منتخب کردہ کالم

سیاستدان اور بچوں کے ڈائپرز .. کالم بلال غوری

سیاستدان اور بچوں کے ڈائپرز .. کالم بلال غوری

سیاستدان اور بچوں کے ڈائپرز بدلتے رہنا ضروری ہے ورنہ ہر دو صورتوں میں نتائج ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ (امریکی مزاح نگار اور مصنف مارک ٹوئن)
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک اپنی حکومت کی کارکردگی بیان کر چکے تو میں نے بصد احترام عرض کیا ”جب لاہور میں میٹرو منصوبہ زیر تکمیل تھا تو تحریک انصاف نے اس پر جنگلا بس کی پھبتی کسی اور یہ موقف اختیار کیا کہ قوم کو بسوں، سڑکوں اور پلوں کی حاجت نہیں بلکہ صحت اور تعلیم کی ضرورت ہے۔ آج بھی آپ کی گفتگو کا نچوڑ یہی ہے کہ تحریک انصاف نے صحت و تعلیم پر توجہ مرکوز کئے رکھی ہے۔ میں یہ سوال تو نہیں کرتا کہ آپ نے پشاور میں جنگلا بس چلانے کا فیصلہ کیوں کیا لیکن یہ پوچھنے کی جسارت ضرور کروں گا کہ چار سال کے دوران پشاور میں لیڈی ریڈنگ ہسپتال جیسا کوئی ایک منصوبہ بھی آپ مکمل کر پائے؟‘‘ سوال گندم جواب چنا کے مصداق انہوں نے یہ بتانا شروع کر دیا کہ ایل آر ایچ میں توسیع کی گئی ہے، نئے ڈاکٹرز بھرتی کئے گئے ہیں۔ میں ایک بار پھر مخل ہوا کہ صحت اور تعلیم آپ کی پہلی ترجیح تھی‘ مگر یہ کل رات کی بات ہے کہ خیبر پختونخوا کے معروف آرٹسٹ افتخار قیصر بیڈ دستیاب نہ ہونے کے باعث رات بھر فرش پر لیٹے رہے۔ سوالات کی تکرار بڑھتی گئی تو پرویز خٹک کے پہلو میں بیٹھے صوبائی وزیر اطلاعات شاہ فرمان بدمزہ ہونے لگے اور مشتعل ہو کر کہا ”ہم نے جو کام کئے وہ نمائشی اور دکھاوے والے نہیں ہیں، ہم نے بلین ٹری سونامی کا منصوبہ مکمل کیا اب اس کا فیتہ کیسے کاٹیں؟ ہم نے پولیس کا نظام ٹھیک
کر دیا، اب اس کا افتتاح کیسے کریں؟ ہم تعلیم کے میدان میں تبدیلی لائے اب اس کا فیتہ کہاں کاٹیں‘‘۔ بعد ازاں کھانے کی میز پر صوبائی سیکرٹری اطلاعات ارشد مجید اور ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز سید امیر حسین سے گپ شپ ہوئی تو ان کا بھی یہی اصرار تھا کہ جس قدر دعویٰ کیا جا رہا ہے اتنی نہیں مگر تبدیلی ضرور آئی ہے اور گورننس کا نظام بہتر ہوا ہے۔ مگر میں اس مرتبہ بھی بھرپور کوشش کے باجود اس مبینہ تبدیلی کے دیدار سے محروم رہا۔ تحریکِ انصاف کی صوبائی حکومت نے ہر وہ کام کیا جس پر ماضی میں یہ لوگ تنقید کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے فیتے کاٹنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ”گھر آیا استاد‘‘ اور ”زمنگ کور‘‘ جیسے نئے منصوبے شروع کئے گئے۔ آج بھی پشاور کے مقامی اخبار میں ایک تصویر شائع ہوئی ہے‘ جس میں شاہ فرمان کو متنی روڈ کا افتتاحی فیتہ کاٹتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے‘ لیکن شاید یہ فیتے ایسے نہیں کہ ان کی بنیاد پر عوام سے دوبارہ ووٹ مانگا جا سکے۔ انہوں نے میٹرو بس کے منصوبے پر تنقید کی، ماڈل پولیس سٹیشن اور ٹریفک وارڈنز کے منصوبوں پر اعتراضات اٹھائے مگر اب یہ سب کام وہاں ہو رہے ہیں۔ لاہور کے طرز پر سیف سٹی پراجیکٹ شروع کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ جب اخبارات اور ٹی وی چینلز کے اشتہارات میں وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی تصویر شائع ہوتی تھی تو کہا جاتا تھا کہ قومی خزانہ ذاتی تشہیر پر خرچ کیا جا رہا ہے مگر اب نہ صرف وزیر اعلیٰ پرویز خٹک بلکہ پارٹی چیئرمین عمران خان کی تصاویر بھی سرکاری اشتہارات کی زینت بنتی ہیں۔ انتخابی منشور میں کہا گیا کہ ہم نوے دنوں میں کرپشن کا خاتمہ کر دیں گے‘ مگر آج چار سال بھی بعد نہ صرف احتساب کمیشن غیر فعال ہے بلکہ حکومت پر بھی بدعنوانی کے الزامات کی بھرمار ہے۔ ضیاء اللہ آفریدی اور عائشہ گلالئی کے الزامات کو سیاسی مخالفت قرار دیتے ہوئے سنجیدگی سے نہ بھی لیا جائے تو سٹریٹ چلڈرن کے لئے بنائے گئے ادارے ”زمنگ کور‘‘ کے ڈائریکٹر کے الزامات کو کیا نام دیا جائے؟ میجر حارث خٹک‘ جن کی بے
