سیاست اور اندھی عقیدت…حسنین جمال
پنجاب کی ایک تحصیل میں ٹھیک پینتیس برس پہلے ایک لڑکی رہا کرتی تھی۔ اس کے والد ملک سے باہر نوکری کرتے تھے۔ لوگ محسوس کرتے تھے کہ یہ لڑکی اپنے خوابوں کے حوالے سے جو بات بھی بتاتی ہے وہ ٹھیک نکلتی ہے۔ جیسا کہ ایسے معاملات میں ہوتا ہے، لڑکی میں پائی جانے والی اس صلاحیت کے چرچے دور دور تک پھیل گئے۔ سائل اس کے پاس مختلف سوالات لے کر آتے اور جو کچھ وہ بتاتی اسی طرح مسائل کو حل کرنے کی کوشش کیا کرتے۔ آس پاس کے لوگوں نے جب دیکھا کہ پتہ نہیں کہاں کہاں سے عقیدت مند آ کر اس لڑکی کو ملتے ہیں اور اس کی بات مان کے فائدے بھی حاصل کرتے ہیں تو وہ سب بھی دھیرے دھیرے اس کے معتقد ہوتے چلے گئے۔ دو برس بعد یہ خاندان آس پاس کے علاقوں میں روحانی طور پہ بہت مستند اور فعال سمجھا جانے لگا اور ان کے فالوورز میں اچھے خاصے لوگ شامل ہو چکے تھے۔ اس دوران لڑکی کے والد چار برس باہر گزار کے واپس آ چکے تھے اور آتے ہی انہوں نے ایک عبادت گاہ بنوانی بھی شروع کر دی۔
ایک دن لڑکی نے گھر والوں سے کہا کہ مجھے فلاں ہستی کی زیارت خواب میں ہوئی ہے اور انہوں نے مجھے ہدایت کی ہے کہ ہم سب سمندر کے راستے بارڈر پار موجود اس مقدس مقام پہ جائیں جو ہمارے عقیدے کے مطابق بہت برکتوں والا ہے۔ لیکن انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ سمندر پار کے اس سفر میں تم نے کوئی سواری استعمال نہیں کرنی۔ تم لوگ جیسے ہی سمندر کے پاس جاؤ گے تو وہ خود تمہیں راستہ دے دے گا اور تم سب کے سب لوگ پیدل سمندر کے بیچوں بیچ چلتے ہوئے اس ملک پہنچ جانا جہاں برکتوں والا وہ مقام ہے۔ جن کے پاس کوئی وسیلہ نہیں ہے، زیارت کرنے کے پیسے نہیں ہیں، ان سب لوگوں کو اس راستے سے لے جاؤ۔ اس واقعے سے پہلے یہی ہدایت اس لڑکی کو ایک گمنام آواز کی طرف سے بھی آتی تھی، پھر کمرے کی دیوار پہ چند ایسے نشانات بھی پائے گئے جنہیں اہل علاقہ نے کرامت سمجھا۔ اب جو خواب اور بشارت والا معاملہ ہوا تو ہر ایک شخص اس بات پر کامل یقین کرنے کے لیے تیار تھا۔
کہانی میں ایک کردار اس شخص کا بھی تھا جو علاقے والوں میں اچھا مذہبی لیڈر سمجھا جاتا تھا۔ خواب میں جب جب بشارتیں ہوتی تھیں ان میں خاص طور سے اس شخص کا بھی ذکر ہوتا اور ہر بار کہا جاتا کہ اسے اتنے روپے یا ٹی وی یا فریج کچھ بھی تحفے کے طور پہ ہدیہ کر دیا جائے۔ یہاں تک کہ ایک مرتبہ خواب دیکھنے کے بعد اسے بیس ہزار روپے پہنچائے گئے تاکہ وہ بشارت کے مطابق علاقے والوں کے لیے کریانے کی دکان کھول سکے۔ علاقے کے لوگوں نے جب یہ معاملہ اس برگزیدہ بندے کے سامنے پہنچایا تو اس نے بھی فل ٹائم او کے کر دیا۔ اس نے گواہی دی کہ یہ خواب سچا ہے اور جو شخص جانا چاہے وہ اس مقدس سفر پہ روانہ ہو سکتا ہے۔ ہاں، اس نے خود جانے سے بالکل انکار کر دیا کیونکہ ابھی تو اسے دکان کھولے ایک مہینہ بھی نہیں ہوا تھا۔ کاروبار کو اس کی ضرورت تھی۔
خواب کی مخالفت کرنے والا واحد گروہ وہ تھا جسے لڑکی اور اس کے والد پہلے ہی کم عقیدہ قرار دے چکے تھے اور ان کا سٹیٹس نان بیلیورز والا کیا جا چکا تھا۔ ہوا یوں کہ خواب دیکھ کے جب سگے چچا سے ان کا مکان مانگا گیا، کسی رشتہ دار سے کوئی زمین کا ٹکڑا لینے کی کوشش ہوئی تو انہوں نے دینے سے چٹا انکار کر دیا۔ اب انکار کا مطلب مقدس لڑکی کے مقام کو چیلنج کرنا تھا، تو بس وہ گروہ باغی گروپ کہلاتا تھا۔ وہ لوگ ہر جگہ پروپیگنڈا کرتے کہ لڑکی اور اس کا باپ ڈرامے باز ہیں اور ایویں عقیدے کے نام پہ لوگوں کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔
