سپاہی مقبول حسین….ہارون الرشید
خلوص قلب سے شہیدوں کو یاد رکھا جائے‘ تو شاید وہ ہمارے ذہنوں میں دائم زندہ رہیں ۔ دلوں میں بس جائیں تو شاید ہماری دنیا ہی بدل جائے۔
سپاہی مقبول حسین کی یاد لپک کر آئی‘ جس طرح ماں اولاد کی طرف لپکتی ہے۔ کم خیال‘ کم کردار اور کم مناظر ہوتے ہیں‘ جو رگ رگ کو سیراب کریں۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندگی کا حصّہ ہو جائیں۔
آدمی کے ریشے ریشے میں سما جاتا ہے عشق
شاخِ گل میں جس طرح بادِ سحر گاہی کانم
کیفیت کبھی عارضی ہوتی ہے‘ کبھی مستقل۔ شہادت کی آرزو میں پہلا قدم ہی شاید مسافر کو فلک نشیں کر دیتا ہے۔
گدائے میکدہ ام لیک وقتِ مستی بیں
کہ ناز برفلک و حکم بر ستارہ کنم
میکدے کا گدا ہوں‘ لیکن آسمان پہ پائوں رکھتا اور ستاروں کو حکم دیتا ہوں۔ صدیاں ہوتی ہیں کسی گدا نے اپنے عہد کے سب سے بڑے شاعر کی زندگی زیروزبر کردی تھی۔ صدیوں بعد اقبال‘ غزنی تشریف لے گئے تو اس کے مزار پہ پہنچے۔ سید سلیمان ندوی نے لکھا ہے: بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کے روئے۔ لوٹ کر آئے‘ تو وہ مشہور نظم لکھی۔
ثنائی کے ادب سے میں نے غوّاصی نہ کی ورنہ
ابھی اس بحر میں باقی ہیںلاکھوں لولوئے لالہ
قدیم غزنی کے باسیوں نے میکدے کے گدائوں کو ”لائی خوار‘‘ کا نام دیا تھا۔ بادہ نوش میکدوں کو جاتے تو انہیں شریک کرتے‘ بادہ فروش بھی۔ شاید ایسے ہی کسی شخص کے باب میں حافظ ؔنے کہا تھا:
سرِّخدا کہ عارف و سالک بہ کس نہ گفت
در حیرتم کہ بادہ فروش از کجا شنید
رازِ خداوندی عارف و سالک کسی کو بتایا نہ تھا۔ حیرت ہے کہ بادہ فروش نے کہاں سے سن لیا۔
لائی خوار نے اپنا پیالہ آگے بڑھایا اور بادہ فروش سے کہا: ایک پیالہ بادشاہ کے اندھے پن کے نام پر۔ غزنی کی سلطنت تب دریائے آمو سے پرے‘ دورداز تک پھیلی تھی۔ ہم میں سے بہت سوں کے اجداد جہاں سے آئے‘ جس طرح امیر تیمور کے جانشینوں میں تابناک وہی ہوتا‘ جو فن تعمیر کا کوئی معجزہ استوار کرے۔ محمود غزنوی کے عہد سے‘ فاتح اسی کو باور کیا جاتا‘ جو ہندوستان کا قصد کرتا۔
