سُرخیاں‘ متن‘ ایمان فاطمہ اور دیگران…ظفر اقبال
ن لیگ سے جانے والوں کی لائنیں نہیں
لگیں‘ صرف فصلی بٹیرے گئے: نوازشریف
مستقل نااہل اور سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ”ن لیگ سے جانے والوں کی لائنیں نہیں لگیں‘ صرف فصلی بٹیرے گئے ہیں‘‘ کیونکہ بٹیرے کبھی لائنیں نہیں لگاتے ‘بس پھُر پھُر کرکے اڑ جاتے ہیں‘ البتہ لائنیں اس وقت لگیں گی‘ جب خدانخواستہ مجھے سزا ہوگی‘ اس لیے ہماری کوشش ہے کہ الیکشن سے پہلے پہلے کہیں فیصلہ نہ ہو جائے؛ چنانچہ خواجہ حارث صاحب کے ساتھ مشورے کے بعد یہی طے پایا ہے کہ مقدمے کو لٹکایا جائے‘ جس کے لیے انہوں نے ان مقدمات سے اپنا وکالت نامہ واپس لینے کی درخواست دے دی ہے ‘تاکہ وکلاء کی نئی ٹیم آئے گی‘ جو تیاری کے لیے وقت مانگے گی‘ جو مہینے بھر کا بھی ہو سکتا ہے‘ کیونکہ ان مقدمات کی شیطان کی آنت جتنی لمبی فائلیں پڑھنا اور پھر اپنا دماغ تیار کرنا کوئی خالہ جی کا گھر تھوڑا ہے‘ اور اگر مسئلہ پھر بھی حل ہوتا نظر نہ آیا‘ تو وکلاء کی دوسری ٹیم بھی وکالت نامہ واپس کر دے گی اور پھر چل سو چل‘ ہیں جی؟ آپ اگلے روز لاہور میں ن لیگ کے انتخابات سے متعلقہ پارلیمانی بورڈ سے خطاب کر رہے تھے۔
سندھ میں لوٹ مار ہوئی‘ عمران نے قوم کو مایوس کیا: شہبازشریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ”سندھ میں لوٹ مار ہوئی‘ عمران نے قوم کو مایوس کیا‘‘ کہ کم از کم لوٹ مار ہی کرکے دکھا دیتے ‘لیکن وہ اتنے جوگے بھی نہ نکلے‘ تاہم اس لحاظ سے ہم نے قوم کو مایوس نہیں کیا اور عدالتوں میں رونق ہماری ہی وجہ سے لگی ہوئی ہے‘ اسی لیے کہتے ہیں کہ بیکار مباش‘ کچھ کیا کر‘ کپڑے ہی اُدھیڑ کر سیا کر؛ چنانچہ کپڑے اُدھیڑ کر سینے سے تو کئی گنا بہتر ہے کہ فائدے کا کوئی اور کام کیا جائے ‘جبکہ میں تو ویسے بھی محنتی آدمی مشہور ہوں اور فارغ نہیں بیٹھ سکتا؛ چنانچہ جی بھر کے خدمت کی ہے اور اس کے انبار لگا دیئے ہیں؛ اگرچہ میں بھائی صاحب کا مقابلہ تو نہیں کر سکتا‘ بلکہ یہ بھی میرا خیال ہی ہے ‘کیونکہ جو لاتعداد تحقیقات شروع ہوگئی ہیں‘ آخر انہیں اپنے منطقی انجام تک بھی پہنچنا ہے۔ آپ اگلے روز پارلیمانی بورڈ کے اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
میں ن لیگ کے ٹکٹ کا محتاج ہوں‘ نہ امیدوار: چوہدری نثار
