سو برس بعد کیا آپ موجود ہوں گے؟…..حسنین جمال
صرف 110 سال۔ اوپر کے بیس سال اس لیے ڈالے کہ بعض لوگ نوے کراس کر جاتے ہیں ورنہ تو یار پچھتر کی عمر بھی بہت کافی ہے۔ تو آج سے ٹھیک 110 سال بعد اس دنیا میں موجود سارے کے سارے انسان بدل چکے ہوں گے۔ یعنی اس وقت میں ہوں گا، نہ آپ ہوں گے، نہ ہمارے بچے ہوں گے، نہ پاس پڑوس والے، نہ رشتہ دار، نہ دوست یار، مطلب پورے کا پورا سیٹ ہی بدل چکا ہو گا۔ یہ ایک طے شدہ بات ہے لیکن غور کریں تو بہت زیادہ حیران کن بھی ہے۔ ہمیشہ سے ٹی وی بتاتا ہے کہ دنیا کی آبادی سات ارب ہے۔ اب کوئی مر رہا ہے کوئی جی رہا ہے لیکن یہ سات ارب کانسٹینٹ ہے۔ اسی میں ہم لوگ بھی موجود ہیں۔ یوں کہہ لیجیے کہ اس وقت جن سات ارب انسانوں کا گروپ چل رہا ہے وہ ہم سب کا ہے۔ بڑی اچھی بات ہو گئی لیکن سو سال بعد اس میں سے کچھ بھی نہیں ہو گا۔ آپ کسی کو یاد ہوں گے؟ بلکہ آپ کسی کو یاد ہی کیوں ہوں گے؟ کیا آج سے ٹھیک سو برس پہلے فوت ہو چکا خاندان کا ایک بھی فرد آپ کو یاد ہے؟ حتیٰ کہ وہ لوگ بھی جو شجرہ گلے میں لٹکائے نام کے آگے اور پیچھے مکمل ذات کے طغرے لگائے گھومتے ہیں ان کو بھی سو برس پہلے گزر گئے پردادا یا سگڑ دادا یاد نہیں ہوں گے۔ ہونے بھی نہیں چاہئیں۔ یہی زندگی ہے، یہی موت ہے اور یہی ایک مکمل عرصہ ہے جس میں گھوم پھر کے سب کچھ نیا ہو جاتا ہے۔
ایک سو دس برس بعد کوئی سوچے گا کہ یہ جو چھوٹا سا گھر آپ نے پچیس سال بچتیں کر کرکے بنایا تھا۔ اس کے پیچھے کتنی خواہشوں کے گلے گھونٹے گئے تھے؟ یہ جو نئی موٹر سائیکل یا گاڑی آپ نے قسطوں پہ لی ہے اور جتنی مشکل سے اس کی ماہانہ ادائیگی ہوتی ہے اس کی کہانی اس وقت کوئی جانتا ہو گا؟ کوئی کبھی یہ سوچنے کی زحمت کرے گا کہ سو برس پہلے ایک بندے نے اخبار میں ایسا کچھ بھی لکھا تھا جسے پڑھ کے میرے پردادا سر کھجاتے ہوئے کچھ سوچنے لگ گئے تھے؟ کسی کو یہ یاد ہو گا کہ آپ نے کیسی زندگی گزاری، کیسی صبحیں تھیں، کیا شامیں تھیں، کیا لوگ تھے، کون دوست تھے، کون سے ملک گھومے، کس بات پر جلے، کس بات پر خوش ہوئے، کس پر روئے، کہاں ہنسے، کہاں رونا چاہا بھی تو نہ رو سکے… کچھ بھی، کبھی بھی، کہیں بھی کیا ہو، سو سال بعد سب کچھ ایک دم صاف ہو گا۔ وہ ان لوگوں کا زمانہ ہو گا، ان کے رپھڑ ہوں گے، ان کے پیار محبت ہوں گے، ان کے موسم ہوں گے، ان کی دنیا ہو گی اور ان کی ترجیحات ہوں گی۔ انسانوں کے اس مکمل سیٹ میں (جو سو سال پہلے ایک ارب تھا اور جو 2118ء میں گیارہ ارب ہو گا) ہمارا کوئی سین پارٹ نہیں ہو گا۔
