سیاست گڈ ٹائمنگ کا نام ہے…خالد مسعود خان
بالآخر بلی تھیلے سے باہر نکل ہی آئی اور جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے نام پر مسلم لیگ ن کے تمام ”مفرور‘‘ ارکان اسمبلی اجتماعی طور پر تحریک انصاف میں شامل ہوگئے۔ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ تین روز قبل پی ٹی آئی میں ضم ہوگیا۔ مجھے گمان ہی نہیں یقین تھا کہ یہی کچھ ہوگا۔ سو میرا یقین سچ ثابت ہوا۔
دو ہفتے پہلے ایک ٹی وی پروگرام میں مجھے بھی مدعو کیا گیا۔ پروگرام میں میرے علاوہ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے دو ارکان بہاولنگر کے حلقہ این اے 190 سے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے طاہر بشیر چیمہ اور پی پی 264‘ لیہ 3 سے ہی مسلم لیگ ن کے منتخب ہونے والے ایم پی اے قیصر عباس مگسی شریک تھے۔ دوران گفتگو کافی مزے لگتے رہے۔ میں نے قیصر مگسی سے پوچھا کہ وہ اب اگلا الیکشن کس پارٹی سے لڑیں گے؟ اس نے کافی سوچ بچار کے بعد جواب دیا کہ ابھی وہ اس بارے کچھ کہہ نہیں سکتا۔ الیکشن لڑنا دراصل صرف ایک آدمی کا کام نہیں۔ اس کے دوست‘ حامی اور علاقے کے دیگر لوگ سب مل کر الیکشن کے میدان میں اترتے ہیں۔ وہ بھی الیکشن سے پہلے اپنے دوستوں‘ حامیوں اور اپنے علاقے کے معززین سے مل کر فیصلہ کرے گا کہ اسے کس پارٹی سے الیکشن لڑنا چاہئے۔ میں نے چسکہ لینے کے لیے اگلا سوال داغ دیا کہ اگر اس کے دوستوں‘ حامیوں اور علاقے کے معززین نے یہ کہا کہ اسے اگلا الیکشن مسلم لیگ ن کی طرف سے لڑنا چاہیے تو وہ کیا کریگا؟ مگسی صاحب کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ اس موقع پر منجھے ہوئے طاہر بشیر چیمہ اس کی مدد کے لئے آئے اور اسے اس مشکل سے نکالا۔
مجھے اس بات کا اس دن سے ہی گمان تھا جس دن اس محاذ کے نام پر چھ سات لوگ مسلم لیگ ن کو چھوڑ کر علیحدہ ہوئے تھے۔ اس روز میرے پاس دفتر میں میرے دو تین دوست بیٹھے تھے۔ ایک دوست نے مسلم لیگ چھوڑنے والے ایک ایم این اے کے بارے میں بڑے تیقن سے کہا کہ وہ 2018ء میں آزاد الیکشن لڑے گا۔ میرا اس ایم این اے کے ساتھ کسی حوالے سے تعلق ہے۔ میں نے فون اٹھایا اور اس کا نمبر ملا دیا۔ اس نے فون اٹھایا تومیں نے چھوٹتے ہی پوچھا کہ وہ کس پارٹی میں جارہا ہے؟ اس نے بتایا کہ وہ پی ٹی آئی میں جارہا ہے۔ فون بند کرکے میں نے سامنے بیٹھے ہوئے اپنے دوست سے پوچھا کہ اب اس کا کیا خیال ہے؟ وہ کہنے لگا کہ آپ کا اندازہ درست ہے۔ میں نے دوچار مزید منحرف ارکانِ اسمبلی کا نام لے کر کہا کہ یہ بھی پی ٹی آئی میں چلے جائیں گے۔ دو چار دن بعد میری بات پی ٹی آئی کے ایک ذمہ دار سے ہوئی تو میں نے اس سے پوچھا کہ کیا پی ٹی آئی صوبہ جنوبی پنجاب محاذ والوں سے کوئی ایسا انتخابی بندوبست کرسکتی ہے کہ جو لوگ پی ٹی آئی جوائن نہ کریں پی ٹی آئی ان کے خلاف اپنا امیدوار کھڑا نہ کرے؟ وہ دوست کہنے لگا :ایسا ممکن نہیں۔ عمران خان ان لوگوں کی مدد کرکے ان کو آزاد حیثیت سے منتخب نہیں کروائے گا، کیونکہ پھر یہی آزاد ارکان پریشر گروپ بنا کر ہمیں سیاسی طور پر بلیک میل کریں گے اور ہم ان سے بلیک میل ہونے پر مجبور ہوں گے۔ اگر یہ آزاد حیثیت یا صوبہ جنوبی پنجاب محاذ کی طرف سے الیکشن لڑتے ہیں تو تحریک انصاف ان کے مقابلے پر اپنا امیدوار ضرور کھڑا کرے گی۔ ہاں! اگر یہ لوگ پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرلیتے ہیں تو پھر اور بات ہے ،پھر ان کو ٹکٹ دینے پر غور ہوسکتا ہے۔ میں نے کہا :غور کیا ہوسکتا ہے؟۔ طاہر بشیر چیمہ نے بہاولنگر والی سیٹ پر پی ٹی آئی کے امیدوار سے قریب دو گنے ووٹ لیے تھے، بلکہ دو گنے سے بھی دو ہزار ووٹ زیادہ لیے تھے۔ اسی طرح این اے 169 وہاڑی III سے آزاد الیکشن لڑنے والے طاہر اقبال چوہدری نے تحریک انصاف کے امیدوار آفتاب احمد خان کھچی سے تقریباً تین گنا ووٹ لیے تھے۔ اس نے آزاد حیثیت میں مسلم لیگ ن کی ”توپ‘‘ تہمینہ دولتانہ کو قریب سترہ ہزار ووٹ سے شکست دی تھی۔ بھلا اسے پی ٹی آئی کیسے ٹکٹ نہیں دے گی۔ اسی طرح این اے 194 رحیم یار خان III سے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ کر جیتنے والے مخدوم خسرو بختیار نے مسلم لیگ ن کے امیدوار معین الدین سے تین گنا اور پی ٹی آئی کے امیدوار مخدوم عماد الدین سے تقریبا چار گنا زیادہ ووٹ لیے تھے۔ اب بھلا ایسے امیدواروں کو پی ٹی آئی کیسے ٹکٹ نہیں دے گی؟ ان لوگوں نے بالآخر پی ٹی آئی میں ہی جانا تھا اور وہ چلے گئے۔
اسی ٹی وی کے پروگرام میں ،میں نے کہا کہ اس ملک میں پٹواری اپنے حلقہ پٹوار میں سے دو کھیوٹ کم نہیں ہونے دیتا اور آپ امید کرتے ہیں کہ تختِ لاہور پر براجمان حکمران اپنی دو لاکھ مربع کلومیٹر سے زائد رقبے پر مشتمل ”سلطنت‘‘ کو تقسیم کرنے پر راضی ہوں گے؟ ایسا ہرگز ممکن نہیں۔ ملتان‘ بہاولپور اور ڈیرہ غازی خان کا مجموعی رقبہ پورے پنجاب کے نصف کے لگ بھگ ہے۔ اب بھلا کون اپنی سلطنت کو آدھا کرنے پر بخوشی راضی ہوتا ہے؟۔ میں نے طاہر بشیر چیمہ کی طرف دیکھا اور کہا :چیمہ صاحب یہ تو حکومت اور زیر تصرف علاقے کی بات تھی۔ آپ نے ماشا اللہ اپنی پانچ سالہ مدت ختم ہونے سے ”سوا‘‘ مہینہ پہلے استعفیٰ دیا ہے۔ محض سوا مہینہ پہلے ،اور حال یہ ہے کہ آپ اس سوا مہینے کی تنخواہ‘ سہولتیں اور آسانیاں چھوڑنے پر تیار نہیں، لیکن شہباز شریف سے امید کرتے ہیں کہ وہ اپنی سلطنت کا آدھا حصہ چھوڑ دے۔ طاہر بشیر چیمہ کہنے لگا کہ اس نے سپیکر سے تیس اپریل تک ٹائم لیا ہے اور وہ تیس اپریل کو سپیکر کے پاس جاکر اپنے استعفے کی تصدیق کردے گا۔ مجھے تبھی یقین تھا کہ یہ تیس اپریل کبھی نہیں آئے گی۔
