گزشتہ برس دو اہم صوبوں دارالحکومت دہلی اور بہار میں پے در پے شکست سے دوچار وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے سوٹ بوٹ کے طعنوں سے چھٹکارا پانے کے لئے اگلے مالی سال کے بجٹ میں سماجی سیکٹر، غریبوں اور دیہی علاقوں کی ترقی کے لئے خاصے فنڈز مہیا کروائے ہیں۔ مگر دوسری طرف اپنے روایتی حلیفوں کارپوریٹ سیکٹر اور مڈل کلاس پر ٹیکس لگا کر ان کی ناراضگی بھی مول لی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس سال کے بجٹ کا مقصد سیاسی اہداف کو مدنظر رکھ کر بنایا گیا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بجٹ ‘انڈیا‘ یعنی شہری علاقوں کے لئے نہیں بلکہ ‘بھارت‘ یعنی غریبوں اور کسانوں کے لئے ہے۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی اور حیدرآباد دکن کی سنٹرل یونیورسٹی سے اٹھنے والی آوازوں، بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی، ادیبوں اور دانشوروں کے ایوارڈ لوٹانے کی مہم نے مودی حکومت کی عوام خصوصاً کمزور طبقات مخالف شبیہ پیش کرنے میں کلیدی رول ادا کیا۔ مودی حکومت نے پچھلے دو سالانہ تخمینوں میں تعلیم، صحت، دیہی روزگار اور اس طرح کی دیگر اسکیموں میں بھاری کٹوتی کی تھی جس کا اثر اب نمایاں ہے۔ اپنی حکومت کے ابتدائی 19ماہ میں37 ملکوں کے دوروں اور تقریباً 60 دن بیرون ملک رہنے کا ریکارڈقائم کر کے وہ تنقیدکی زد میں آئے۔ چنانچہ مودی نے پچھلے ماہ وزارت خارجہ کو ہدایت دی کہ اس سال ان کے غیر ملکی دوروں کی تعداد کم کی جائے اور انتہائی ضروری سفارتی مشن کے لئے ہی ان کا دورہ ترتیب دیا جائے۔ اس لئے اس بار وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے پارلیمنٹ میں 2016-17ء کا جو سالانہ تخمینہ پیش کیا اس میں کمزور طبقات کو لبھانے کے لئے دیہی علاقوں میں ارزاں قیمت پرگیس فراہم کرنے پر دو ارب روپے، غریب گھرانوں کے لئے صحت کا بیمہ اور دیہی روزگار گارنٹی اسکیم کے لئے 380 ارب کی خطیر رقم فراہم کرنے کا اعلان کیا تاکہ غریب اور عوام مخالف اور کارپوریٹ دوست کا لیبل ہٹایا جاسکے۔
پچھلی دو دہائیوں سے بھارت میں دیہی معیشت تباہ ہو چکی ہے۔ آئے دن کسانوں کی خود کشی کی خبریں موصول ہوتی رہتی ہیں۔ اس کے علاوہ دیہات میںرہنے والی چالیس فیصدی آبادی کے پاس کاشت کے لئے زمین نہیں، اگر ہے تو بہت کم۔ ان کے پاس روزگاربھی نہیں، صاف پانی، تن ڈھانپنے کے لئے کپڑا اور سرچھپانے کے لئے جھونپڑی تک میسر نہیں۔ وہ نان شبیہ کے لئے بھی محتاج ہیں۔ وہ کھیت مزدروں کی طرح محنت کرکے پیٹ کی آگ بجھاتے ہیں۔ قابل کاشت اراضی کا ساٹھ فیصد لینڈ لارڈزکے قبضہ میں ہے۔ دیہات میں ترقی کے نام پر جورقوم صرف کی جاتی ہیں وہ بھی انہی لینڈلارڈز یا امیر کسانوں کے حصے میں آتی ہے۔کانگریس حکومت نے دیہی روزگار گارنٹی قانون پاس کروا کے دیہات میں ہر سال 100دن کے روزگار کو یقینی بنایا تھا، مگر مودی حکومت نے آتے ہی اس کے فنڈز کم کردیئے۔ اب اس سال دوبارہ اس مد میں رقوم کا اضافہ کیا گیا ہے۔
بھارت میں ہر سال ایسے تقریباً 2۔2 لاکھ نئے مریضوں کا اضافہ ہو جاتا ہے جنہیں انتہائی درجے کے پیشاب کا مرض لاحق ہوتا ہے۔ نتیجتاً 3۔4 کروڑ اضافی ڈائیلیسز سیشنزکی ضرورت پڑتی ہے۔ ملک میں تقریباً 4950 ڈائیلیسز مراکز ہیں، جن میں سے زیادہ تر نجی شعبے کے ہیں اور بڑے شہروں میں واقع ہیں، لہٰذا بمشکل نصف ضرورت پوری ہو پاتی ہے۔ ہر ڈائیلیسز سیشن پر تقریباً 2000 روپے خرچ ہوتے ہیں۔ اس طرح سال میں تین لاکھ سے زیادہ خرچ آتا ہے۔ زیادہ تر کنبوں کو ڈائیلیسز کروانے کے لئے طویل سفر کرنا پڑتا ہے، جس سے سفری خرچ بھی بڑھ جاتا ہے۔ اس مشکل کے ازالے کے لئے ارون جیٹلی نے قومی ڈائیلیسز خدمات پروگرام شروع کرنے کی تجویز پیش کی اور اخراجات میں میں کمی لانے کے لئے ڈائیلیسز سے متعلق آلات پر مختلف ڈیوٹیوں میں رعایت دینے کی تجویز بھی پیش کی ہے۔
