منتخب کردہ کالم

سیاست دانوں کی چراگاہ (ناتمام) ہارون رشید

اسے وہ ”جمہوریت کا حسن‘‘ کہتے ہیں‘ اخلاق اور اصولوں سے تہی‘ الیکشن اور ووٹنگ کی شعبدہ بازی۔
اخبار سامنے ہے‘ رکوڈک کے باب میں‘ عالمی ٹربیونل میں مقدمے کی اس میں تفصیلات ہیں۔ ارادہ یہ تھا کہ بلوچستان‘ سوات اور ملک کے دوسرے حصوں میں‘ لوہے‘ تانبے‘ سونے اور ان سے بھی زیادہ قیمتی معدنیات پر لکھا جائے۔ ملک کا معاشی مستقبل جو بدل سکتی ہیں۔ 500 ملین ڈالر میں‘ کم از کم 500 ارب ڈالر کے ذخائر‘ ایک کمپنی کے سپرد کرنے کی کوشش کی گئی۔ سینیٹر اعظم سواتی نے‘ اخبار نویس اکثر جن سے ناانصافی کرتے ہیں‘ جہاد کا علم اٹھایا تو ان کی تھوڑی سی مدد ناچیز نے بھی کی ۔ فقط اخبار اور ٹی وی پر نہیں۔ اس سے کچھ زیادہ ۔پھر ایک ممتاز اور معروف امریکی کمپنی کے ڈائریکٹر نے رابطہ کیا۔ 22 ماہ تک یہ رابطہ برقرار رہا۔ اس کے نتیجے میں ایک فیصلہ شاید صادر ہو جاتا۔ جن صاحب سے بات کی‘ آخری وقت پر ارادہ انہوں نے تبدیل کر لیا۔ کاروباری اعتبار سے دیانت دار‘ ان کا کہنا یہ تھا کہ وزیراعظم سے ان کا ذاتی تعلق ہے۔ ممکن ہے کہ غلط طور پر تہمت لگائی جائے۔ وہ یہ بوجھ نہیں اٹھا سکتے۔ دلیل چونکہ درست تھی، لہٰذا اتفاق کے سوا چارہ نہ تھا۔
اس کہانی کے اور بھی کئی دلچسپ‘ سبق آموز پہلو ہیں… لکھنے کو جی بے تاب ہو رہا ہے‘ سامنے ٹی وی پر مگر یوسف رضا گیلانی تشریف فرما ہیں۔ ایک غیر ذمہ دار اور لاا بالی آدمی‘ قومی سطح پر جو ہمارے ذہنی اور اخلاقی افلاس کی علامت ہیں۔ اس معاشرے سے زیادہ کون بدقسمت ہو گا‘ ایسے لوگ جہاں اعلیٰ ترین مناصب پر جا پہنچیں۔ انہیں دیکھو تو خیال آتا ہے کہ خرابی فقط سیاست میں نہیں‘ ہر میدان میں پستی اور الجھائو ہیں۔ اس قدر کہ ان سے نجات نہ پائی گئی توزوال کا سفر جاری رہے گا۔ خرابی تو پہلے ہی بہت ہے‘ پھر یہ سماج‘ جنگل سا ہو جائے گا۔ کسی کی جان‘ مال اور آبرو جہاں محفوظ نہ ہو گی۔
سات برس ہوتے ہیں۔ صبح سویرے ایک دن فون کی گھنٹی بجی۔ غلطی سے کھلا رہ گیا تھا۔ دوسری جانب گیلانی تھے۔ کہا : آپ سے ملنا چاہتا ہوں‘ کل یا پرسوں آ جائیے۔ عرض کیا : آج تو یہ ممکن ہے‘ کل یا پرسوں کے بارے میں وثوق سے کچھ عرض نہیں کر سکتا۔ شام چھ بجے کا وقت طے ہوا۔ ڈاکٹر معید پیرزادہ کے ساتھ پروگرام کی ریکارڈنگ پہلے سے طے تھی۔ ٹھیک چھ بجے تک جو جاری رہتی۔ عرض کیا کہ پندرہ منٹ پہلے فارغ کر دیجئے گا۔ وعدہ تو ڈاکٹر صاحب نے کر لیا مگر وہ پیرزادہ ہی کیا‘ اپنی بات منوانے پر جو اصرار نہ کرے۔ مکالمہ اس وقت‘ دلچسپ مرحلے میں تھا۔ بضد‘ انہوں نے مجھے روکے رکھا۔ پرائم منسٹر ہائوس پہنچا تو بتایا گیا کہ انتظار کر کے وزیراعظم جا چکے۔ گزارش کہ اطلاع کر دیجئے۔ تشریف لا سکیں تو احسان مند ہوں گا‘ غلطی اگرچہ میری ہے۔