سمندر والی خواب کہانی پہ یقین ظاہر کرنے والا سب سے پہلا فرد لڑکی کا باپ تھا۔ اس کے بعد اکتالیس بندے اور تھے جن میں سترہ مرید اور باقی خاندان والے تھے۔ بیالیس بندوں کا یہ قافلہ ضروری سامان ساتھ لیے ساحل پہ جا پہنچا۔ آدھی رات کو عورتیں اور بچے ٹن کے بڑے بکسوں میں بند کیے گئے۔ یہ بھی بشارت کا ایک پارٹ تھا کہ عورتیں اور بچے بکسوں میں بند کر کے سمندر کی لہروں کے سپرد کر دئیے جائیں گے اور سمندر انہیں خود دوسرے کنارے تک پہنچا دے گا۔ بیالیس میں سے چار لوگ ڈر گئے۔ ان کے ڈرنے کو بھی یہی رنگ دیا گیا کہ جس نے جانے کی راہ دکھائی ہے وہی انہیں نہ جانے کا راستہ دکھا رہا ہے۔ فراخدلی سے اجازت دی گئی اور وہ لوگ واپس چلے گئے۔ ٹن کے بڑے صندوق عورتوں بچوں سمیت پانی میں بہا کے لڑکی کا باپ اور باقی لوگ پیدل سمندر کے سفر پہ روانہ ہو گئے۔
صبح جب پولیس اور میڈیا والے آئے تو انہوں نے دیکھا کہ بہائے گئے چھ صندوقوں میں سے ایک کسی طرح تیرتا رہا اور بچ گیا، جبکہ باقی پانچ صندوق اور اندر موجود سب لوگ ڈوب چکے تھے۔ جو مرد پیدل چلنے کے چکر میں سمندر کے اندر اترے تھے ان میں سے بھی کچھ کو لہروں نے واپس دھکیل دیا، وہ پیٹ میں پانی لیے باہر پڑے تھے۔ لڑکی ڈوب چکی تھی۔ چھ سات بچ جانے والوں میں لڑکی کا باپ بھی شامل تھا۔ انہیں ریاست نے گرفتار کیا لیکن کچھ عرصے بعد وہ چھوڑ دئیے گئے۔ دو تین ماہ بعد لڑکی کا باپ جو بچ گیا تھا اسے ایک سٹیج شو میں بلایا گیا۔ وہاں بیٹھے ہوئے بھی وہ اس خواب، اس بشارت اور اس واقعے کے حق پر ہونے کی گواہی دے رہا تھا۔ یہ عقیدہ ہوتا ہے، یہی عقیدت ہوتی ہے۔
ہم لوگ شروع سے اسی عقیدت کو سیاست میں استعمال کرتے آئے ہیں۔ جہاں کسی سیاسی حکومت کو ان سٹیبل کرنا ہے، کوئی بات منوانی ہے وہاں کوئی صاحب باہر سے آ جائیں گے، کوئی صاحب کسی سڑک یا کسی دربار کے باہر دھرنا دے دیں گے، کسی دوسرے مذہبی گروپ کا احتجاج شروع ہو جائے گا یا پھر ایسا ہی کوئی بھی مسئلہ اچانک سر اٹھا لے گا جس کی انتہا ملک بند ہونے کی شکل میں دکھائی دے گی۔ جو عقیدت صندوق میں بند بیوی بچوں کو سمندر میں بہا سکتی ہے، جو جذبہ اپنی جان کو سمندر کے حوالے کروا سکتا ہے اس کے لیے سڑکیں بند کرنا یا جلاؤ گھیراؤ کرنا کون سا مشکل ہے؟ یہ کام سیاسی کارکن نہیں کر سکتے، انہیں احتجاج کے لیے سالڈ وجہ چاہئے ہوتی ہے۔ پیری مریدی میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ کام کروانے والے بھی شیخ کا مرتبہ جانتے ہیں کام کرنے والے بھی دل و جان شیخ پہ نثار کرتے ہیں۔ تو یہ فارمولا کم خرچ بالا نشین قرار پاتا ہے۔ ایک تو گارنٹی ہوتی ہے کہ بندے بھاگیں گے نہیں، دوسرا یہ کہ سیاست دانوں کی نسبت مذہبی رہنمائوں سے معاملہ سلجھانا آسان ہوتا ہے۔ وہ کمٹمنٹ کے پکے ہوتے ہیں اور کہیں کنی نہیں کھاتے۔ تیسری بات یہ کہ ایسے ہجوم پر پولیٹیکل گورنمنٹ بھی ہاتھ ہولا رکھنے کے لیے مجبور ہوتی ہے۔ پاکستان کی ہر سیاسی حکومت ایسے کسی نہ کسی بحران سے گزری ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ جتنا مرضی سلیقے سے ڈیل کیا گیا، بحران اپنی پوری قیمت لے کر ٹلا۔ وہ سارے پرانے لیکن سچے قصے دہرانے کی بجائے بہتر یہ لگا کہ ایک نئی سچی کہانی سنا دیا جائے سو وہ اوپر لکھ دی۔
آپ لاکھ ووٹ کی عزت کا ڈھول پیٹتے رہیں، ووٹروں کی حرمت، مینڈیٹ اور منتخب سیاسی حکومت کے نوحے پڑھتے رہیں، ہر دور میں جب بھی کوئی مضبوط سیاسی حکومت بنے گی اس کا پہلا ٹکراؤ ایسے ہی کسی پریشر گروپ سے ہو گا۔ کیا سیاستدان اسے مسئلہ نہیں سمجھتے یا مسئلے کو گمبھیر سمجھتے ہوئے اس کا حل نہیں چاہتے؟ بات صرف اتنی ہے کہ ووٹ کی حرمت کا پاس رکھنے والا بھی ان لوگوں سے ڈرتا ہے، جو پاس نہیں رکھتے وہ بھی ان سے خوف کھاتے ہیں۔ جب تک کوئی قانون ایسا پاس نہیں ہوتا جو اس طرح کی موقع پرور حرکتیں روک سکے تب تک صحیح والی جمہوریت دور است