منتخب کردہ کالم

سیاست پر دروازے کیسے بند ہو سکتے ہیں۔۔مزمل سہروردی

سیاست پر دروازے کیسے بند ہو سکتے ہیں۔۔مزمل سہروردی

مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ ہم پاکستان کو بطور ریاست کیسا بنانا چاہتے ہیں۔ چلیں یہ مان لیتے ہیں کہ انتہا پسند اس کو انتہا پسند جماعت بنانا چاہتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ لبرل اور پروگریسو اس کو کیسا بنانا چاہتے ہیں۔ یہ بات تو سمجھ آتی ہے کہ انتہا پسند اپنے اندر داخلے کے دروزے بند کر دیتے ہیں لیکن یہ بات سمجھ نہیں آتی جب لبرل اور پروگریسو اپنے اندر داخلے کے دروازے کیوں بند کر دیتے ہیں۔ انتہا پسند ڈائیلاگ کے خلاف بات سمجھ میں آتی ہے لیکن لبرل ڈائیلاگ کے کیوں خلاف ہیں۔ وہ کسی کی بات نہیں سنتے سمجھتے درست ہے لیکن لبرل بھی تو مخالفت میں منطق اور دلیل کو چھوڑ دیتے ہیں۔ اس کا کیا کریں۔

انتہا پسندی اور دہشتگردی کے حوالہ سے ہمارا سارا بیانیہ یہ رہا ہے کہ مسلح جدوجہد کسی مسئلہ کا حل نہیں۔ بندوق سے نہیں دلیل سے بات منوانے کے کلچر سے ہی معاشرہ ترقی کر سکتا ہے۔ ہم یہی تو کہتے رہے ہیں کہ اگر آپ کی بات میں دم ہے تو اپنی بات طاقت کے بجائے دلیل سے منوائیں۔ جب سوات میں اسلامی نظام اور قاضی عدالتوں کے قیام کی بات ہوئی تب بھی یہی موقف تھا کہ پاکستان کے آئین و قانون کے اندر رہ کر ہی بات ہو سکتی ہے۔

جس کو یہ زعم ہے کہ وہ پاکستان کے عوام کا ترجمان ہے وہ ووٹ کی طاقت سے ہی اپنی طاقت کا مظاہرہ کر سکتا ہے۔ اصل طاقت ووٹ کی طاقت ہے۔ ہم تو مسلح جدو جہد والوں کو یہی پیغام دے رہے تھے کہ وہ قومی دھارے میں آئیں۔ عوام کے سامنے اپنا منشور رکھیں۔ اگر عوام پذیرائی دیں تو ٹھیک ہے نہ دیں تو دوبارہ کوشش کریں۔ اسی پالیسی کے تحت بلوچ قوم پرستوں کو بھی قومی دھارے میں لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ فاٹا میں بھی سیاسی دروازے کھولے جا رہے ہیں۔ میران شاہ میں کرکٹ میچ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ فاٹا میں سیاسی اصلاحات بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ مدارس کی ریفارمز بھی اسی ایجنڈا کے تحت ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان بھی اسی لیے بنایا گیا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ وہ لوگ جو ہمارے انتخابی سیاسی نظام کو نہیں مانتے تھے۔جو ہمارے آئین کو نہیں مانتے تھے۔ جو اپنا نظام اور اپنا آئین لانے کے خواہاں ہیں۔ اگر وہ ہمارے نظام کو ماننا شروع کر دیں۔ اگر آئین کو ماننا شروع کر دیں۔ تو ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ کیا ان کے لیے دروازے بند کر دینے چاہیے۔ کیا انھیں ہمارے نظام میں آنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ یا ان کے لیے دروازے بند کردیں۔ کیا بطور پاکستانی ان کا پاکستان کے آئین میں رہتے ہوئے پاکستان کی سیاست میں حصہ لینے پر پابندی ہونی چاہیے یا انھیں اجازت ہونی چاہیے۔ کیا انھیں اپنے منشور اور نظریہ کے تحت ووٹ مانگنے کی اجازت ہونی چاہیے۔

حلقہ 120 کے انتخابات کے نتائج نے ملک میں لبرل سیاسی جماعتوں کے لیے خطرہ کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔ اس انتخاب میں دو نئی سیاسی جماعتیں میدان میں آئیں اور انھوں نے لبرل جماعتوں کے چھکے چھڑا دیے۔ ملی مسلم لیگ اور لبیک پاکستان کے نام سے سامنے آنے والی ان سیاسی جماعتوں نے تیسری اور چوتھی پوزیشن حاصل کی ہے۔ اور قابل ذکر ووٹ حاصل کیے ہیں۔ یہ درست ہے کہ یہ دونوں جماعتیں ابھی تک الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ نہیں ہیں۔ ملی مسلم لیگ نے الیکشن کمیشن میں اپنی رجسٹریشن کے لیے درخواست دائر کی ہوئی ہے لیکن ابھی تک وہ رجسٹریشن کے عمل سے گزر رہے ہیں۔