بجٹ تجاویز کے مطابق اگلے مالی سال کے دوران جو چیزیں یا خدمات مہنگی ہوںگی، ان میں متمول طبقات کے استعمال میں آنے والی اشیاء جیسے سگریٹ، سگار، فضائی و ریلوے سفر، بلوں کی ادائیگی، گھر سے باہر کھانے، ایک ہزار روپے سے زیادہ قیمت والے برانڈڈ ملبوسات، سونے اور چاندی کے زیورات، بوتل بند پانی، دو لاکھ روپے سے زیادہ کی نقد خریداری، المونیم فوئل، پلاسٹک بیگ، کیبل کارکی سواری، صنعتی مقاصد کے لئے استعمال ہونے والے سولر واٹر ہیٹر، قانونی خدمات، لاٹری ٹکٹ، وائس اوور پروٹوکول کے آلات، گالف کاریں اور سونے کی اینٹیں شامل ہیں۔ وزیر خزانہ نے تسلیم کیا کہ مالی سال 16۔2015ء اور 17۔2016ء حکومت کے اخراجات کے لئے چیلنج لا رہے ہیں۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ اگلے مالی سال میں ساتویں مرکزی تنخواہ کمیشن کی سفارشات اور دفاع کے مد میں ون رینک ون پینشن کی وجہ سے مزید بوجھ بڑھے گا۔ حکومت کمزور طبقے کی مدد کے لئے تین بڑی اسکیمیں شروع کرے گی جن میں فصل بیمہ اسکیم پہلے ہی شروع کی جاچکی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ بجٹ تجاویز کے نو اہم ستون ہیں جن میں زراعت اور کسانوں کی بہود، دیہی سیکٹر، حفظان صحت کے علاوہ سماجی سیکٹر، تعلیم و تربیت، روزگار کی فراہمی، بنیادی ڈھانچہ ، سرمایہ کاری، مالی سیکٹر کی اصلاحات، حکمرانی اور بزنس کرنے میں آسانی، مالی ڈسپلن اور ٹیکس اصلاحات شامل ہیں۔ جیٹلی نے اعلان کیا کہ حکومت 2022ء تک کسانوں کی آمدنی کو دوگنا کرنے کی خاطر کھیتی اور غیر کھیتی کے شعبوں میں اپنے اقدامات پر نظر ثانی کرے گی۔-17 2016ء کے بجٹ کے لئے اخراجات کا تخمینہ 78 ٹریلین روپے ہے جس میں 50 ٹریلین روپے منصوبہ جاتی اخراجات کے لئے اور 14۔28 ٹریلین غیر منصوبہ جاتی اخراجات کے لئے ہیں۔ چھوٹے کاروبارکو آسان بنانے کے لئے کمپنی قانون 2013ء میں ترمیم کی جائے گی۔ مڈل کلاس اور کارپوریٹ سیکٹر کو شکایت ہے کہ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں کمی آنے کے باعث پٹرول، ڈیزل اور دوسری پٹرولیم پراڈکٹس میں جو کمی آئی ہے اس کا فائدہ ان کو نہیں مل رہا ہے، بلکہ الٹا کسٹم اور ایکسائز ڈیوٹیاں بڑھا دینے سے صارفین کی قوت خریداری متاثر ہوئی ہے۔
بجٹ میں بے روزگاری کے خاتمہ کی کوئی سکیم یا منصوبہ دکھائی نہیںدیتا؛ حالانکہ یہ مسئلہ سوہان روح بنا ہوا ہے۔ لاکھوں پڑھے لکھے نوجوان در بدر ہیں۔ غیر تعلیم یافتہ نوجوانوں کی فوج بھی بے روزگاری کے گرداب میں پھنس کر ناگفتہ بہ زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ مودی سرکار نے کالے دھن کے ذخیروں کو واپس لانے کے بلند بانگ دعوے کئے تھے اور کہا تھا کہ اس کی بازیابی سے ملک مالامال ہوجائے گا، لیکن وزیرخزانہ کی بجٹ تقریر میںکالا دھن واپس لانے کی کوئی بات نہیں کی گئی۔
ڈیفنس پر رقوم میں پچھلے سال کے مقابلے 11 فیصد اضافہ کیا گیا ہے جسے معمولی کہا جاسکتا ہے، مگر ڈیفنس بجٹ کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو یہ ہوشربا ہے۔ یہ کسی بھی چھوٹے ملک کے مجموعی بجٹ کے برابر ہے۔ اس سال دفاع کی مد میں 3 ٹریلین روپے یعنی 52.2 بلین ڈالر مختص کئے گئے ہیں جبکہ پاکستان کا دفاعی بجٹ7.6 بلین اور چین کا 150بلین ڈالر ہے۔ یہ درست ہے کہ ملکی دفاع پر رقوم صرف کرنا لازمی ہیاور بھارت کا یہ کہنا بھی بجا ہے کہ دفاعی صلاحیت میں اس کا مقابلہ چین سے ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ 1962ء میں چین کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانے کے باوجود اس بارڈر پر بھارت کی صرف ایک ملٹری کمانڈ، تین کور کے ساتھ دفاع کر رہی ہے جبکہ پاکستان کے ساتھ متصل سرحد پر 10کورز پر مشتمل چار ملٹری کمانڈز برا جمان ہیں۔ اس لئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ رقوم کہاں اور کس کے خلاف خرچ ہوںگی۔
ہمسایہ ممالک سے تنازعات ختم کرکے اورمذاکرات کے ذریعہ معاملات طے کرکے ڈیفنس اخراجات میں کمی کی جاسکتی ہے اور اس سے ہونے والی بچت کو عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ کیا جاسکتا ہے، لیکن مودی حکومت کی طرف سے اس جانب فی الحال کوئی واضح پالیسی نظرنہیں آتی۔