منتخب کردہ کالم

سیاست پر لعنت!

عدالت عظمیٰ کے سینئر جج جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا پانچ رکنی لارجر بینچ پاناما لیکس کی تحقیقات کیلئے دائر متفرق درخواستوں کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کررہا ہے، لیکن ایک سماعت تو وہ ہوتی ہے جو بینچ میں شامل ججز کمرہ عدالت میں کررہے ہوتے ہیں اور فریقین کے قانونی وکلاء اپنے اپنے موکلان کے موقف کو ثابت کرنے کیلئے قانونی دلائل کے انبار لگارہے ہوتے ہیں اور قانونی موشگافیوں کے ذریعے ججز کو اپنے موکلان کی بات سمجھانے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ دوسری ”سماعت‘‘ عدالت کے باہر ہورہی ہوتی ہے، جہاں پانامہ کیس کے فریقین کے سیاسی وکلاء اپنی اپنی سیاسی جماعت اور سیاسی قائدین کی خودفریبیوں کا چشمہ پہن کر قانونی موشگافیوں کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ عدالت کے اندر اور عدالت کے باہر ہونے والی سماعت کے دوران بعض اوقات بڑے کام کی باتیں بھی سامنے آجاتی ہیں۔ مثال کے طور پرعدالت نے بجا طور پر نکتہ اٹھایا کہ پہلے تو وزیراعظم نے کہا تھا کہ وہ اس کیس میں کوئی استثنیٰ نہیں لیں گے اور اب ان کے وکیل استثنیٰ کی بات کرر ہے ہیں، جس پر وزیر اعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے اپنے دلائل میں کہا کہ اگر ہم استثنیٰ نہ بھی مانگیں تو پھر بھی عدالت کو قانون کے مطابق ہی فیصلہ کرنا ہے۔
دوسری جانب عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو میں وزیر مملکت برائے اطلاعات ونشریات مریم اورنگزیب نے کہا کہ عمران خان حسد میں مبتلا ہیں ۔ وزیراعظم کے ساتھ حسد نے عمران خان کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔ وزیر مملکت کے بیان میں کتنی صداقت ہے، اس کے بارے میں تو کچھ نہیں کہا جاسکتا، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ تین دہائیوں سے زائد عرصے پر پھیلی امن و امان، بدامنی اور لاقانونیت کی ختم نہ ہونے والی داستان میںجب ایک جانب ملک کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ منڈلارہا تھا اور دوسری جانب دنیا کے پورب سے لے کر پچھم تک پاکستان کے ناکام ریاست ہونے کا پراپیگنڈا بھی تواتر سے جاری تھا تو ایسے میں دو سال پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ پاکستان میں مسلسل ہاتھ سے نکلتی صورتحال پر قابو پایا جاسکے گا؟مگر یہ معجزہ بھی ہوکر رہا اور یہ غالبا مسلسل بحرانوں سے دوچار سول ملٹری تعلقات سے حاصل ہونے والے تجربات اور سبق کا ہی نتیجہ تھا کہ 2013ء میں پاکستان کو ایسی سول اور عسکری قیادت ملی، جسے خطے میں پاکستان کی اہمیت اور پاکستان کے خلاف مسلسل ہونے والی سازشوں کا کسی بھی دوسرے سے زیادہ ادراک تھا۔شاید اِسی لیے گزشتہ ساڑھے تین برسوں میں پاکستان میں سول اور عسکری قیادت کے درمیان قابل رشک ذہنی ہم آہنگی پیدا ہوگئی، جو تمام تر افواہوں اور سازشوں کے باوجود جنرل راحیل شریف کے دور میں جاری تھی اور اب بھی جاری ہے۔