جس بادشاہ کے نام پر لائی خوار نے جام طلب کیا تھا‘ وہ اسی تیاری میں تھا۔ بادہ فروش نے کہا: ایسا جلیل القدر سلطان اور اندھا ؟ وہ بولا: اندھا نہیں تو اورکیا ہے۔ غزنی میں کون سے چاند ستارے ٹانک دیئے ہیں کہ سلطنت کو وسعت بخشے۔ عقل بینا ہو تو لطف و کرم کو مائل ہوتی ہے‘ خون ریزی کی طرف نہیں۔ بادہ فروش نے پیالہ بھردیا۔غٹاغٹ پیا اور کہا: ایک پیالہ ثنائی کے اندھے پن کے نام پر۔ ٹھیک یہی وقت تھا کہ محل کو روانہ ملک الشعرا ثنائی کی بگھی وہاں پہنچی۔ چاند کی مدھم روشنی میں وہ نہ دیکھ سکے۔ شاعر نے سن لیا۔ سامع نے گھورا اور کہا: یہ کیا بات ہوئی۔ ثنائی ہمارا سب سے بڑا شاعر ہے۔ صاحبِ ادراک‘ وجیہہ‘ وضع دار‘ صاحبِ علم اور صاحبِ نسب بھی۔گدا بولا: وہ تو بادشاہ سے بھی زیادہ اندھا ہے۔ علم و جدان بخشا گیا‘مگردرباریوں کی صف میں جا کھڑا ہوا۔
ثنائی نے کوچبا ن کو لوٹنے کا حکم دیا۔ پھر کبھی دربار کا منہ نہ دیکھا۔ افضل و محترم تو تھا ہی‘ حسنِ ازل کا ہوا تو دیکھتے ہی دیکھتے منزلیں سر ہوگئیں۔ ذکر و فکر اور علم کے جواہر۔ کہنے کو ہمارے دانشور اور ملاّ بھی موتی بکھیرتے ہیں‘ لیکن عمل کے کھوٹے اور دریوزہ گر۔ صوفیوں کا شعار یہ ہوتا ہے کہ دونوں ہاتھوں سے یہ دولت بانٹتے رہتے ہیں۔ جس طرح ایک بار صلاح الدین ایوبی نے سارا خزانہ خلقِ خدا میں تقسیم کردیا تھا۔
ایک پرانا ثنائی تھا۔اس کی خاکستر سے ایک دوسرا آدمی اٹھا اور اپنے عہد پہ راج کرنے لگا۔ خاندان تو افضل تھا ہی ‘ معرفت نے چمکایا تو خلقت ٹوٹ پڑی۔ بادشاہ نے ایک دن پیامبر کو بھیجا۔ درویش اگر چاہے تو اپنی بہن اس سے بیاہ دے۔ ثنائی نے فقط یہ کہا: جہاں پناہ نے دیر کردی۔
آدمی بدل کیسے جاتے ہیں۔ ان کی ترجیحات یکسر تبدیل کیسے ہو جاتی ہیں؟
تصّوف کی دنیا میں‘ ہزار برس سے یہ کرامات آدمی دیکھتاآیا ہے ‘مگر عساکر میں اور لشکروں میں؟ سپاہی کی جان میں وہ چراغ کیسے جلتا ہے‘ راہ سلوک کے مسافرجو عشروں کی ریاضت سے پاتے ہیں ‘ جو تمام دوسرے انسانوں سے انہیں ممتاز کردیتا ہے۔
اہلِ صفا کم ہیں اور ان میں عارف اور بھی کمیاب۔ بہت دن ہوئے‘ ایک فقیر سے پوچھا: اپنے آپ سے آدمی اوپر کیسے اٹھتا ہے؟ خود کو خیرباد کیسے کہہ دیتا ہے۔ کہا: یوں تو کئی قرینے ہیں ‘مگر وہ آدمی یقینا بالیدگی کو پا لیتا ہے‘ جو اپنا مال حاجت مندوں‘ اقربا اور ہم نفسوں پہ لٹا دے۔ دن اور رات‘ بے دریغ۔ مال کی محبت دل سے نکل جائے ‘تو تو کل کی کونپل پھوٹتی اور بتدریج چھتنار شجر ہو جاتی ہے۔ ایسے لوگوں کو اللہ کی کتاب وہی خوشخبری دیتی ہے‘ جومن کے اجلے اولیاء کو ”لاخوف علیہم ولاھم یحزنون‘‘ وہ خوف اور غم سے وہ آزاد کر دیئے جاتے ہیں۔
