منتخب کردہ کالم

سیاست کا پھٹیچر اور ریلو کٹّا (ترازو) محمد بلال غوری

خاموشی سیاستدانوں کا سب سے موثر دفاعی ہتھیار ہوا کرتی ہے۔ اسی لیے ونسٹن چرچل نے ایک موقع پر کم گوئی کی افادیت بیان کرتے ہوئے کہا تھا ”نازیبا الفاظ نگل لینے سے آج تک کسی کا معدہ خراب نہیں ہوا‘‘ چرچل کا خیال ہے کہ سیاست جنگ کے مقابلے میں کہیں زیادہ ولولہ انگیز اور خطرناک ہے۔ میدان جنگ میں تو آپ ایک بار مرتے ہیں اوررزق خاک ہو جاتے ہیں مگر سیاسی جہدوجہد کے دوران بار بار موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میری رائے میں کسی بھی سیاستدان کے لیے سب سے تکلیف دہ موت یہ ہے کہ وہ غیر مقبول ہو جائے۔ چاہے جانے کی احتیاج سب نشوں پر بھاری ہے۔ جب یہ نشہ ٹوٹتا ہے تو کوکین بھی مزا نہیں دیتی۔ اس لیے سیاستدان زبان کے سرکش گھوڑے کو بے لگام نہیں ہونے دیتے‘ اور اس کی باگ مضبوطی سے تھامے رکھتے ہیں۔ کبھی زبان لڑکھڑا جائے تو الفاظ گلے کی پھانس بن جاتے ہیں‘ اور زندگی بھر پیچھا نہیں چھوڑتے۔ مذاق اڑانے والے خود مذاق بن جاتے ہیں۔ بھٹو نے بنگالیوں کے بارے میں جو تضحیک آمیز الفاظ استعمال کیے، وہ آج بھی غیر معقول حوالے کے طور پر ان کی کتابِ زیست میں درج ہیں۔ ضیاء الحق نے آئین کا تمسخر اڑایا اور اب ان پر پھبتیاں کسی جاتی ہیں۔ بلوچوں کے بارے میں کہا گیا یہ جملہ آج بھی پرویز مشرف کا تعاقب کرتا ہے کہ ہم تمہیں وہاں سے ہٹ کریں گے جہاں سے تمہیں پتہ بھی نہیں چلے گا۔ ججز کی بحالی سے انکار کرتے ہوئے آصف علی زرداری نے کہا: وعدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے اور یہ جملہ سائے کی طرح ان سے چمٹ گیا۔ تحقیق ہو تو ایسے مزید کئی جملے دریافت کیے جا سکتے ہیں‘ جو سیاستدانوں کے لیے زہرِ قاتل ثابت ہوئے۔ ہر سیاستدان سے اس نوعیت کا ایک آدھ جملہ جوڑا جا سکتا ہے مگر عمران خان اس ضمن میں بہت فراخدل واقع ہوئے ہیں۔ ایک مرتبہ انہوں نے شیخ رشید کے بارے میں نہایت حقارت سے کہا تھا ”یہ شیدا ٹلی، اسے تو میں اپنا چپڑاسی بھی نہ رکھوں‘‘۔ اب خان صاحب سے یہ توقع تو نہیں کی جا سکتی کہ وہ اپنی بات سے پھر جائیں۔ اس لیے مجھے یقین ہے کہ انہوں نے شیخ رشید کو نہیں رکھا بلکہ شیخ رشید نے انہیں اپنے حلقہ ارادت میں لے لیا ہے۔ نہ جانے یہ ان کی صحبت کا اثر ہے یا کچھ اور مگر ان کی زبان کا گھوڑا کچھ زیادہ ہی بے لگام اور سرکش ہو گیا ہے۔ کاک ٹیل شاید اسی کو کہتے ہیں، نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں۔
عمران خان نے غیر ملکی کھلاڑیوں کے بارے میں جو کچھ کہا، بعض لوگ اسے احساس برتری قرار دے رہے ہیں‘ حالانکہ احساس برتری کا کوئی وجود نہیں۔ احساس برتری دراصل احساس کمتری کی ہی بدترین شکل ہے ۔ ٹھگنے اور ناٹے قد کے لوگ جو تعصب کی آگ میں جل رہے ہوتے ہیں، وہ اپنے آپ کو نمایاں کرنے کے لیے قد آوروں پر جملے کستے ہیں۔ مگر اعلیٰ ظرف لوگ ان رکیک حملوں پر بھی خاموش رہتے ہیں اور کسی کو خاطر میں نہیں لاتے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے:
شورِ دریا سے کہ رہا ہے سمندر کا سکوت
جس کا جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش ہے