الیکشن کمیشن میں رجسٹریشن نہ ہونے کی وجہ سے ان جماعتوں کے پاس کوئی باقاعدہ انتخابی نشان نہیں تھا۔ الیکشن کمیشن بھی ان کی راہ میں رکاوٹ ڈال رہا تھا لیکن پھر بھی یہ دونوںجماعتیں ووٹرز کو ایک حد تک اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب رہیں۔ لیکن اسی پذیرائی کی وجہ سے لبرل سیاسی جماعتوں نے یہ اعتراض شروع کر دیا ہے کہ ان کو انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت ہی کیوں دی گئی۔ ان کو کسی بھی صورت اجازت نہیں ہو نی چاہیے۔ لیکن وہ یہ نہیں بتا رہے کہ پاکستان کے آئین و قانون کی کس شق کے تحت ان پر پابندی لگا دی جائے۔ پاکستان کے انتخابی نظام کو دیکھا جائے تو نہ تو کسی کو وو ٹ ڈالنے سے منع کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی کسی جماعت کو کسی امیدوار کی حمایت سے روکا جاسکتا ہے۔ اگرملی مسلم لیگ کسی امیدوار کی حمایت کرتی ہے تو یہ اس کا آئینی اور قانونی حق ہے۔ اس کے لیے کسی جماعت کا رجسٹرڈ ہونا ضروری نہیں ہے۔

میں حافظ سعید کی ملی مسلم لیگ اور لبیک پاکستان کے نظریات کا حامی نہیں ہوں۔ ان کے نظریات سے اختلاف ہی تو جمہو ریت کا حسن ہے۔اب تو اختلاف ہو سکے گا۔ اور انھیں بھی معلوم ہو گا کہ وہ کہاں کھڑے ہیں۔ یہی تو میدان ہے جہاں انھیں پتہ چلے گا کہ وہ ٹھیک بات نہیں کر رہے۔ جب ووٹ نہیں ملیں گے تو انھیں اپنی سوچ بدلنا ہو گی۔اور اگر ووٹ ملیں گے تو ہم سب کو اپنی سوچ بدلنی ہو گی۔ اگر جیت کر پارلیمنٹ میں پہنچ جائیں گے تو ٹھیک ہے ورنہ گھر تو جائیں گے۔

پاکستان کا آئین تو سیاسی نظام اور الیکٹورل سسٹم کا حصہ بننے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ اگر کوئی مذہبی جماعت جس کے ملک بھر میں لاکھوں کارکنان موجود ہیںوہ سیاسی دھارے میں شامل ہونا چاہتی ہے تو پاکستان کا آئین تو اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ پچھلے کچھ عرصہ سے بہت زوروشور سے کہا جاتا رہا ہے کہ جو جماعتیں انتخابی نظام کا حصہ نہیں ہیں انھیں قومی دھارے میں شامل ہونا چاہیے‘ یہ سیاست سے دور کیوں ہیں؟۔ اس ملک میں رہتے ہوئے یہ پارلیمانی نظام کے مخالف کیوں ہیں‘ انھیں پاکستان میں چلنے والے جمہوری نظام کا حصہ بننا چاہیے۔ جو لوگ اس جمہوری نظام کا حصہ نہیں تھے انھیں نان اسٹیٹ ایکٹرز کہا جاتا رہا لیکن اب اگر مذہبی تنظیم ملی مسلم لیگ کے نام سے سیاسی سرگرمیوں اور انتخابات میں حصہ لینا چاہتی ہے تو اس کی راہ میں رکاوٹیں کیوں کھڑی کی جارہی ہیں؟اور ان کے سیاست میں حصہ لینے پر حکمران جماعت کی طرف سے اس قدر پریشانی کا اظہا رکیوں کیا جارہا ہے؟کیاان کا پارلیمانی نظا م کا حصہ بننے کا کوئی حق نہیں ہے۔

اگر ہم یہ فرض بھی کر لیں کہ وہ کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث رہے ہیں تو اس کی ان کو قانون کے مطابق سزا ملنی چاہیے۔ جب عدالتیں ان کو سزا دے دیں گی تو سیاست اور پارلیمنٹ کے دروازے ان کے لیے خود بخود بند ہو جائیں گے۔ لیکن اگر پاکستان کے قانون اور آئین کے تحت وہ سیاست میں حصہ لینے کے اہل ہیں تو پھر ان کو کیسے روکا جاسکتا۔ لبرلز کی یہ منطق میری سمجھ سے تو بالاتر ہے۔