پھر کہا: بہت سے راستے ہیں۔ ایک سپاہی کا راستہ بھی جو اپنی جان ہتھیلی پہ رکھ لیتا ہے۔ آدمی اپنی سب سے بڑی جبلت پہ غلبہ پا لیتا ہے‘ جب اللہ کی راہ میں زندگی نذر کرنے پہ تل جائے۔ ایثار کی معراج یہی ہے۔ سب سے قیمتی متاع کی قربانی۔ شعوری طور پہ انسان جب یہ طے کرلے‘ تو آدمی فقط آدمی نہیں رہتا‘ کچھ اور ہو جاتا ہے۔
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
اسی لیے کتاب یہ کہتی ہے کہ شہید کو مردہ نہ کہو‘ جو اللہ کی راہ میں مارے گئے‘ وہ زندہ ہیں‘ انہیں رزق دیا جاتا ہے‘ مگر تم اس بات کو سمجھ نہیں سکتے۔
کشتگانِ خنجر تسلیم را
ہر زماں ازغیب جانِ دیگراست
تسلیم و رضا کے شہید۔ ہر زمانے میں ان کے لیے ایک نئی زندگی ہوتی ہے۔ ممتاز برطانوی تھنک ٹینک Royal United services institute نے اپنی تازہ رپورٹ میں لکھا ہے: اب پاکستانی فوج کو امریکہ سے ملنے والی دھمکیوں کی پروا نہیں ۔ دہشت گردی کے خلاف سترہ سالہ جنگ نے اسے اعتماد بخشا ہے۔ واشنگٹن پابندیاں لگائے تو چین‘ ایران‘ ترکی اور روس اس کی مدد کو آئیں گے۔ امریکی اسلحے پر پاکستان کا انحصار اب نہیں۔
طاقت ایک نفسیاتی چیز ہے۔ فتوحات سے پھوٹنے والا اعتماد بجا۔ پاکستانی فوج ظفرمند رہی اور افغانستان میں امریکی سپاہ ناکام لیکن بات اس کے سوا بھی کچھ ہے۔
شہادت کی تمنا ایک ایسی چیز ہے کہ کسی قلب‘ کسی لشکر میں جاگ اٹھے تو اس کی دنیا ہی بدل جاتی ہے۔ اورنگ زیب عالمگیر بوڑھے تھے‘ جب شیواجی نے انہیں لکھا: یہ اللہ اللہ کرنے کی عمر ہے۔ جواب میں بادشاہ نے لکھا: زندگی کی سب نعمتیں میں دیکھ چکا۔ شہادت کے سوا اب کوئی آرزو باقی نہیں۔ یہ خط پہنچنے سے پہلے‘ تمہاری طرف میں روانہ ہو چکا ہوںگا۔وہ نادر روزگار اسّی سال کی عمر میں گھوڑے کی پیٹھ پہ سوار ہوگیا۔
جنرل مشرف کا عہد بہت پیچھے رہ گیا۔ جس فوج نے چھ ہزار شہیدوں کی قربانی پیش کی‘ اس کی صفوں میں خوف کا کیا کام؟ قوم اگر اس کی پشت پر کھڑی ہو جائے تو ہزار استعمار بھی اسے مرعوب نہیں کر سکتے۔
ہدایت کار سید نور اتفاقاً آج ملے۔ ان سے عرض کیا کہ سپاہی مقبول حسین پہ فلم بننی چاہیے۔ پہاڑ ٹوٹ جاتے ہیں مگر وہ کیسی زندگی تھی‘ جو چالیس برس میں ٹوٹ نہ سکی۔ انہوں نے اتفاق کیا۔ سرمایہ کاری کرنے والے دوست موجود ہیں لیکن میری آرزو ہے کہ ہم سب اس میں حصّہ ڈالیں۔ چندہ نہیں‘ سرمایہ کاری۔ ہم سب‘ سمندر پار پاکستانی بھی۔ منصوبہ ذہن میں ابھر رہا ہے۔ تفصیل‘ عرض کروں گا۔
خلوص قلب سے شہیدوں کو یاد رکھا جائے تو شاید وہ ہمارے ذہنوں میں دائم زندہ رہیں ۔ دلوں میں بس جائیں تو شاید ہماری دنیا ہی بدل جائے۔