منتخب کردہ کالم

سٹالن کی مرغی اور اچھی خبریں…حسنین جمال

سٹالن کی مرغی اور اچھی خبریں

سٹالن کی مرغی اور اچھی خبریں…حسنین جمال

جن دنوں روس ایک عظیم طاقت بننے کے مراحل طے کر رہا تھا انہی دنوں وہاں دنیا کا بہترین ادب بھی تخلیق کیا جا رہا تھا۔ وہ ادب جس نے لاکھوں لوگوں کو متاثر کیا۔ وہ جس وقت لکھا گیا تب انقلاب کی آمد کے ساتھ ساتھ لاکھوں بندے اپنی جان سے ہاتھ دھو چکے تھے۔ جو قتل نہیں ہوئے وہ اپنی زمین، اپنے کاروبار، اپنی آزادی، اپنی زندگی ہر چیز پہ سو طرح کی پابندیوں کا سامنا کرتے تھے۔ روسی میڈیا میں خبریں لگتیں کہ ہر چیز ایک دم پرفیکٹ جا رہی ہے، عوام فل موج میں ہیں، باہر کبھی کبھار کوئی رپورٹ لیک بھی ہوتی تو کوئی کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا تھا۔ جس وقت دنیا دو انتہاؤں میں بٹی تھی اس وقت دادا گیری کرنے کے لیے الگ لائسنس ہوا کرتے تھے۔ ”عظیم کمیونسٹ راہنما‘‘ جوزف سٹالن کی بارعب تصویریں ہر جگہ چھائی ہوتیں اور وہ ہر پریس بریفنگ میں نت نئے پوز کے ساتھ موجود ہوا کرتے۔
ان دنوں چنگیز ایماٹوو نامی ایک لکھاری ہوا کرتے تھے۔ وہ کرغیزستان اور روس میں برابر مشہور تھے۔ ان کا ایک ناول جمیلہ اپنے وقت کا بیسٹ سیلر تھا۔ انہیں لینن پرائز بھی ملا۔ وہ ایک عجیب سا چکر چلاتے تھے۔ ان کی اکثر کہانیاں پرانی حکایتوں جیسی ہوتی تھیں لیکن ان میں بتائے گئے واقعات سب اسی دور (ان کے اپنے ٹائم کے) سے تعلق رکھتے تھے۔ اصل میں وہ حقیقت اور فکشن کا ملغوبہ بنا کے لکھتے تھے جو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا تھا۔ ان کی ایک حکایت جوزف سٹالن کے بارے میں بھی تھی، وہ پڑھی تو پاکستان کا پولیٹیکل سین پارٹ سامنے آ گیا۔
عظیم راہنما جوزف سٹالن نے ایک پولٹری فارم کا سرپرائز دورہ کیا۔ وہ عوام میں گھل مل گئے۔ لوگوں نے وہاں ان سے بہت سارے سوالات کیے، انہوں نے خندہ پیشانی سے جواب دیا۔ سارے سوال پہلے سے چھتیس بار ریہرسل کرکے تیار کرائے گئے تھے۔ اب تصویریں دھڑادھڑ کھچ رہی تھیں کہ عظیم راہنما مرغیوں کے پاس گئے اور انہوں نے عوام کو بتایا کہ جب سے انقلاب آیا ہے اور ہر چیز قومیائی گئی ہے تب سے روس کی زراعت اور مرغبانی کی صنعت چار سو گنا ترقی کر چکے ہیں، فصلیں تو زیادہ ہوئی ہی ہیں، مرغیاں تک انڈے زیادہ دینے لگی ہیں۔ سب میڈیا والوں نے، سارے عوام نے زور زور سے سر ہلائے اور خوشی سے نعرے لگائے کہ روس عظیم سے عظیم تر بن چکا ہے۔ وہیں ایک اتھرا جرنلسٹ بھی موجود تھا۔ پتہ نہیں کیسے پہنچا اور بعد میں اس کا انجام کیا ہوا لیکن جاتے ہی جوان نے ایک سوال داغ دیا، اس نے پوچھا، ”اے عظیم راہنما، خوشحالی کا یہ دکھاوا کب تک چل سکے گا؟ آپ اہم لوگ چن چن کے مارتے رہیں گے، ان پہ تشدد کریں گے، انہیں عدالتی کارروائیوں کے بعد جیل میں رکھیں گے تو کیا آپ کے خیال میں وہ کبھی کھڑے نہیں ہوں گے؟‘‘
میڈیا کو سانپ سونگھ چکا تھا۔ عام آدمیوں کی ویسے ہی ہوا ٹائٹ تھی۔ کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ عظیم راہنما کا غصہ اب کس صورت باہر آئے گا۔ سب بالکل چپ کھڑے سٹالن کی طرف دیکھ رہے تھے۔ وہ ایک قدم آگے بڑھا، کیمروں کو ہاتھ کے اشارے سے دور کیا اور نیچے جھک کے ایک مرغی اٹھا لی۔ پوری متانت اور مکمل رعب دار لہجے کے ساتھ سٹالن نے بات شروع کی۔ ”چونکہ ہم نے زمینوں کا قبضہ حکومت کے ہاتھ میں رکھ لیا ہے اس لیے ہماری پیداوار کئی سو گنا بڑھ چکی ہے۔ ہم فالتو غلہ بیچیں گے، ان پیسوں کی فیکٹریاں بنائیں گے اور عام آدمی کو وہ سب کچھ دیں گے جو وہ چاہتا ہے‘‘۔ اب سٹالن یہ بات کر رہا تھا اور ساتھ ساتھ مرغی کے پر ایک ایک کرکے نوچے جا رہا تھا۔ مرغی بے چاری اس کے ہاتھوں میں تڑپ رہی تھی۔ ایک پر نوچے جانے کے بعد وہ تکلیف کی شدت سے چیختی اور اسی وقت سٹالن دوسرا پر اکھاڑ دیتا۔ ساتھ ساتھ ڈائیلاگ بھی جاری تھے۔ ”یہ سوشلزم کی برکات ہیں کہ ہم نے عام آدمی کے لالچ اور ہوس پہ قابو پا لیا ہے، اب ہمارے سب مسائل خود ہی حل ہو جائیں گے‘‘۔ مرغی سارے پر نچوا چکی تھی اور اب بری طرح سٹالن کے ہاتھوں میں پھڑک رہی تھی۔ نڈر صحافی اب کراہت اور بیزاری کے عالم میں اسے دیکھ رہا تھا اور عوام صرف خوف کا شکار تھے۔ سٹالن نے اونچی اونچی آوازیں نکالتی مرغی کو زمین پہ چھوڑ دیا۔ وہ دوڑ کے ان سب سے کئی فٹ دور چلی گئی۔
اب سٹالن نے صحافی کی طرف دیکھا اور پوچھا کہ جواب کا بہترین پارٹ جاننا چاہتے ہو؟ وہ بے چارہ پہلے ہی صدمے کی حالت میں تھا، اس سے کچھ بات نہیں ہوئی۔ سٹالن نے جیب میں ہاتھ ڈالا، تھوڑے سے دانے نکالے اور زمین پہ اچھال دئیے۔ بہت سی مرغیاں اکٹھی ہو گئیں، وہ دانہ چگ رہی تھیں کہ زخمی مرغی بھی ان میں شامل ہو گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ دوبارہ زمین پہ بیٹھا اور جیب سے چند دانے مزید نکال کے اپنا ہاتھ اس پَر نچی مرغی کے قریب لے گیا۔ وہ مرغی جو چند لمحے پہلے اس کے ہاتھوں میں پھڑک رہی تھی اب انہی ہاتھوں سے دانہ چگنے کے لیے ذرا نہیں ہچکچائی۔ عظیم لیڈر نے فاتحانہ نظروں سے صحافی کو دیکھا۔ اسے جواب مل چکا تھا۔