بور نہ ہوں۔ اصل بات یہ ہے کہ جو کچھ ہمارے ہاتھ میں ہے وہ بس آج ہے، ابھی ہے، ہماری زندگی تک ہے۔ سو برس بھی ویسے تو بہت دور کی بات ہے، دا مومنٹ آپ فوت ہوئے ادھر ہی سارا دھندہ ختم، پھر کیا ہونا ہے، کیا نہیں ہونا، کیا رہ جانا ہے کیا نہیں رہ جانا اس کی نہ آپ کو خبر ہو گی نہ آپ کا اس سے کوئی تعلق ہو گا۔ تو اب کیا ہو سکتا ہے؟ صرف یہ کہ ان پابندیوں سے آزاد ہو جائیں جو آپ نے خود اپنے اوپر لگائی ہوئی ہیں اور جتنا ٹائم رہ گیا ہے اسے موج میلے سے گزار لیں۔ نظریہ کیا ہوتا ہے؟ کوئی ایک ایسا خیال جو آپ کی رائے میں درست ہو اور آپ اسے مستقل اپنائے رہیں، آپ کا نظریہ جو بھی ہو‘ کیا ضروری ہے کہ وہ ٹھیک ہو؟ وہ غلط بھی تو ہو سکتا ہے۔ دنیا میں ہر آدمی کے اپنے نظرئیے ہیں اور وہ انہیں ٹھیک سمجھ سکتا ہے، اسے حق ہے! اسی طرح اصولوں کی بات کر لیں۔ جو اصول پسند ہو گا وہ زندگی میں کبھی نہ کبھی بڑا اترایا ہو گا کہ جی اپنے تو یہ یہ اصول ہیں اور ساری زندگی انہی پہ گزار دی، کبھی کمپرومائز نہیں کیا۔ اصول اٹ سیلف ہے کیا؟ کوئی ایک ایسی بات جو ٹائم ٹیسٹڈ ہو اور معاشرتی عقل اس بات کا یقین دلاتی ہو کہ یہ ٹھیک ہے، تو بس وہ اصول ہو گیا اور آپ نے اسے اپنا لیا۔ سوال یہ ہے کہ زندگی کس کی ہے؟ آپ کی ہے۔ اصول کس کے بنائے ہوئے ہیں؟ عام طور پہ ان لوگوں کی مجموعی عقل کے جو آپ سے پہلے زندگی گزار گئے۔ تو کیوں یہ بات لازم ہو گئی کہ آپ بھی وہی کریں جو انہوں نے کیا؟ اصولوں پہ قائم رہ کے جو زندگی گزرتی ہے اس میں اور ایک گھڑی میں کیا فرق ہے؟ گھڑی کی سوئیوں کو پتہ ہے کہ بس ایک سینٹر سے جڑ کے ٹک ٹک چلتے جانا ہے، آپ کو بھی معلوم ہے کہ ایک اصولوں کی گٹھڑی کو سر پہ اٹھائے اسی چکر میں گھومتے جانا ہے اور کہیں تھک کے مر جانا ہے۔
مرنا حقیقت ہے لیکن اس گٹھڑی کو تو پھینکا جا سکتا ہے یار۔ انسانوں میں رہنا ہے تو سوسائٹی کا حصہ بن کے رہنا ہے۔ معاشرہ کوئی پابندیاں لگاتا ہے چلو سمجھ میں آتی ہے کہ اس طریقے سے چلیں گے تو ٹھیک گزر جائے گی لیکن وہ روک ٹوک تو ختم کی جا سکتی ہے جو اپنے ہی دماغ کے اندر ہے، جس کا شکار ہم زبردستی اپنے آپ کو کرتے ہیں۔ جیسے آپ کا ایک اصول ہے کہ رات دس بجے سو جانا ہے اور صبح چھ بجے اٹھنا ہے۔ اب کوئی فیملی فنکشن ہے یا دوستوں کی پارٹی ہے آپ جمے ہوئے ہیں کہ بھائی تو دس بجے سوئے گا، بتیاں گل اور آپ غٹ۔ اس میں لچک کیوں نہیں ہو سکتی؟ عادت بنی ہوئی ہے؟ اصول بنایا ہوا ہے؟ اوکے، تو دوسروں کا کیا قصور ہے جو اس سے متاثر ہوتے ہیں، بیوی، بچے، دوست یار جو آپ کے ساتھ ہلاگلا کرنا چاہتے ہیں؟ تھوڑی دیر جاگ لیں گے تو اپنے آپ سے ہار ہو جائے گی؟ سبحان اللہ، کیا اصول ہے اور کیسا مقابلہ ہے جو اپنے آپ سے ہے! عین یہی چیز ہم تھوڑی سی پھیلا لیں تو اسے انا کا نام دیا جا سکتا ہے۔ یعنی اپنے اصولوں کی بانسری بجا کے خود اس پہ رقص کرنا ہے اور خود ہی اپنے آپ کو داد دینی ہے اور اپنی ہی زندگی (بلکہ آس پاس والوں کی بھی) کی لسی بنا دینی ہے۔
تو جب سو سال کے بعد یہ سارا سیٹ اپ ہی بدل جانا ہے، نہ کوئی بندہ رہنا ہے نہ کوئی بندہ نواز ہونا ہے، نہ کسی نے یاد رکھنا ہے کہ اصول کیا تھے، نہ کسی کو یاد رہنا ہے کہ ان کی دھن کے ساتھ چھالے پڑے پیروں پہ کون کون کتنی دیر ناچا تھا تو ریلیکس… ایک لمبی سانس لیں اور سوچیں کہ زندگی کس طرح آسان ہو سکتی ہے۔ خواہ مخواہ کی انا، اصول پسندی، نظرئیے، مہم جوئی، رنجشیں، دشمنیاں… ان سب کی اوقات ہی کیا ہے؟ آپ کی ”میں‘‘ ہے ہی تب تک جب تک آپ ہیں اور اگر آپ خود ہی ایک مستقل عذاب میں ہیں تو اس گورکھ دھندے سے چمٹے رہنے کا فائدہ کیا ہے؟ طے شدہ روٹین میں فلکسیبلٹی لائیں۔ جو نہیں کیا وہ کریں۔ جو کرتے ہوئے خوف ہے کہ لوگ کیا کہیں گے، وہ کریں۔ جسے کرنے سے پہلے سوچنا پڑے کہ یار یہ میرے اصول کے خلاف ہے، تھوڑا سا اسے ہاتھ لگائیں۔ غور کریں، بچہ ہمیشہ وہیں جائے گا جو چیز منع ہو گی۔ اپنے اندر والے ستے پئے بچے کو جگائیں، اسے ہلائیں جلائیں، اس کا ہاتھ پکڑ کے ہر چیز کا نئے سرے سے جائزہ لیں۔ جو نہیں کیا وہ کر لیں۔ جب ساری گیم ہی سو سال کی ہے، یعنی میکسیمم سو سال کی، اور کسی نے کچھ یاد بھی نہیں رکھنا تو سات آٹھ ارب انسانوں میں ان کے ساتھ کیوں نہ شامل ہوا جائے جو زندگی اپنی مرضی کے تجربوں میں گزارتے ہیں، جنہیں پچھتاوے ہوتے بھی ہیں تو اپنی کرنیوں پہ ہوتے ہیں، جو لگے بندھے اصولوں کو ٹھوکر پہ رکھتے ہیں، جو زندہ رہنا جانتے ہیں اور زندگی کا ہر لمحہ کیش کرنا جانتے ہیں۔ بسم اللہ کریں، ٹائم گھٹ تے مقابلہ سخت جے۔
سو باتوں کی ایک بات؛ شاعر اور مصنف کو اس کے لکھے پر کبھی نہیں تولنا پرکھنا چاہئے۔ آپ کا بھائی ایک نارمل انسان ہے۔ جیسے سب ہوتے ہیں۔ یہ بھاشن بازی ایکدم دوسروں کے لیے ہوتی ہے۔ ہرگز ضروری نہیں کہ لکھنے والا جس چیز سے اتفاق رکھتا ہو اس کا تجربہ اپنے اوپر کر دوڑے۔