لپک کر وہ آئے نہ صرف معذرت قبول کی بلکہ خوش دلی سے یہ بھی کہا : دیر سویر ہو جاتی ہے‘ اس کی ضرورت کیا ہے۔ ایوان وزیراعظم کا تربیت یافتہ ویٹر‘ اتنا بڑا خوان (ٹرے) اٹھائے ہوئے آیا کہ حیرت ہوئی۔ اس نے تھام کیسے رکھا ہے‘ خورونوش کی ان گنت اقسام سے اٹا ہوا۔ معذرت کی اور عرض کیا کہ صرف چائے کا ایک کپ پی سکتا ہوں۔
غلام اسحاق خان یاد آئے۔ چائے کے لیے ہمیشہ نہ پوچھتے۔ پیش کی جاتی تو اس کے علاوہ صرف ایک چھوٹا سموسہ‘ ایک چھوٹی سی گلاب جامن۔ تکلف کے تحت بھی کوئی انکار کرے تو دوسری بار ہرگز نہ پوچھتے۔ اوّل تو ایوان صدر منتقل ہونے پر آمادہ ہی نہ تھے‘ ایف سکس ون میں اپنے گھر پہ مقیم رہنے کے آرزومند۔ جنرل مرزا اسلم بیگ اور جنرل حمید گل نے اصرار کیا تو آئے۔ پہلے دن ہی وسیع و عریض برآمدوں اور بالکنیوں پر جگمگاتی سینکڑوں ہزاروں بتیاں بجھاتے ہوئے پائے گئے۔ اسی روز ایوان صدر میں موجود 600کاریں واپس کر دیں‘ جو جنرل محمد ضیاء الحق کے عہد میں افسروں اور ان سے زیادہ مہمانوں کے استعمال میں رہا کرتیں۔ دوسرے دن کھانے پکتے دیکھا تو متوحش ہو کر بولے : یہ کیا ہو رہا ہے؟ بتایا گیا :سٹاف کے لیے! کہا : کیا انہیں تنخواہ نہیں ملتی؟…میزبان کو طلب کیا گیا‘ جسے Comptroller کہا جاتا ہے۔ تفصیلات پوچھیں تو معلوم ہوا کہ روزانہ ایک لاکھ روپے مہمان نوازی پہ اٹھ جاتے ہیں‘ تقریباً آج کے بیس لاکھ روپے ۔ فائل منگائی ور اس پر لکھا : “Not more than one Thousand rupees a day” ایک ہزار روپے روزانہ سے زیادہ نہیں۔ صاحبزادے اور دامادوں کی حوصلہ شکنی کرتے کہ صدارتی محل کا فون استعمال کریں۔
وہ لوگ کیا ہوئے؟ غلام اسحاق خاں‘ اجلال حیدر زیدی اور جناب صدر کے پرنسپل سیکرٹری فضل الرحمن۔ صاحب علم و ادراک‘ امین اور صداقت شعار‘ ہنر آشنا اور ریاضت کیش۔ اب جناب زرداری ہیں‘ حضرت میاں محمد نوازشریف ہیں‘ فواد حسن فواد ہیں۔ یہ بھی گوارا مگر رحمن ملک بھی ہیں۔ اپنی ہری نکٹائی اور ذہنی و لسانی افلاس کے ساتھ اگر کسی دن وزیراعظم ہو جائیں تو ہم لوگ کیا کریں گے؟
جمہوریت بجا اور سیاست برحق مگر اخلاق بھی کوئی چیز ہے کہ نہیں۔ مارشل لاء ظاہر ہے کہ کوئی نظام نہیں۔ فوج کا کام ملک کا دفاع ہے‘ نظم و نسق نہیں۔ فوجی اقتدار کا مطلب ہے‘ پوری قوم کی صلاحیت پر اظہارِ عدم اعتماد۔ ملک کوبے مہر افسر شاہی کے سپرد بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی رہنمائی اور نگرانی ضروری ہے۔ لیکن نام نہاد جمہوری قیادت اگر اصولوں کو پامال کرنے پر اتر آئے؟ ملک کا وزیراعظم‘ وزراء گرامی قدر اور وزراء اعلیٰ ذاتی کاروبار میں اگر مگن رہیں؟ اپنی پارٹیوں کو جیب میں رکھیں‘اپنی مرضی کے افسروں کا تقرر کریں۔ اپنے اور اپنے دوستوں کے مفادات کی آبیاری کرنے والی پالیسیاں تشکیل دیں؟
