منتخب کردہ کالم

سیاست یا سرکس کا کھیل؟ …بلال غوری

پڑوس

سیاست یا سرکس کا کھیل؟ …بلال غوری
یوں تو ایسے دانشوروں کی کوئی کمی نہیں جنہوں نے جمہوریت کے بارے میں دل کھول کر ہرزہ سرائی کی مگر امریکی اسکالر،ایچ ایل میکن نے تو تمام حدیں ہی عبور کر لیں ۔موصوف فرماتے ہیں:”بندر کے پنجرے سے سرکس چلانے کے فن اور سائنس کا نام جمہوریت ہے ۔ ‘‘پہلے پہل مجھے ایچ ایل میکن کی بات بہت مضحکہ خیز معلوم ہوتی تھی مگر ”تماشہ گروں ‘‘ کو ڈگڈگی پر اپنے اپنے ”بندر‘‘نچاتے دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں یہ الفاظ ہمارے ملک کے سیاسی حالات پر کس قدر صادق آتے ہیں؟دنیا بھر میں جمہوری کلچر جو بھی ہو،پاکستان میں جمہوریت چلانا سرکس چلانے سے کسی طور کم نہیں۔کھیل آگے بڑھ رہا ہوتا ہے ،تماشائی دم سادھے منتظر ہوتے ہیں کہ اب آگے کیا ہوگا،شیر دھاڑتے ہوئے آگے بڑھتا ہے ،دیکھنے والے یہ سوچ کر آنکھیں بند کر لیتے ہیں کہ بس اب شیر شکاری کو ہڑپ کرلے گامگر آنکھیں کھولتے ہیں تو یہ دیکھ کر دنگ رہ جاتے ہیں کہ کچھ دیر پہلے خونخوار نگاہوں سے دیکھنے والا شیر قدموں میں بیٹھ کر تلوے چاٹ رہا ہوتا ہے۔تماشائی تالیاں پیٹتے ہیں اور کھیل شیطان کی آنت کی مانند طویل ہوتا چلا جاتا ہے ۔کبھی یوں محسوس ہوتاہے کہ یہ سب ہدایت کار کا کمال ہے۔کبھی اسکرپٹ رائٹر کو داد دینے کو جی چاہتا ہے تو کبھی یوں لگتا ہے جیسے مسخرے کھیل جمتا دیکھ کر اسکرپٹ سے ہٹ رہے ہیں اور اپنی ہی دھن میں پرفارم کیئے چلے جا رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں سیاست کا کھیل بھی کوئی پہیلی یا معمہ ہے جسے حل کرنا ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہے۔اب نوازشریف کی پاکستان واپسی کا معاملہ ہی دیکھ لیں کس قدر دلچسپ اورڈرامائی ہے۔وہی تجزیہ نگار جو پورے وثوق کیساتھ کہہ رہے تھے کہ نوازشریف اب کبھی واپس نہیں آئے گا،وہی اب یہ بتا رہے ہیں کہ نوازشریف کو واپس آنے کے لیے ان کے بھائی شہباز شریف نے قائل کیا ۔پہلے انہوں نے چوہدری نثار علی خان سمیت انتہائی اہم اور بااثر شخصیات سے ملاقاتیں کیں اور ان کا پیغام نوازشریف تک پہنچایا ۔ ایک صاحب جنہیں نوازشریف سے قربت کا دعویٰ ہے ان سے بات چیت ہوئی تو فرمانے لگے
معاملہ اس کے برعکس ہے۔بااثر حلقوں کی جانب سے نوازشریف کو پیغام تو یہ دیاگیا تھا کہ جیسے پرویز مشرف نے اپنی والدہ کی علالت کو جواز بنا کر خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر رکھی ہے اسی طرح آپ بھی اپنی اہلیہ کی بیماری کی بنیاد پر برطانیہ میں مقیم رہیں اور واپس نہ آئیں کیونکہ اگر آپ واپس تشریف لائیں گے تو تصادم کی فضاپیدا ہو گی ،سیاسی حدت بڑھے گی اور آپ کے خاندان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گا لیکن نوازشریف یہ بات مان لیتے اور بھگوڑے ہو جاتے تو پھر ایک غاصب ڈکٹیٹر اور جمہوریت پسند لیڈر میں کیا فرق رہ جاتا۔عدالتوں کا سامنا نہ کرنے کی صورت میں سیاسی مخالفین ان پر بھی بھگوڑے کی پھبتی کستے اور لندن ہی کے ایجوئر روڈ پر رہائش پذیر پرویز مشرف ان پر ہنستے۔لہٰذا نوازشریف نے وطن واپس آکر حالات کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
باخبر صحافی بتاتے ہیں کہ اسکرپٹ کے مطابق اب یا تو طویل عرصے کے لیے نگران سیٹ اپ آئے گا اور انتخابات ملتوی ہو جائیں گے یا پھر اسی سال عام انتخابات کا اعلان ہو گا۔یعنی انتخابات یا تو اسی سال ہونگے یا پھر نہیں ہونگے۔اس اسکرپٹ کا شان نزول یہ ہے کہ مارچ 2018ء میں سینیٹ کے انتخابات ہیں جن میں مسلم لیگ(ن) اکثریتی پارٹی کے طور پر ابھر کر سامنے آئے گی، اگر مارچ آنے سے پہلے انتخابات نہ ہوئے تو ایوان بالا میںاکثریت حاصل ہونے کے بعد مسلم لیگ (ن) بہت مضبوط ہو جائے گی اور اسے اقتدار سے الگ کرنا ناممکن ہو جائے گا۔