منتخب کردہ کالم

سیاست، قنوطیت اور کرکٹ …اقبال خورشید

انتظار حسین فقط ادیب نہیں تھے، پورا عہد تھے، چلتی پھرتی اساطیر تھے۔
کالم نویسی اور فکشن نگاری میں اپنی مثال آپ ۔ مترجم بھی باکمال ۔ چیخوف کی طویل کہانی The Steppe کا ”گھاس کے میدانوں میں‘‘ کے زیر عنوان ترجمہ کیا، جسے چیخوف کی ہم وطن ڈاکٹر لڈمیلا نے پڑھا، تو پکار اٹھیں: ”یہ تو چیخوف ہی کی کہانی ہے، ترجمے کا گمان ہی نہیں ہوتا۔‘‘
آج ہمیں انتظار صاحب یاد آئے، تو سبب تھا اُن کے قلم سے نکلا معروف فلسطینی صحافی اور ادیب، ایمل حبیبی کے ناول The Secret Life of Saeed کا ترجمہ، یعنی: ”سعید کی پراسرار زندگی‘‘۔ اِس ناول میں اسرائیل کے بڑھتے اثر، عربوں کے سیاسی انتشار کو Satire کے ساتھ، پختہ اسلوب میں گوندھ کر بڑی خوبی سے موضوع بنایا گیا ہے۔ یہ سعید نامی قنوطیت کے شکار ایک نوجوان کا قصہ ہے، جس کی بدقسمت زندگی میں عجیب و غریب، پُر مزاح واقعات رونما ہوتے ہیں۔ ناول پڑھے برسوں ہوئے، مگر سعید آج بھی ذہن میں تازہ ہے۔ شاید وجہ یہ ہو کہ ہم سمیت بیش تر پاکستانی سعید کے مانند قنوطیت کا شکار ہیں۔ ہر بات کا منفی پہلو دیکھنے کے عادی !
ویسے اِس کا ٹھوس جواز بھی ہے۔ ایسا ملک ، جو سات عشروں سے نازک دور سے گزر رہا ہو، معیشت کی ٹانگیں قرضوں کے بوجھ سے کانپ رہی ہوں، جہاں ناخواندگی، ناانصافی اور غربت جیسے امراض پھیل رہے ہوں، 60 ہزار شہری دہشت گردی کا شکار بن چکے ہوں، روز سکول وین حادثات مائوں سے ان کے لخت جگر چھین لیتے ہوں، جہاں گائوں کے باسی جاگیردار، شہروں کے مکین تھانے دار کے ظلم کا شکار ہوں، اُس ملک کے شریف النفس باسیوں کے پاس سوائے قنوطی بننے کے اور کیا راستہ رہ جاتا ہے۔
ایسے میں جب انٹرنیشنل کرکٹ، اپنے شوخ رنگوں کے ساتھ پاکستان لوٹی، اور اِس خوشی میں ملک گیر جشن کا اہتمام کیا گیا، تو ہر قنوطی کی طرح ہمارے ذہن کے کسی کونے میں بھی یہ سوال اُبھرا کہ اِس پوری سرگرمی سے، ریڈیو اور ٹی وی پر جاری مباحثوں سے، ٹوئٹر ٹرینڈز سے، اِن چوکوں چھکوں سے عام آدمی کو بھلا کیا حاصل؟
مگر ہم نے فوراً یہ منفی خیال جھٹک دیا۔ اگرچہ یہ موقف درست ہے کہ آزادی کپ کے انعقاد سے نہ تو عام آدمی کا معیار زندگی بلند ہوا، نہ ہی اِس تجربے نے اُس کے اہل خانہ کی زندگیوں کو مزید محفوظ بنایا، مگر اِس امر سے انکار ممکن نہیں کہ عالمی دنیا میں پاکستان کے امیج کی بہتری میں اِس ٹورنامنٹ نے مثبت کردار ادا کیا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میںکامیابیاں ذرا نمایاں ہوئیں، پاکستان کے محفوظ ملک ہونے کے تصور کو کچھ تقویت ملی‘ تو ورلڈ الیون کے اِس دورے نے ہمارا وقار بحال کر دیا، اور پاکستانیوں کو وہ اعتماد عطا کیا، جس کی اُنھیں اشد ضرورت تھی۔ اس کا کریڈٹ بلاشبہ فوج کو جاتا ہے، جس نے سکیورٹی کو موثر اور اس ایونٹ کے انعقاد کو ممکن بنایا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے بارے میں تحفظات اپنی جگہ، مگر پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی سے متعلق اُس کے اقدامات قابل تعریف ہیں۔ ورلڈ الیون کا شکریہ بھی ہم پر لازم ہے ۔ تو قنوطی ہونے کے باوجود ہمیں ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کے امکانات روشن دکھائی دے رہے ہیں۔ البتہ پاکستان کے سیاسی حالات سے متعلق ہماری مایوسی جوں کی توں ہے۔ ادھر بلا کا جمود ہے صاحب۔
پاکستان میں سیاست اور کرکٹ، دو مقبول ترین موضوعات ہیں۔ اول الذکر زیادہ مقبول ۔ کرکٹ کا تذکرہ تو سیریز اور ٹورنامنٹس کے زمانے تک محدود رہتا ہے، مگر سیاست 365 دن ماحول گرمائے رکھتی ہے۔ کبھی کبھار تو خبروں کی اتنی بہتات ہو جاتی ہے کہ اچھا بھلا آدمی چکرا جائے۔ گو اس وقت بھی خبروں کا تانتا بندھا ہے، حکومت کی جانب سے منصوبوں کا افتتاح کیا جا رہا ہے، روہنگیا پر ہونے والے مظالم کے خلاف دینی جماعتیں ریلیاں نکال رہی ہیں، نیا اپوزیشن لیڈر لانے کی کوششیں جاری ہیں، عمران خان کے خلاف وارنٹ جاری ہو چکے ہیں، چوہدری نثار ناراض ہیں، مگر اِن سرگرمیوں کے باوجود۔۔۔ یہاں تک کہ این اے 120 کے الیکشن کے باوجود، جسے ریفرنڈم بھی کہا گیا، یہ جمود ہنوز قائم ہے۔ اور بدقسمتی سے آنے والے دنوں میں اِس سے نجات کا کوئی فوری امکان دکھائی نہیں دیتا۔
یہ جمود کیا ہے؟ یہ دراصل طاقت کا ڈیڈ لاک ہے۔ حکومت کرنے کے عمل میں پیدا ہونے والا طاقت کا ڈیڈ لاک! اس کا آغاز پاناما کیس میں جے آئی ٹی کی تشکیل سے ہوا تھا۔ میاں صاحب اور ان کے بچوں کی پیشی کے بعد وزراء کے لہجوں میں در آنے والی تلخی دراصل اِسی ڈیڈ لاک کا نتیجہ تھی۔ نااہلی کے فیصلے کے بعد جمود شدید ہو گیا۔ یہاں تک کہ ن لیگ کی جی ٹی روڈ ریلی بھی اِسے توڑنے میں ناکام رہی۔ پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالیں، تو اِس نوع کا جمود کسی بڑے سیاسی سانحے سے عین قبل یا اُس کے فوراً بعد دکھائی دیتا ہے۔ مگر حالیہ جمود یکسر الگ ہے۔ یہ ایک مستقل سانحہ ہے کہ سیاسی نظام قائم ہے، مگر کراچی سے خیبر تک سیاسی جماعتیں اپنی اہمیت و معنویت کھوتی جا رہی ہیں۔