خاموشی سیاستدانوں کا سب سے موثر ہتھیار تو ہے لیکن اکلوتا ہتھیار نہیں۔ جہاں خاموشی سے کام نہ چلے اور اس سے کہیں زیادہ مہلک ہتھیار استعمال کرنے کی ضرورت ہو، وہاں سیاستدان رجوع کیا کرتے ہیں۔ بات کتنی ہی رسوا کن کیوں نہ ہو، معذرت سے بھرپور ایک جملہ ہی مخالفین کو چاروں شانے چت کر دیتا ہے‘ اور آپ کے چاہنے والے پھر سے زندہ باد کے نعرے لگانے لگتے ہیں۔ ہاں البتہ، یہ ہتھیار جتنی جلدی استعمال کیا جائے اتنا ہی موثر ثابت ہوتا ہے اور جس قدر تاخیر کی جائے اتنا ہی غیر موثر ہوتا چلا جاتا ہے۔ جیمز رسل نے رجوع کرنے کی اہمیت و افادیت بیان کرتے ہوئے کہا ہے: ”مُردے اور بیوقوف ہی اپنی رائے تبدیل نہیں کرتے، ورنہ زندوں کی دنیا تو تغیر و تبدل سے بھرپور ہے‘‘۔ کپتان کا دوسرا وصف یہ ہے کہ وہ اپنی علت و جبلت کے ہاتھوں مجبور ہیں اور اپنی رائے پر نظرثانی کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ وہ کسی بھی معاملے پر یکایک، سوچھے سمجھے بغیر کوئی موقف اختیار کرتے ہیں اور پھر اسے حرفِ آخر سمجھتے ہوئے ڈٹ جاتے ہیں۔
اگر وہ ایک منجھے ہوئے تدبیر کار کی طرح اگلے ہی دن وضاحت فرما دیتے کہ نجی محفل میں ہونے والی آف دا ریکارڈ گفتگو سے کسی کی دل آزاری ہوئی تو میں معذرت خواہ ہوں، تو سوشل میڈیا کی پیالی میں بپا ہونے والا طوفان تھم جاتا‘ لیکن تعجیل نے معاملے کو مزید بگاڑ دیا اور سوشل میڈیا کے بعد قومی ذرائع ابلاغ میں پھٹیچر اور ریلو کٹّے ایسے الفاظ زیر بحث آنے لگے۔ اپنے الفاظ واپس لینے کے بجائے عمران خان وضاحت پر اتر آئے کہ پھٹیچر کسے کہتے ہیں، ریلو کٹّا کون ہوتا ہے، فوکر سے کیا مراد ہے اور جیٹ کسے کہتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی یہ وضاحت بھی حقائق کے برعکس تھی۔ لگتا ہے انہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد کبھی کرکٹ نہیں دیکھی اور سب بھول چکے ہیں‘ یا پھر کسی سبب سے یادداشت کمزور ہو چکی ہے۔ پھٹیچر تو اسے کہتے ہیں جس کے پاس پھوٹی کوڑی نہ ہو یعنی انتہائی کنگال ہو۔ کرکٹ کے تناظر میں وہ کھلاڑی جو وکٹیں لینے اور رنز بنانے میں قلاش ہو اسے پھٹیچر کہا جا سکتا ہے۔ ریلو کٹّا بھی کرکٹ کی ایک اصطلاح ہے جس سے گلی محلوں میں کھیلنے والے خوب واقف ہیں۔ جب سات کھلاڑی ہوں اور دو ٹیمیں بنانی ہوں تو ساتواں ریلو کٹّا بن جاتا ہے اور دونوں طرف فیلڈنگ بھی کرتا ہے اور بیٹنگ بھی۔ مگر خان صاحب کچھ اور ہی بتا رہے تھے۔ جب خان صاحب تاویلیں پیش کر رہے تھے تو ایک ہی جملہ ذہن میں آ رہا تھا کہ عذرِ گناہ بدتر از گناہ۔ وہ پس و پیش کے باعث مسلسل اس دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر انہوں نے کہا کہ پھٹیچر کوئی تضحیک آمیز لفظ نہیں ہے‘ لوگوں کو اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی۔ بالفرض لوگ عمران خان کو پھٹیچر کہیں تو کیا وہ برا نہیں منائیں گے؟

چاہے جانے کی احتیاج سب نشوں پر بھاری ہے۔ جب یہ نشہ ٹوٹتا ہے تو کوکین بھی مزا نہیں دیتی۔ اس لیے سیاستدان زبان کے سرکش گھوڑے کو بے لگام نہیں ہونے دیتے‘ اور اس کی باگ مضبوطی سے تھامے رکھتے ہیں۔ کبھی زبان لڑکھڑا جائے تو الفاظ گلے کی پھانس بن جاتے ہیں‘ اور زندگی بھر پیچھا نہیں چھوڑتے۔ مذاق اڑانے والے خود مذاق بن جاتے ہیں۔