز قائم کی گئی ہیں۔ اس سے فائدہ مشکل ہے۔ یہ پیش گوئی نہیں بلکہ طویل مشاہدے کی روشنی میں کہا جا رہا ہے۔ فیصلے کا مقصد سکولوں کا انتظام صوبہ کی سطح سے ضلع کی سطح پر لے جانا ہے تاکہ انتظام زیادہ موثّر ہوسکے۔ لیکن ایسا نہیں ہو گا کیونکہ یہ اقدامات محض سراب ہیں۔ ان اداروں کو چلانے کیلئے فی الحال سرکاری افسران کا تعین کیا گیا ہے جو ایک غلط ابتدا ہے۔ انتظامی زنجیر کی ابتدا کہیں بھی ہو اُس کی آخری کڑی پہلے بھی خداّم اعلیٰ تھے اور آئیندہ بھی وہی رہیں گے؛ چنانچہ اگر آپ اختیارات نچلی سطح پر لے جانا چاہتے ہیں تو پھر اس فیصلے پر عمل میں ملاوٹ نہ کریں۔ صرف اُن افراد کو اتھارٹیز میں شامل کریں جو شفاف طریقِ کار سے منتخب ہوئے ہوں۔ چیف ایگزیکٹو اور اتھارٹی کا مناسب حد تک خود مختار ہونا ضروری ہے۔ جو افراد میرٹ نہیں‘کسی اور وجہ سے منتخب ہوں، ذہنی طور پر خود مختار ہونے سے قاصر ہوتے ہیں۔ اگر حکومت ایسا شفاف نظام وضع کرے جو ایسے افراد کا چنائو یقینی بنائے جو اداروں کی تعمیر کی اہلیت رکھتے ہوں اور انہیں خود مختار سطور پر چلا سکتے ہوں تو صرف یہی بہتری کا ذریعہ ہوگا۔
دنیا میں عصرِ جدید کے تقاضوں کے پیشِ نظر حکومتوں کی ذمّہ داریوں کی نئی فہرست عرصہ پہلے تیار کی گئی۔ چند شعبوں مثلاً دفاع، انصاف وغیرہ کو جزوی طور پر چھوڑ کر، ہر شعبہ سے متعلق اکثر و بیشتر فہرست میں صرف تین ذمّہ داریاں نظر آتی ہیں۔ حکومت کی اوّلین ذمّہ داری عوام کے بہترین مفاد میں ہر شعبہ میں جو کچھ بھی یقینی بنانا چاہتی ہے اس کیلئے سازگار ماحول قائم کرنا ہے۔ دوسری ذمّہ داری یہ ہے کہ حکومت ہر سروس کیلئے جامع معیار وضع کرے اور اِن پر عمل یقینی بنائے۔ تیسری ذمّہ داری یہ ہے کہ عوام کے حقوق اور مفادات کا ہر سطح، ہر معاملے، ہر شعبہ میں تحفظ کرے۔