سول ملٹری قیادت کے درمیان اِس ذہنی ہم آہنگی کا یقینا ملک کو بہت فائدہ ہوا لیکن اس کے ساتھ ساتھ اِس ذہنی ہم آہنگی کے خلاف بہت سے حلقوں میں حسد کا جذبہ بھی پیدا ہوگیا۔ حسد کا منفی جذبہ پالنے والوں میں بلا شبہ سیاسی و غیر سیاسی دونوں قسم کے حلقے شامل تھے، اور حاسدین کو سول اور عسکری قیادت کے درمیان خوشگوار تعلقات ایک آنکھ نہ بھائے اور اُن کی جانب سے بہانے بہانے سے اِن تعلقات کو سبوتاژ کرنے کی بھرپور کوشش بھی کی گئی اور اس کے ساتھ ساتھ ملک میں امن و امان کی صورتحال پیدا کرکے ملک میں جمہوریت اور معیشت کی گاڑی کو دوبارہ پٹری سے اتارنے کی بھی سعی لاحاصل کی گئی۔ اس مقصد کیلئے کبھی دھرنوںاور جلسے جلوسوں سے جمہوریت کی گاڑی کے سامنے کنٹینر کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی اور کبھی لایعنی تحقیقاتی کمیشنوں کا مطالبہ کرکے ملکی معیشت کا بھٹہ بٹھانے میں کوئی کسر باقی نہ رہنے دی گئی۔ گالی گلوچ کی سیاست اور بات بات پر سڑکوں پر آنے کی دھمکیوں نے بالخصوص گزشتہ ساڑھے تین برسوں میں ملک کو بہت نقصان پہنچایا، لیکن اِن تمام تر سازشوں اور حربوں کے باوجود ایک جانب جہاں بداندیش اپنی اپنی اوقات اور بساط کے مطابق ملک کی ٹانگیں کھینچنے میں مصروف ہیں تو وہیں پاکستان کی سول اور عسکری قیادت ملک کی بہتری، سلامتی اور تحفظ کیلئے اپنے فرائض میں مشغول ہے۔
پاکستان کی سول اور فوجی قیادت واضح کرچکی ہے کہ ”ملک دشمن خفیہ اداروں اور ان کے سہولت کاروں کو ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، ہم چین پاک اقتصادی راہداری کے خلاف تمام سازشوں سے بخوبی آگاہ ہیں اور چین پاک اقتصادی راہداری کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے ہر قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں‘‘۔یہ عزم تو اُس سیاسی و عسکری قیادت کا ہے، جس کے ہاتھ میںا س وقت پاکستان کی باگ ڈور ہے اور اسی عزم کی وجہ سے پاکستان کی اعلیٰ سیاسی و عسکری قیادت ملک کے خلاف سازشوں کے تانے بانے بننے والوں سے نمٹنے کی حکمت عملی مرتب کررہی ہے تو دوسری طرف سیاستدانوں کے ایک قبیلے کو اپنی ناک سے آگے دیکھنے کی ہمت ہی نہیں پڑرہی۔ اس قبیلے کی سرشت کو جوہری سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسی انتہائی غیر جانبدار اور ”غیر سیاسی‘‘ شخصیت نے بھی پانامہ کیس شروع ہونے سے پہلے ہی بھانپ لیا تھا اور پاناما لیکس کے معاملے بیرسٹر اعتزاز احسن نے جب اسی طرح کی دو رُخی پالیسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے قائد آصف علی زرداری کے کرپشن کیسز کا دفاع کیا تو ڈاکٹر عبدالقدیر خان تڑپ کر رہ گئے۔ کئی فورمز پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہا تھا کہ ”وزیراعظم کے احتساب کے خواہش مند سینیٹر اعتزاز احسن اربوں روپے کی کرپشن اور سرے محل جیسے ”عالمی اسکینڈلز‘‘ پر اپنے قائد آصف علی زرداری کے احتساب کا مطالبہ کیوں نہیں کرتے؟‘‘
قارئین کرام!! یہ ہے ہمارے ملک کی سیاست اور یہ ہے ہمارے ملک کا سیاسی قبیلہ جس میں عدلیہ بحالی تحریک میں ”نیک نامی‘‘ اور شہرت کمانے والے بھی اپنی دورخی پالیسی کی وجہ سے ساری عمر کی ”کمائی‘‘ کو داؤ پر لگانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔کیا اس طرح کی ”سیاست‘‘ کی کوئی حد بھی ہوسکتی ہے؟ جس میں عدالت، ججز اور فیصلہ کرنے والے کسی بھی فورم کو اپنے مکروفریب سے چکمہ دینے کی کوشش کی جائے؟ اور جب فیصلہ آپ کے حق میں آنے کی امید نہ ہو یا جہاں آپ خود پھنس رہے ہوں تو وہاں آپ اداروں کی ایسی کی تیسی کرکے رکھ دیں اور سمجھیں کہ یہ آپ کا حق ہے کہ جس کی عزت کی چاہیں دھجیاں اڑاکر رکھ دیں تو پھر فیصلہ کرنے والا متعلقہ فورم ایسی سیاست اور سیاستدانوں پر لعنت نہ بھیجے تو اور کیا کرے؟