منتخب کردہ کالم

سو گیدڑ، ایک شیر…کالم صولت رضا

وزیر اعظم میاں نواز شریف نے لیہ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ شیر اور گیدڑ کا کوئی مقابلہ نہیں ، سو گیدڑ بھی آجائیں تو شیر کھڑا رہتا ہے ۔ میاں نواز شریف کی پر جوش گفتگو سن کر جلسے میں شریک عوام نے پُر جوش نعرے لگائے ۔ یہ کیفیت جلسے کے ڈائس پر بھی تھی۔ ظاہر ہے کہ شیر کے جلسے میں سب شیر کے حق میں ہی دکھائی دے رہے تھے ۔ رائج الوقت جمہوریت میں مورچہ زن سیاسی جماعتیں ایک مدت سے میدان ِ سیاست میں ہیجان اور ہذیان کو فروغ دینے میں مصروف ہیں ۔ صفِ اول کی تین چار سیاسی جماعتوں کے بعض قائدین کی ذرائع ابلاغ پر گفتگو میں غیر پارلیمانی الفاظ کا چنائو اور عامیانہ انداز ِ تکلم معمول بن چکا ہے ۔ یہ صورتحال سنجیدہ غور و فکر کا تقاضا کررہی ہے۔ کیونکہ نوجوانوں پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں ۔ تعلیمی اداروں میں بڑھتا ہوا تشدد کا رجحان اب کوئی راز نہیں ہے ۔ اساتذہ کو کلاس رومز میں ایسے طلبا وطالبات کا سامنا ہے جو نشست و برخاست کے معاملے میں حدود و قیود کے پابند نہیں ہیں ۔ سیاسی قائد ین کی پیروی ایک حقیقت ہے ۔ تاہم شاید لیڈروں کو اپنی حیثیت کا احساس نہیں ہے ۔ وہ سیاسی پیش قدمی کے لیے ہر قسم کے دائو پیچ آزمانے پر تلے ہوئے ہیں ۔ دکھ اس بات کا ہے کہ میڈیا کے مابین مسابقت نے گھڑ دوڑ کا روپ دھار لیا ہے ۔ دیکھنے والے محض تالیاں پیٹنے پر مامور ہیں ۔ قائدین کے پسندیدہ نعرے بلند کرنے میں عافیت سمجھتے ہیں ۔ یہ سلسلہ کسی طور صحت مند معاشرے کی علامت نہیں ہے ۔ ہیجان اور ہذیان کا بڑھتا ہوا رجحان اخلاقی اور قانونی حوالے سے بھی فوری توجہ کا طالب ہے ۔
بات وزیر اعظم نوز شریف کے لیہ جلسے میں شیر اور گیدڑ کے باہمی مقابلہ سے شروع ہوئی تھی ۔ مسلم لیگ (ن) گزشتہ کئی انتخابات میں ”شیر ‘‘ کے نشان پر کامیابی حاصل کر چکی ہے۔یہ نشان میاں صاحب کے لیے سیاسی خوش بختی کی علامت ہے ۔ دوسری جانب تیر کے نشان والی پاکستان پیپلز پارٹی ہے جس کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے ”تلوار ‘‘ کے نشان پر1970ء کے تاریخی انتخابات میں پنجاب اور سندھ میں زبردست کامیابی حاصل کی تھی۔ بعد ازاں محترمہ بے نظیر بھٹو کی قیادت نے تلوار کو ترک کر کے تیر کے نشان کو سیاسی پہچان قرار دیا۔ گزشتہ دو دہائیوں سے تیسری سیاسی قوت تحریک انصاف کرکٹ بیٹ(بلے) کو سنبھال لیا ہے۔ دیگر ممتاز جماعتیں لالٹین ، پتنگ ، کتاب ، اور قلم دوات وغیرہ سے خود کو نمایاں کئے ہوئے ہیں ۔ ہمارا اندازہ تھا کہ سیاسی مقابلہ شیر، تیر اور کرکٹ بیٹ(بلے) کے درمیان ہی رہے گا۔لیکن لیہ کے جلسے میں شیر کے مقابلے میں گیدڑ کھڑے ہو گئے ہیں ۔ یہ عجیب و غریب صورتحال ہے۔ معلوم نہیں کن زرائع نے روح فرسا خبر پھیلائی ہے کہ سو گیدڑ ایک شیر کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں ۔یہ درست ہے کہ جنگل کا بادشاہ شیر ہی ہوتا ہے ۔ باقی تمام چھوٹے بڑے جانور شیر کی رعایا اور قدرتی خوراک تصور کیے جاتے ہیں ۔ عموماً شیر کے خلاف اجتماعی مزاحمت کا رواج نہیں ہے ۔ شاید اسی بنیاد پر شیر اطمینان سے اپنے پسند کے جانور شکار کر لیتا ہے ۔ شیر کے پُر امن شکار سے جنگل میں اُس کی رٹ قائم رہتی ہے ۔ گیدڑ وغیرہ کسی زمرے میں نہیں آتے۔ متعدد طاقتور جانور بھی شیر کا سامنا کرنے سے کتراتے ہیں ۔ اب یہ سو گیدڑ نہ جانے کس کے اشارے پر جمع ہوگئے ہیں اور شیر کی یہ خوش فہمی برقرار ہے کہ وہ ان کے سامنے بدستور کھڑا رہے گا۔ بدقسمتی سے شیر کے خوف کے باعث کوئی یہ حقیقت واضح نہیں کر رہا کہ دو چار گیدڑ ایک شیر کو دیکھ کر راہ فرار اختیار کر سکتے ہیں لیکن تعداد اگر سو کے لگ بھگ ہو جائے تو یہ صورتحال شیر کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ شیر کے لیے ناممکن ہے کہ وہ سو گیدڑ دیکھ کر ان کی جانب پیش قدمی کرے۔ عقلمندی کا تقاضا ہے کہ شیر کھڑا رہے اور پہلے گیدڑوں کی حرکات و سکنات کا جائزہ لے ۔ فکر کی بات یہ ہے کہ سو گیدڑ ایک ساتھ جمع کیسے ہو گئے؟ ہو سکتا ہے کہ جنگل کے دوسرے متحرک جانور جن میں ہاتھی ، بندر ، بھینسے ، اور زیبراوغیرہ شامل ہیں شیر کو ایک ایسے جانور کے بالمقابل لے آئیں جو بزدلی ، فرار اور کم ہمتی کی علامت ہے ۔ سو گیدڑ مل کر کھڑے ہو جائیں تو شیر کے قدم ڈگمگا سکتے ہیں ۔ شیر اگر حملہ آور ہو تو بمشکل پانچ سات گیدڑ قابو آسکتے ہیں ۔ تاہم اگر باقی نوے پچانوے زخمی شیر پر ٹوٹ پڑے اور اس کی دم چبا لی تو شیر کی باقی ماندہ زندگی کربناک ہو جائے گی۔ دم والے جانوروں کا المیہ یہ ہے کہ اگر ان کی دم زخمی ہو جائے تو جنگل کے حشرات الارض چمٹ جاتے ہیں ۔ یوں سو گیڈر اپنے چار پانچ ساتھی کھو کر جنگل کے دشوار گزار حصے میں خود کو روپوش کر لیتے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر تازہ دم شیر انگڑائی لینا شروع کر دیتا ہے ۔
زندگی خواہ جنگل کی ہو یا صحرا کی اکثر خونخوار اور دیو ہیکل جانوروں کے ڈھانچے کسی ”بزدل ‘‘ گیدڑ یا ”بے بس ‘‘ ہرن کے وجود کا اعلان کر رہے ہوتے ہیں ۔
انسانوں کی بستی میں بھی شیر اور گیدڑ کی کیفیات بر سرِ پیکار رہتی ہیں ۔ کو ئی شخص جب خود کو خونخوار درندے سے منسوب کر کے دوسروں کو للکارتا ہے تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اس کے پاس اب انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے سوچ اور عمل کا دفتر بند ہو چکا ہے ۔ ہیجان اور ہذیان کی سیاست سے کبھی مثبت نتائج برآمد نہیں ہوتے ہیں ۔ صفِ اول کی تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کئی دہائیوں سے اس کار خیر میں ملوث ہیں ۔ اُنہیں اب خون خرابے اور اشتعال پر مبنی کراہت انگیز لفاظی سے پرہیز کرنا چاہیے۔کبھی کبھار صحیح معنوں میں جمہوریت نے معاشرے میں جڑ پکڑ لی خواہ جنگل ہی کیوں نہ ہو تو سو گیدڑ اپنے ووٹ کے بل بوتے پر ایک شیر کی ضمانت ضبط کرا دیں گے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی ٹاک شوز ، پریس کانفرنس اور جلسوں وغیرہ میں نا شائستہ گفتگو اور بے محابا الزامات پر انحصار نہ کیا جائے ۔ ابلاغیات اور اخلاقیات کے باہمی ربط کی اہمیت کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ سیاسی قائدین کو یہ حقیقت ہمیشہ مدِ نظر رکھنی چاہیے کہ ان کا فرض عوام کی سیاسی تعلیم و تربیت بھی ہے ۔ حکومت میں رہتے ہوئے اور حزب اختلاف کی حیثیت سے یہ فرض ادا کرنا ہے ۔
شیر اگر حملہ آور ہو تو بمشکل پانچ سات گیدڑ قابو آسکتے ہیں۔ تاہم اگر باقی نوے پچانوے زخمی شیر پر ٹوٹ پڑے اور اس کی دم چبا لی تو شیر کی باقی ماندہ زندگی کربناک ہو جائے گی۔ دم والے جانوروں کا المیہ یہ ہے کہ اگر ان کی دم زخمی ہو جائے تو جنگل کے حشرات الارض چمٹ جاتے ہیں ۔ یوں سو گیڈر اپنے چار پانچ ساتھی کھو کر جنگل کے دشوار گزار حصے میں خود کو روپوش کر لیتے ہیں ۔