اب سارے مستعفی ارکان نے اجتماعی طور پر پی ٹی آئی جوائن کرلی ہے۔ ایک دوست بتارہا تھا کہ خانیوال سے ایک منتخب ایم این اے اسے ملا تھا اور کہہ رہا تھا کہ اس پر مسلم لیگ ن چھوڑ کر صوبہ جنوبی پنجاب محاذ میں شامل ہونے کے لیے بڑا دبائو ہے۔ میں نے پوچھا :یہ دبائو کون ڈال رہا ہے؟۔ دوست کہنے لگا : وہ ایم این اے یہ بات کھل کر بتانے کے لیے تیارنہیں۔ میں نے کہا :وہ جھوٹ بول رہا ہے۔ اگر وہ بہادر ہے تو نام بتائے اور اگر وہ اتنا بزدل ہے کہ نام بتانے پر تیار نہیں تو دبائو کس طرح برداشت کررہا ہے؟ وہی دوست بتانے لگا کہ وہ ایم این اے کہہ رہا تھا کہ پہلے دبائو لوکل سطح کا تھا، اب دبائو بہت اوپر سے آرہا ہے۔ میں ہنسا اور کہا: ان صاحب کو میں اچھی طرح جانتا ہوں، وہ جتنی جرأت رکھتے ہیں مجھے معلوم ہے۔ اب صرف اپنے آپ کو بہادر اور جرأت مند ثابت کرنے کے لیے اور ادھر ادھر ایسے بیانات جاری فرما رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ ڈیڑھ دو کلو سے زیادہ دبائو برداشت کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔
یہ محض اتفاق ہے کہ میرے کالموں میں آج کل برادر عزیز جاوید ہاشمی کا تذکرہ ذرا زیادہ آرہا ہے لیکن کیا کیا جائے؟ صورت حال ہی کچھ ایسی بن رہی ہے کہ جنوبی پنجاب اور ملتان کی سیاست کا ذکر ہو تو ہاشمی صاحب کا ذکر آہی جاتا ہے۔ اب انہوں نے پھر ایک ایسا بیان دے مارا ہے کہ بات کیے بن رہ نہیں سکتا۔انہوں نے فرمایا کہ وہ بہت جلد وسیب کی سرائیکی تنظیموں اور سٹیک ہولڈرز سے رابطہ کریں گے۔ مزید فرمایا کہ میں جنوبی پنجاب صوبے کی جنگ لڑوں گا اور جیت کر دکھائوں گا۔ سیاست دراصل ٹائمنگ سے جڑی ہوئی سائنس ہے۔ جب جاوید ہاشمی نے تحریکِ انصاف چھوڑی تھی میں نے اسی وقت اپنے کالم میں انہیں مشورہ دیا تھا کہ وہ صوبہ جنوبی پنجاب کی مہم چلائیں کہ اس ایشو کو ابھی تک کسی بڑے اور قد آور سیاستدان کی قیادت اور رہنمائی میسر نہیں آئی، لیکن جاوید ہاشمی صاحب نے میرا مشورہ تب قبول کرنے کے بجائے میاں نواز شریف کی دوبارہ توجہ حاصل کرنے کی مہم شروع کردی ،جو قطعاً بے فائدہ تھی کہ میاں صاحب دل میں کینہ رکھنے کے معاملے میں ”شترکینہ‘‘ والے محاورے سے بھی کہیں آگے کی شے ہیں۔ رہ گئی بات جنوبی پنجاب صوبہ کی! تو وہ یہ گاڑی مس کرچکے ہیں۔ اب اس گاڑی کا ڈرائیور عمران خان ہے۔ سیاست گڈ ٹائمنگ کا نام ہے اور بعد میں کی جانے والی بھاگ دوڑ ایسے ہی ہے جیسے سانپ گزرنے کے بعد لکیرپیٹی جائے۔ سو اب صرف لکیر پیٹی جاسکتی ہے اور کچھ نہیں۔