اس شان نزول کے تناظر میں چند روز قبل تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے پریس کانفرنس میں فوری طور پر عام انتخابات کروانے کا مطالبہ کیا تو مجھے مشہور پنجابی گانے کے بول یاد آگئے ”میں نئیں بولدی وے لوکو ،میں نئیں بولدی میرے چوں میرا یار بولدا‘‘۔نوازشریف کی نااہلی سے پہلے جب مسلم لیگ (ن) یہ دلیل پیش کیا کرتی تھی کہ مائنس ون فارمولے سے جمہوریت کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں تو عمران خان یہ کہہ کر اس دلیل کو رد کیا کرتے تھے کہ ایک شخص کے جانے سے جمہوریت خطرے میں نہیں پڑتی ۔پارلیمنٹ موجود ہے ،نئے وزیراعظم کا انتخاب ہو گا اور جمہوری نظام خوش اسلوبی سے چلتا رہے گا۔لیکن اب ان کا کوا پھر سے سفید ہو گیا ہے اور وہ کہہ رہے ہیں کہ جمہوریت ایک ہی شخص کے مرہون منت ہوتی ہے ،وہ چلا گیا ہے تو اب جمہوریت کی مضبوطی کے لیے ضروری ہے کہ نئے سرے سے انتخابات کروائے جائیں ۔انہوں نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے کمزور وزیر اعظم ہونے کی ایک دلیل یہ دی کہ وہ نوازشریف کے بغیر کوئی بڑا فیصلہ نہیں کر سکتے ۔تکلف برطرف ،کیا وزیر اعلیٰ پرویز خٹک اپنی پارٹی کے قائد عمران خان کی تائید و حمایت حاصل کیے بغیر کوئی بڑا فیصلہ کر سکتے ہیں؟کیا سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ آصف زرداری کی منشا و مرضی کے بغیر چل سکتے ہیں؟ہمارے ہاں تمام سیاسی جماعتوں کو کوئی ایسی شخصیت درکار ہوتی ہے جسے” گھنٹہ گھر‘‘ کی حیثیت حاصل ہو۔اب نوازشریف مسلم لیگ(ن) کے قائد ہیں تو ظاہر ہے کہ سب فیصلے ان کی اجازت سے ہی ہونگے۔
اب سوال یہ ہے کہ اس اسکرپٹ کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) یا نوازشریف کی حکمت عملی کیا ہے؟سرکس کے اس کھیل کا انجام کیا ہو گا؟کیا نوازشریف بے انتہا دبائو اور میڈیا ٹرائل کے نتیجے میں گھٹنے ٹیک دیں گے ؟ میرے خیال میں یہ ایک اعصابی جنگ ہے اور جو لوگ نوازشریف کی طبیعت اور مزاج سے واقف ہیں ان کا خیال ہے کہ اعصابی
جنگ میں نوازشریف مات کھانے والے نہیں۔حالات جو بھی رُخ اختیار کریں ،مارچ سے پہلے عام انتخابات کا اعلان نہیں ہو گا۔ہدایت کار مشکلات میں اضافہ تو کر سکتے ہیں مگر عام انتخابات کے لیے وزیراعظم ہی اسمبلیاں تحلیل کرنے کی سفارش کر سکتا ہے اور صدر مملکت نے اس سمری کو منظور کرنا ہے۔یہ بھی ممکن ہے کہ آئندہ چند ماہ میں ایوان صدر کا مکین بدل جائے۔نوازشریف اور بینظیر کا راستہ روکنے کے لیے پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ میں جنرل پرویز مشرف نے جو ترمیم کی تھی ،وہ غیر موثر ہو چکی ہے اور آئندہ چند ہفتوں میں نوازشریف دوبارہ اپنی پارٹی کی قیادت سنبھال لیں گے ۔جس حکمت عملی کے تحت یہ بل منظور ہوا ہے اسی طرح آئندہ چند ماہ میں آئین کے آرٹیکل 62,63کو محض ارکان پارلیمنٹ کی اہلیت تک محدود کر دیا جائے گایعنی ایک شخص جو رکن اسمبلی منتخب ہونے کے لئے اہل نہیں وہ پارٹی سربراہ کے طور پر بھی اہل ہو گا اور صدر مملکت بھی بن سکے گا۔یوں یہ قانون سازی ہو نے کے بعد ممنون حسین اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں گے اور نوازشریف ایوان صدر میں بیٹھ کر نہ صرف حکمرانی کریں گے بلکہ انہیں استثنا بھی حاصل ہوجائے گا۔یہ ہے مسلم لیگ (ن) کی جوابی حکمت عملی لیکن چونکہ جمہوریت بندر کے پنجرے سے سرکس چلانے کے فن اور سائنس کا نام ہے اس لیے سرکس کے اس کھیل میں کبھی کچھ بھی ہو سکتا ہے ۔

دنیا بھر میں جمہوری کلچر جو بھی ہو،پاکستان میں جمہوریت چلانا سرکس چلانے سے کسی طور کم نہیں۔کھیل آگے بڑھ رہا ہوتا ہے ،تماشائی دم سادھے منتظر ہوتے ہیں کہ اب آگے کیا ہوگا،شیر دھاڑتے ہوئے آگے بڑھتا ہے ،دیکھنے والے یہ سوچ کر آنکھیں بند کر لیتے ہیں کہ بس اب شیر شکاری کو ہڑپ کرلے گامگر آنکھیں کھولتے ہیں تو یہ دیکھ کر دنگ رہ جاتے ہیں کہ کچھ دیر پہلے خونخوار نگاہوں سے دیکھنے والا شیر قدموں میں بیٹھ کر تلوے چاٹ رہا ہوتا ہے۔