سُرخیاں اُن کی‘ متن ہمارے…ظفر اقبال
تبدیلی کا نعرہ لگانیوالے ملک کو لے ڈوبیں گے: یوسف رضا گیلانی
سابق وزیراعظم اور پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ”تبدیلی کا نعرہ لگانیوالے ملک کو لے ڈوبیں گے‘‘ اور اگر ملک ڈوب گیا تو ساتھ ہی ہمارے جمع پونجی بھی ڈوب جائے گی‘ جو بطور ایم بی بی ایس سخت محنت کے بعد بنائی تھی اور کسی بیرون ملک جانے پڑے گا‘ لیکن دیگر ملکوں میں تو یہ ڈگری تسلیم ہی نہیں کی جائیگی۔ انہوں نے کہا کہ ”ملک صرف نعروں سے نہیں چلتے‘‘ بلکہ ہماری طرح سارا کام انتہائی خاموشی سے کرنا چاہیے‘ جس سے ملک بھی چلتا رہتا ہے اور ہمارا کام بھی۔ انہوں نے کہا کہ ”عملی طور پر کچھ کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے ‘جس کی درخشاں مثالیں خاکسار‘ زرداری صاحب اور دیگر زعماء قائم کر چکے ہیں اور آئندہ بھی قائم رکھنے کا عزم صمیم رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ”حکمرانوں کی نااہلی کو عوام جان چکے ہیں‘‘ اور اگرچہ اہلیت ہمارے اندر بھی بس ایک ہی تھی‘ لیکن ہم نے اس کی بھی دھاک بٹھا کر دکھا دی‘ جبکہ محض انتقامی کارروائی کے طور پر نیب زرداری صاحب کو بھی پکڑنے کے درپے ہے اور خاکسار کے بارے میں بھی کوئی خاص اچھے جذبات نہیں رکھتی۔ آپ اگلے روز اوچ شریف میں سابق گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود سے ملاقات کر رہے تھے۔
عمران خاں یوٹرن والے بیان پر بھی یوٹرن لیں گے: خواجہ آصف
مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما اور سابق وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ ”عمران خاں یوٹرن والے بیان پر بھی یوٹرن لیں گے‘‘ لیکن شاید اُس وقت ہم سب کے سب اندر ہوں اور اسے اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ سکیں ‘کیونکہ جو زعماء اب تک بچے ہوئے تھے‘ خاکسار سمیت نیب کا گھیرا ان کے گرد بھی تنگ کیا جا رہا ہے اور کوشش یہی کی جا رہی ہے کہ شریف خاندان کے علاوہ بھی کوئی قابل ذکر شخصیت باہر نہ رہ جائے‘ تاہم اس بات کی خوشی ہے کہ خاکسار کو بھی قابل ذکر شخصیات میں شامل کیا جا رہا ہے‘ ورنہ مجھے تو اب تک نظر انداز ہی کیا جا رہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ”یوٹرن میں دیر نہیں لگے گی‘ انتظار فرمائیں‘‘ تاہم عوام کو ہماری گرفتاریوں کے انتظار سے ہی فرصت نہیں ملے گی۔آپ اگلے روز لاہور سے ٹویٹر پر اپنے ردعمل کا اظہار کر رہے تھے۔
پاکستان کا اسلامی تشخص ختم نہیں ہونے دیں گے: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ”پاکستان کا اسلامی تشخص ختم نہیں ہونے دیں گے‘‘ اور ملک کا تشخص‘ چونکہ خاکسار ہی کے دم قدم سے باقی ہے‘ اس لیے خاکسار کا تشخص ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے‘ جس سلسلے میں پہلے خاکسار کو الیکشن میں ہروا دیا گیا‘ کشمیر کمیٹی کی چیئرمینی سے ہٹایا گیا۔ حتیٰ کہ اس فدوی کے بھائی کو بھی فارغ کر دیا گیا‘ جس سے اس تشخص بطور خاص کمزور ہو گیا ہے۔ اس لیے جب تک اس تشخص کو اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں کر دیا جاتا اور اس کے مالی مسائل کا تدارک نہیں کر دیا جاتا‘ ملک کے اس تشخص کو اسی طرح سے خطرات لاحق رہیں گے ‘جبکہ حکومت‘ بلکہ دیگر اداروں کے پاس بھی وسائل کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں اور ایک چھوٹی سی ڈھیری سے اس عاجز کے سارے تحفظات بھی دُور کیے جا سکتے ہیں‘ جس سے ان ڈھیروں میں کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا‘ اس لیے ا گر ملک کے تشخص کو بچانا درکار ہے‘ تو اس طرف فوری توجہ دی جائے۔ آپ لاہور میں مولانا امجدخاں و دیگر سے ملاقات کر رہے تھے۔
ایک ڈیمو کریٹک ہٹلر کے روپ میں سامنا
آ گیا‘ اس سے بڑی تبدیلی اور کیا ہوگی: خورشید شاہ
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ ”ایک ڈیمو کریٹک ہٹلر کے روپ میں سامنے آ گیا‘ اس سے بڑی تبدیلی اور کیا ہو سکتی ہے‘‘ اور جس سے ڈیمو کریٹس کی تعداد میں کمی پیدا ہوتی جا رہی ہے‘ اُدھر دوسری طرف ہمارے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے اور اگر بقول شیخ رشید جھاڑو ہی پھر نا ہے‘ تو ڈیمو کریٹ شاید باہر سے درآمد کرنا پڑیں گے؛ حالانکہ میں اکیلا ہی سوا لاکھ کے برابر تھا۔ انہوں نے کہا کہ ”مشرف‘ ضیاء اور یحییٰ نے بھی اپنے آپ کو ہٹلر سے مشابہت نہیں دی‘‘ اگرچہ انہوں نے صرف ہٹلر کا حوالہ ہی دیا تھا۔باقی سارا کام ہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ خاص طور پر خاکسار کے بیانات کو بغور دیکھ لیا جائے‘ جس میں مسلسل اس اہم ترین نکتے پر ہی زور دے رہا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ”لوگوں کی سوچ اور ووٹ کی توہین کی گئی‘‘ جبکہ ہم نے اپنے ساتھ ساتھ لوگوں کی سوچ کو بھی کافی حد تک مقدس بنا رکھا تھا‘ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ہماری شبانہ روز محنتوں پر بھی پانی پھیرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ آپ اگلے روز سکھر میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
ن لیگ بُرد باری کے ساتھ اپوزیشن کا کردار ادا کرے گی: طارق فضل
نواز لیگ کے رہنما ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے کہا ہے کہ ”ن لیگ بُردباری کے ساتھ اپوزیشن کا کردار ادا کرے گی‘‘ کیونکہ جب سے ہمارے قائد کے غبارے سے ہوا نکلی ہے اور وہ باقاعدہ برف میں لگ گئے ہیں۔ جماعت بھی کسی خاص پنگے بازی سے احتراز کرے گی‘ البتہ جماعت میں سے کچھ عناصر قیادت پر سابقہ زورا زوری کے احیاء کا مطالبہ کر رہے ہیں‘ وہ اگر کامیاب ہو گئے‘ تو پھر کسی بُردباری کا سوال پیدا ہی نہیں ہوگا‘ کیونکہ جو ہونا ہے‘ وہ بُردباری کے باوجود ہو کر رہتا ہے‘ اس لئے منہ کا ذائقہ کیوں خراب کیا جائے‘ بیشک بعض زعماء توہین عدالت کی کارروائی بھی ابھی تک بھگت رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ”اہم قومی ایشوز پر گفتگو نہیں ہو رہی‘‘ جبکہ ہمارے قائدین کو جو لینے کے دینے پڑے ہوئے ہیں‘ اس پر کوئی ہمارے سوا بات ہی نہیں کرتا۔ انہوں نے کہا کہ ”پی ٹی آئی حکومت نے اخلاقیات کا کوئی خیال نہیں رکھا‘‘ جبکہ ہمارے قائد کافی دنوں سے اخلاق کا مجسمہ بنے ہوئے ہیں۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل میں شریک گفتگو تھے۔
آج کا مطلع
سکوت ہی وہاں اظہار کے برابر ہے
کہ راستہ جہاں دیوار کے برابر ہے