دیکھ لیجیے، کراچی کی سیاسی فضائوں میں اکتاہٹ ہے۔ ایم کیو ایم غیر متعلقہ محسوس ہوتی ہے، اور اندرون سندھ پیپلز پارٹی کا متبادل نہ ہونے کے باعث ووٹر غیر متعلقہ ہو گئے ہیں۔ یہی پی پی ملک کے دیگر صوبوں، بالخصوص پنجاب میں سکڑتی جا رہی ہے۔ بلوچستان میں تو برسوں سے ٹھہرائو ہے۔ پھر وہاں کے حالات سے اکثریت بے خبر ہے۔ اے این پی کی فاٹا پر اے پی سی کے باوجود خیبر پختون خوا میں بھی کوئی خاص ہل چل نہیں۔ ہمیشہ کی طرح اب بھی پنجاب سیاست کا محور ہے۔ ادھر مقابلہ ن لیگ اور تحریک انصاف میں ہے۔ وزیر اعظم کے نااہل ہونے کے بعد پی ٹی آئی میں جو اعتماد نظر آرہا تھا، اُس میں کمی آئی ہے۔ معروف چہروں کی شمولیت کے باوجود یوں لگتا ہے، یہ جماعت آج بھی اُسی مقام پر ہے، جہاں کل تھی۔ جلسے جلوسوں میں پہلے جیسی چمک نہیں رہی۔ ووٹ بینک میں فوری اضافہ ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ اگلا الیکشن اِس کے لیے بڑا چیلنج ثابت ہو سکتا ہے۔
اِس آسیبی جمود کا اصل شکار ن لیگ ہے۔ یکم اگست کو‘ جب وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے حلف لینے کے بعد‘ نواز شریف کو حقیقی وزیر اعظم ٹھہرایا تھا، تب ہی اِس کی ابتدائی نشانیاں دکھائی دینے لگی تھیں۔ اسی بیان کا اعادہ انھوں نے ڈیرہ بگٹی میں یہ کہہ کر کیا: حق تو یہ ہے کہ یہاں نواز شریف کو ہونا چاہیے تھا۔ نظر ثانی کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں، میاں صاحب کی سیاسی وراثت کا معاملہ موضوعِ بحث ہے۔ چیزیں بہ ظاہر سادہ، مگر اندرون خانہ الجھی ہوئی ہیں۔ اچھا، صرف ن لیگ کی حکومت نہیں، پورا سول ڈھانچہ کمزور پڑتا جا رہا ہے۔ اگر کوئی غیرمتوقع تبدیلی نہیں آئی، تو یہ صورت حال نہ صرف اگلے انتخابات کے انعقاد تک، بلکہ انتخابات کے بعد بھی قائم رہ سکتی ہے‘ اور یہ تشویش ناک ہے۔ پاکستان کا مستقبل جمہوریت سے وابستہ ہے۔ یہ سیاسی نظام ہی ہے، جس کے ذریعے وہ افراد سامنے آتے ہیں، جو سول ڈھانچے کو فعال اور موثر بناتے ہیں۔ اِن افراد کا بااعتماد اور عوام میں قابلِ بھروسا ہونا ضروری ہے، اور موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے مستقبل میں ایسے افراد کا سامنے آنا ذرا مشکل معلوم ہوتا ہے، جو اعتماد کے ساتھ احتساب کی چھلنی سے گزر کر خود کو قابل بھروسا اور ایمان دار ثابت کر سکیں۔ اور میرے خیال میں یہ امر سیاسی نظام کی کمزوری کا سبب بنے گا۔
اِس جمود کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما ہیں؟ غیرملکی سازش کا الزام افسانوی لگتا ہے۔ ادھر حکومتی وزراء بارہا کہہ چکے کہ کوئی ملکی ادارہ سول حکومت کے خلاف سازش نہیں کر رہا ہے۔ اگر اِس موقف کو درست مان لیں، تو پھر ہمیں حالیہ صورت حال کو یا تو سیاست دانوں کی بدقسمتی قرار دینا پڑے گا‘ یا پھر تاریخ کا جبر۔ اور دونوں ہی صورتوں میں قنوطیت میں فقط اضافہ ہو ہی گا۔