کہا ہے کہ ”میں ن لیگ کے ٹکٹ کا امیدوار ہوں نہ محتاج‘‘ امیدوار تو البتہ تھا ہی‘ اور اسی لیے اس سے پہلے اس کا اعلان بھی نہیں کیا تھا کہ امیدوار نہیں ہوں‘ کیونکہ دنیا آخر امید پر ہی تو قائم ہے‘ لیکن میرے ساتھ چالاکی یہ کی گئی کہ ایک بورڈ بنا دیا گیا‘ جس میں پہلے درخواست دینی اور پھر انٹرویو دینا ہوتا ہے‘ اس کے علاوہ میں نے محسوس کیا کہ شہبازشریف بھی اس ضمن میں بے بس ہیں اور نوازشریف کی گھرکی برداشت نہیں کر سکتے‘ حالانکہ مجھے ہر قسم کی تسلی دیتے رہے ہیں اور میں نے نوازشریف کا اصل چہرہ عوام کے سامنے لانے سے ہمیشہ گریز کیا ہے۔ آپ اگلے روز پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
پانچوں حلقوں سے عمران خان کے کاغذات
نامزدگی چیلنج کروں گا: افتخار چوہدری
سابق چیف جسٹس آف پاکستان اور جسٹس ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ ”پانچوں حلقوں سے عمران خان کے کاغذات نامزدگی چیلنج کروں گا‘ کیونکہ جب سے میں ریٹائر ہوا ہوں اور اپنی پارٹی بنائی ہے ‘مجھے کوئی گھاس ہی نہیں ڈال رہا‘ کم از کم عمران خان ہی مجھے اپنی پارٹی میں شامل کر لیتے‘ لیکن اب چونکہ ایک طرف ریحام خان نے پورا زور لگانا شروع کردیا ہے۔ اس لیے میرا اخلاقی فرض ہے کہ اس کارِخیر میں میں بھی اپنا حصہ ڈال دوں‘ کیونکہ اسی طریقہ کار سے اگر ریحان خان اتنی مشہور ہوگئی ہیں اور ہر طرف ان کی کتاب کے چرچے ہو رہے ہیں ‘تو مجھے کیا بائولے کتے نے کاٹا ہے کہ گوشۂ گمنامی میں پڑا گلتا سڑتا رہوں‘ بلکہ جب سے میں نے یہ اعلان کیا ہے ابھی سے میڈیا والے میرا تفصیلی انٹرویو لینے کے لیے بے تاب نظر آتے ہیں ‘جو پہلے ہر ملاقات میں ارسلان افتخار والے کیس پر سوالات کرکرکے ناک میں دم کر دیتے تھے‘ کیسا زمانہ آگیا ہے‘ لوگ گڑے مردے اکھاڑنے سے بھی باز نہیں آتے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل سے خصوصی گفتگو کر رہے تھے۔
اور‘ اب لگے ہاتھوں کچھ شعر و شاعری ہو جائے!
ایک دیوار چل پڑی ہے ابھی
سب کے سب راز فاش کرنے کو
تیرا بخشا ہوا اپاہج غم
میرے در سے کہیں نہیں جاتا
ہمارے خواب بہتے جا رہے ہیں
ہماری آنکھ خالی ہو رہی ہے
تمہیں نہ دیکھوں تو لگتا ہے سب سیاہ مجھے
یہ میری آنکھ کے منظر تمہارے دم سے ہیں
تمہاری قدر بھلا کیسے جان پائیں گے
تمہارے نام پہ سکّے اُچھالنے والے
زندگی کے کباڑ خانے میں
اک ترے خواب قیمتی ہیں بس
میں ترے خواب دیکھتی ہی رہی
لوگ تعبیر لے اڑے ان کی (ایمان فاطمہ)
ہاتھ آزاد ہو گئے لیکن
ذہن زنجیر سے بندھا ہوا ہے (فیض محمد شیخ)
جنہیں اپنی محبت پر یقیں تھا
وہ لوگ اب استخارہ کر رہے ہیں
ابھی تو ہجر آیا ہی نہیں ہے
ابھی تو کام سارا کر رہے ہیں (آصف انجم)
ایک تعبیر تھی ادھوری سی
خواب تھا اور وہ بھی آدھا تھا (آزاد حسین آزاد)
آج کا مطلع
تار بیچ کی کٹی ہوئی ہے
اس کی توجہ ہٹی ہوئی ہے