سیتالیس سے آج تک جو کچھ ہوا اس کا جواب بھی عظیم آمر کے اس جواب میں پوشیدہ ہے۔ سیاستدان ایبڈو کے تحت کرپٹ ہوئے، نکالے گئے، ان کی جگہ کچھ دوسرے چگنے آ گئے۔ وزرائے اعظم میں سے کوئی اپنی مدت پوری نہیں کر سکا لیکن چوگا لینے کا ہر وزیر محتاج رہا۔ بھٹو پھانسی چڑھ گیا، مرتضی بھٹو اپنی بہن کی حکومت میں قتل ہوا، بہن خود بعد میں قتل ہو گئی مگر پارٹی پھر بھی مجبور ہے۔ نواز شریف اس وقت کہتے ہیں کہ میمو گیٹ کا حصہ نہیں بننا چاہئے تھا لیکن دانہ دنکا انہوں نے بھی وصول کیا۔ الطاف حسین ہٹے تو انہی کی پارٹی میں سے کئی دوسرے دانہ چگنے آ گئے۔ مسلم لیگ ن آج نظریاتی ہونے کا اعلان کرتی ہے لیکن ساتھ ساتھ اسے بھی علم ہے کہ یہ سب نظریات کسی مدد کے بغیر کسی ویلیو کے نہیں۔ تحریک انصاف بھی کسی کی منتظر رہتی ہے۔
ماضی قریب میں بھی کافی کچھ ہوتا رہا ہے۔ ڈرامہ پیچیدہ ہے، کردار بہت سے ہیں، کہانیاں بھی بہت سی ہیں لیکن سب ایک جیسی ہیں۔ مرغیاں ہیں، خوفزدہ نگاہیں ہیں، اپنا حصہ بھی لینا ہے، اپنے وجود کا ثبوت ووٹ کی صورت وصول کرنے کے بعد اسے منوانا بھی ہے۔ جو سجے کھبے ہونے کی کوشش کرے گا خود ذمہ دار ہو گا۔
چھڈو جی مٹی پاؤ ان باتوں پر۔ اس ہفتے کی کچھ اچھی خبروں پر نظر ڈالتے ہیں۔ نہال ہاشمی کو سزا نہیں ہوئی۔ عدالت عظمیٰ نے یقیناً بڑا پن دکھایا۔ نواز شریف کے خلاف توہین عدالت کی درخواست اس لیے خارج ہو گئی کہ اب وہ وزیر اعظم ہی نہیں رہے۔ پھر موجودہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بھی چیف جسٹس سے مل لیے۔ شہباز شریف اور کچھ وی آئی پی لندن میں ہیں۔ پھر ایک اچھی سی وضاحت بھی آ گئی کہ بھئی 2018ء الیکشن کا سال ہے۔ تو پل بھر میں کیا ماجرا ہو گیا، کہ جنگل کا جنگل ہرا ہو گیا؟ لو جی ساون کے اندھے کو سیانے کہتے ہیں ہر طرف ہریالی ہی دکھائی دیتی ہے، مرغیاں جانیں اپنا کام، پارٹیاں اپنا کام کریں، سٹالن بابا جی کی جے ہو، مولا خوش رکھے، السلام علیکم!

ماضی قریب میں بھی کافی کچھ ہوتا رہا ہے۔ ڈرامہ پیچیدہ ہے، کردار بہت سے ہیں، کہانیاں بھی بہت سی ہیں لیکن سب ایک جیسی ہیں۔ مرغیاں ہیں، خوفزدہ نگاہیں ہیں، اپنا حصہ بھی لینا ہے، اپنے وجود کا ثبوت ووٹ کی صورت وصول کرنے کے بعد اسے منوانا بھی ہے۔ جو سجے کھبے ہونے کی کوشش کرے گا خود ذمہ دار ہو گا۔