سہارا بچوں سے والہانہ محبت کے مناظر ہم سب ٹی وی چینلز پر دیکھ چکے ہیں‘ نے بورڈ آف گورنز پر کرپشن کے الزامات عائد کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا اور بچے ان سے لپٹ کر روتے، بلکتے رہے۔
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک فرماتے ہیں کہ ہم نے میرٹ پر لوگوں کو ملازمتیں دیں۔ این ٹی ایس کے ذریعے بھرتیاں کی گئیں۔ اقربا پروری اور رشوت کو آڑے نہیں آنے دیا گیا۔ اول تو این ٹی ایس کا نظام ہی متنازعہ اور مشکوک ہے اور اس پر خیبر پختونخوا اسمبلی میں بھی سنجیدہ نوعیت کے سوالات اور اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔ ایک نجی تعلیمی ادارے نے 2003ء میں این ٹی ایس کی بنیاد رکھی اور تاحال یہ واضح نہیں کہ یہ نجی ادارہ ہے یا اسے سرکاری ادارے کی حیثیت دے دی گئی ہے۔ یہ ادارہ اربوں روپے کما رہا ہے۔ وہ کس کی جیب میں جاتے ہیں‘ کچھ واضح نہیں۔ آئے روز مجھے طلبہ و طالبات کی طرف سے این ٹی ایس کی بے قاعدگیوں کے حوالے سے ای میلز موصول ہوتی ہیں۔ اس معاملے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ حکومت این ٹی ایس کے ذریعے چالیس ہزار نئے ٹیچر بھرتی کرنے کا کریڈٹ تو لیتی ہے مگر تین سال گزرنے کے باوجود ان ٹیچرز کو مستقل نہیں کیا گیا‘ اور ایڈہاک بیسز پر بھرتی ہونے والے ان ٹیچرز کے استحصال کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تعلیم کا شعبہ حکومت کی اولین ترجیح ہے اور سب سے زیادہ بجٹ تعلیم کے لئے مختص کیا گیا ہے‘ مگر خیبر پختونخوا کے ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے حال ہی میں 722 ملین روپے کی خطیر رقم خرچ کرکے جو سروے کروایا ہے‘ اس کے مطابق پانچ سے سولہ سال تک کی عمر کے پندرہ لاکھ بچے تعلیم کی سہولت سے محروم ہیں۔ خیبر پختونخوا حکومت کی دوسری ترجیح صحت کا شعبہ تھا‘ اور میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ صوبائی دارالحکومت میں کوئی ایک بھی بڑا ہاسپٹل نہیں بنایا جا سکا۔ ڈینگی کے حوالے سے حکام کی غفلت کے باعث اب تک سرکاری تصدیق یافتہ اعداد و شمار کے مطابق بیس افراد ہلاک ہو چکے ہیں‘ جبکہ آزاد ذرائع کے مطابق مرنے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ بات نہایت فخر سے بتائی جاتی ہے کہ ہم نے سب سے پہلے بلدیاتی الیکشن کروائے مگر خود عمران خان یہ بات تسلیم کر چکے ہیں کہ بلدیاتی اداروں کو چلنے نہیں دیا جا رہا۔ خیبر پختونخوا لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے تحت یہ قانون سازی کی گئی کہ تیس فیصد ترقیاتی بجٹ بلدیاتی اداروں کے لیئے مختص کیا جائے گا‘ لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ کوہستان کے لئے مختص کئے گئے ترقیاتی فنڈز جن کا تخمینہ 928 ملین روپے بنتا ہے، تادم تحریر ان میں سے ایک پائی بھی خرچ نہیں کی جا سکی۔
پولیس کے نظام بھی کسی حد تک بہتری کے آثار نظر آتے ہیں اور اس حوالے سے آئندہ کسی کالم میں بات ہو گی تاہم تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کا المیہ یہ ہے کہ انہوں نے ابتدائی چند برس اپنی ناتجربہ کاری کے باعث یہ کہتے ہوئے ضائع کر دیئے کہ ہمارا کام تو قانون سازی کرنا ہے اور بلا مبالغہ قانون سازی کے حوالے سے خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی کا ریکارڈ بہت بہتر رہا‘ لیکن انہیں یہ بات بہت دیر سے سمجھ آئی کہ ہمارے ہاں منتخب نمائندہ محض قانون ساز نہیں ہوتا بلکہ ہر فن مولا ہوتا ہے‘ اور اسے ووٹ لینے کے لئے کئی پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ انہیں اس حقیقت کا اِدراک کرنے میں بھی بہت وقت لگا کی یہ نیکی کرکے دریا میں ڈالنے والا دور نہیں‘ بلکہ پراپیگنڈے، ابلاغ اور تشہیر کا زمانہ ہے‘ اور محض سوشل میڈیا پر تبدیلی برپا کرنے سے بات نہیں بنے گی۔ بہرحال امریکی مزاح نگار مارک ٹوئن کا جو قول کالم کے آغاز میں نقل کیا گیا، کسی اور کو سمجھ آئے یا نہ آئے خیبر پختونخوا کے باسیوں کو نہ صرف اس کا فہم ہے‘ بلکہ وہ اس پر عمل کرکے بھی دکھاتے ہیں۔