تازہ ترین افواہ یہ ہے : پنجاب پولیس کی وردی بدلنے کا فیصلہ روپیہ کمانے کا ایک حربہ ہے۔ انیس ارب روپے اس پر اٹھیں گے۔ اس کا ٹھیکہ وزیراعظم کے ذاتی دوست‘ پاکستان کے مشہور صنعت کار کی ملز کو دیا گیا ہے۔ نئی وردی کی کسی نے ایک تصویر بھیجی ہے‘ ان کے کارخانے کا نشان‘ جس پر واضح ہے۔ کیا واقعی ایسا ہوا؟ آئی جی مشتاق سکھیرا کو بتانا چاہیے۔ پنجاب حکومت کو وضاحت کرنی چاہیے۔ اقتدار ایک امانت کے طورپر آپ کو دیا گیا ہے۔ کھیل تماشے کے لیے ہرگز نہیں۔ کس قدر مضحکہ خیز جواز ہے : لوگ پولیس سے نالاں ہیں۔ رائج وردی اس کی علامت ہے؛ چنانچہ بدل ڈالی جائے۔ خلق کو اس وردی سے کراہت ہے یا انداز کار سے؟ پھر یہ کہ مجرم پولیس نہیں‘ اس کی رہنمائی کرنے والے سیاستدان ہیں۔ پختونخوا میں سیاسی مداخلت بند کر دی گئی ۔ خوں آشام پٹواریوں کی نگرانی کا نظام بنا دیا گیا۔ غیر جانبدار اخبار نویس یہ کہتے ہیں کہ تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کا حال بھی بہتر ہے۔
میاں محمد نوازشریف اور جناب شہبازشریف‘ پنجاب میں کیوں ایسا نہیں کر سکتے۔ ان کی تمام توجہ اس پر ہے کہ حضرت مولانا فضل الرحمن‘ اسفندیار ولی‘ شیرپائو اور ممکن ہو تو جماعت اسلامی کی مدد سے‘ تحریک انصاف کو اکھاڑ پھینکا جائے۔ اکرم درانی ایسے لوگ مسلط کر دیئے جائیں۔ دانائوں کو اندازہ نہیں کہ عمران خان کو حکومتی ذمہ داریوں سے سبکدوش کرنے کا نتیجہ کیا ہو گا۔ جوڑ توڑ سے بننے والی نئی حکومت کرپشن اور بدنظمی کو فروغ دے گی۔ اس پر عوامی طوفان اٹھا تو ہرچیز خس وخاشاک کی طرح بہہ جائے گی۔ سیاست صرف ووٹ سمیٹنے کا نام نہیں‘ بہت سی چیزوں کو ملحوظ رکھنا ہوتا ہے۔ جہاں تک جناب گیلانی کے ارشادات کا تعلق ہے‘ ایک طرح سے جرم کا اعتراف انہوں نے کر لیا ہے۔ ویزہ پالیسی مرتب کرنا دفتر خارجہ کا کام ہے‘ وزیراعظم کا نہیں۔ قومی سلامتی کے تقاضوں کی نگرانی‘ وزارت داخلہ اور خفیہ ایجنسیاں کرتی ہیں۔ گیلانی کو یہ حق کس نے دیا تھا کہ مشکوک حسین حقانی کو اختیار سونپیں۔ پنجابی میں کہتے ہیں ”پیسے کا پتّر‘‘
وزیراعظم جناب یوسف رضا گیلانی کے خلاف کارروائی کا حکم ہرگز نہ دیں گے۔ کارروائی کیا‘ تحقیقات بھی نہیںجنرلوں کی نہیں‘ پاکستان آج کل سیاست دانوں کی چراگاہ ہے۔ اسے وہ ”جمہوریت کا حسن‘‘ کہتے ہیں‘ اخلاق اور اصولوں سے تہی‘ الیکشن اور ووٹنگ کی شعبدہ بازی۔